کورونا وائرس کی تباہ کاریاں اور قومی قیادت سے توقعات

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ لیڈرز تخلیقی کام کرتے ہیں،اسی لئے رچرڈ نکسن نے کہا کہ مینجمنٹ نثر اور لیڈرشپ ایک شاعری ہے،یہاں یہ سمجھنا ضروری امر ہے کہ بنیادی لیڈر شپ اصول عالمی سطح پر فوج،سیاست ،کاروباراورمیڈیا سمیت تمام پیشوں میں قابل عمل ہیں،تمام عظیم لیڈرز ان اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں،جن میں عوام سے رابطہ،انکے بنیادی مسائل کا ادراک،ایمانداری،مثبت سوچ،خود احتسابی اور سب سے بڑھ کر عاجزی اختیار کرنا شامل ہیں،ایک رہنما جو ان تمام اصولوں پر عمل پیرا رہتا ہے ،وہ مشکل ترین حالات میں بھی چیلنجز کا بہادری سے مقابلہ کرتا ہے،سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن اپنی کتاب: لیڈرز:میں لکھتے ہیں کہ ہم ایک لیڈرز کی عظمت کو تبھی ماپ سکتے ہیں جب وہ مشکل ترین حالات میں بھی ثابت قدم رہے،قائد اعظم کی جلد وفات اور خان لیاقت علی خان کے قتل سے پاکستان کو قیادت کے بحران کا سامنا کرنا پڑا،جسکے نتیجے میںہم سے جبرالٹر آپریشن،مشرقی پاکستان اور کارگل جیسی غلطیاں بھی ہوئی ہیں،بہر حال ہماری ہماری عسکری و سیاسی قیادت نے کئی شعبوں میں کافی اچھے کام بھی کئے،مثال کے طور پر فیلڈ مارشل ایوب خان بڑے ہائیڈل ڈیم بنانے کا وژن رکھتے تھے،جبکہ ذوالفقار علی بھٹونے ایٹمی صلاحیت پر کام کیا جسے بعد میں آنیوالے تمام رہنمائوں بشمول جنرل ضیائ،اسحاق خان،بینظیر بھٹوشہید اورمیاں محمد نواز شریف جنہوں نے آخر کار تمام بیرونی دبائو کے باوجود ایٹمی دھماکے کرنے کا اعزاز حاصل کیا،ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے خطرناک حالات میں نہ صرف دہشتگردی کو کنٹرول کیا بلکہ اسے عبرتناک شکست بھی دی،جی ایچ کیوپر حملہ،راولپنڈی کینٹ میں صدراور آرمی چیف پر دوبار قاتلانہ حملے،قومی دن کی پریڈ کاکئی سالوں تک موخر رہنا،میریٹ ہوٹل،کامرہ اور مہران بیس پر حملے ایک بھیانک خواب ثابت ہوئے،ہم اپنی فوج اور اسکی قیادت کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اعلیٰ حکمت عملی اور کمال جرات و بہادری کیساتھ بھارتی معاونت سے جاری دہشتگردی کے دبائو کا مقابلہ کیا،اس کا اعزا ز ہماری سول آرمڈ فورسز،پولیس اور قانون دان برادری کی قربانیوں کو بھی جاتا ہے،تمام اعلیٰ سیاسی قیادت نے بھی قومی حمایت کے حصول کیلئے اہم کردار ادا کیا ،میاں محمد نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی ،کراچی ،پشاور،کوئٹہ اور شمالی وزیرستان کے بار بار دورے کئے تاکہ ملکی بقا کو لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے قوم کواکٹھا کر سکیں،اب ہم ایک بار پھر کورونا وائرس جیسی ایک بڑی آفت کی گرفت میں ہیں،اور اس نے بلاشبہ عمران خان کی لیڈر شپ کیلئے ایک بڑا چیلنج سامنے لا کھڑا کیا ہے،اب انہوںنے قوم کو اکٹھا کرنا ہے۔پاکستان کا قرضہ 41ٹریلین روپے تک پہنچ چکا ہے جو ہماری جی ڈی پی کا 94فیصد ہے،جبکہ اسکے ساتھ ساتھ آبادی میں بھی 1.8فیصد اضافہ ہو رہا ہے،کورونا وائرس ایک انسانی المیہ ہے جس سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مر رہے ہیں،اس نے عالمی معیشت پر بھی کافی برے اثرات چھوڑے ہیں،اسکا پھیلائو کرہ ارض پر جاری ہے،175ممالک اور علاقوں میں اسکے مریض سامنے آرہے ہیں،اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اکنامک اینڈ سوشل افئیرز کے تجزیہ کے مطابق معیشت پر اثرات کی شدت کااندازہ دو عناصر سے لگایا جا سکے گا ایک تو بڑی معیشتوں میں لوگوں کی نقل وحرکت اور معاشی سرگرمیوںپر پابندیوں کا دورانیہ کتنا ہوگا،اور اس بحران کیخلاف مالی رد عمل کی افادیت اور اسکا اصل حجم کیا ہوگا،8جنوب ایشیائی ممالک کے حوالے سے ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کافی خطرناک ہے،رپورٹ کے مطابق پاکستان جو 2021میں جی ڈی پی میں ایک فیصد نمو کی توقع کر رہا تھا ،اسے 68سالوں میں پہلی بارشرح نمو منفی دو فیصد سے زیادہ ملے گا،یہ 1971سے بھی بدترین صورتحال ہوگی ،کیونکہ اس وقت ہمیں جی ڈی پی کی شرح نمو 1.3فیصدمثبت میں ملی،عالمی بینک پاکستان میں فی کس آمدنی میں کمی کیساتھ ساتھ خوراک کا عدم تحفظ بھی دیکھ رہا ہے،عالمی معیشت کی شرح نمو جسے 2021میں 8فیصد تک جا نا تھا وہ بھی سکڑ کر 3فیصد رہ گئی ہے،امریکی جی ڈی پی بھی 5.9فیصد نیچے جا چکی ہے،اسکے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر بھی بد ترین اثرات مرتب ہونگے،میری حکومت کیلئے عاجزانہ تجاویز یہ ہیں کہ وزیراعظم خود کو صرف پی ٹی آئی کا نہیں پوری قوم کاوزیراعظم بن کر نیشنل ایکشن پلان بنانے کیلئے تمام وزرائے اعلیٰ ،وزیراعظم آزاد کشمیر ،وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان و دیگر سمیت آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور عاجزی وایمانداری دکھائیں ،سب کیلئے اصل احترام کا مظاہرہ کریں لیکن سخت پالیسی فیصلے لیں اور بنا ہچکچائے ان کا نفاذ یقینی بنائیں،ہمیں نہیں معلوم کہ ہم اس وائرس سے کتنا عرصہ متاثر رہینگے ،ہمیں مختصر اور طویل مدتی پلا ن بنانا ہونگے ،اور ہمیں اپنی زندگیوں ،معیشت اور فوڈ سکیورٹی کو لاحق خطرات اور نقصانات کا تخمینہ لگا کر اسکے ازالے کا منصوبہ بنانا ہو گا،اب جبکہ ہتھیار ڈالنا کوئی آپشن نہیں رہا ہے ،ہمیں سیلف آئیسولیشن اور سماجی فاصلوں کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہوگا،لیکن کاشتکاروں کو تمام تر احتیاطی تدابیر کیساتھ گندم کی فصل کاٹنے اور
تھریشر کرنے کی اجازت دی جائے،پیرس کلب ،آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامک بینک سمیت تمام عالمی مالیاتی اداروں کو لکھنا ہو گا کہ قرضوں میں ریلیف کیلئے اقدامات کریں،کسانوں کو سستا بیج اور کھاد خریدنے کیلئے ہر ممکن مالی مدد فراہم کی جائے تاکہ وہ کپاس،چاول ،گنا ،گندم ،دالوں جیسی بمپر فصلیں کا شت کر سکیں،ضروری صنعتوں کو مالکان کے سخت کنٹرول میں کام کرنے کی اجازت دی جائے ،مالکان اپنے ملازمین کیلئے حفظان صحت کے اصولوں کو یقینی بنائیں،دفاعی پیداوار کی صنعتیں مکمل احتیاطی تدابیر کیساتھ پہلے ہی اپنا کام بھرپور طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں،ان صنعتوں کوسینیٹائزرز،ماسک ،ٹیسٹنگ کٹس،ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کیلئے حفاظتی لباس اور انتہائی ضرورت کی چیز وینٹی لیٹرز تیار کرنے کیلئے استعمال کیاجائے،پی او ایف،پی ایم او اور ڈیسٹو جیسے دفاعی ادارے پہلے ہی حیران کن کام کر رہے ہیں،وزیراعظم اپنے غیر منتخب مشیروں میں کمی کر کے پارلیمانی کمیٹیوں کو اپنا موثر کردار ادا کرنے دیں،تمام احتیاطی تدابیر کیساتھ سینٹ کا اجلاس طلب کیا جائے،پارلیمانی نمائندے وزراء کو رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں اور انکی نگرانی کو بھی یقینی بنایا جائے،غیر ملکی ترسیلات زر ہماری معیشت کو اٹھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں،تاحال اس مالی سال میں اب تک 17بلین ڈالرز کی ترسیلات زر موصول ہو چکی ہیں،یورپ ،امریکا اور گلف ممالک میں ہمارے 9ملین پاکستانی کام کرتے ہیں جن میں اکثریت کو نکالا جا رہا ہے ،ہمارے سفیر وہاں کی حکومتوں اور بڑے اداروں سے ملکر ان افراد کی ملازمت کا تحفظ یقینی بنائیں،ایک آرڈیننس کے ذریعے مقامی حکومتوں کا نظام بحال کیا جائے،یہ اپنے علاقوں میں ہر ضرورتمند تک پہنچ کر انکی مدد کو یقینی بنائینگے۔اس سے بیروزگاری اور خوراک کی قلت سے پیدا ہونے والے انسانی تباہی کو روکا جا سکتا ہے ۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن