زکوٰۃ ارکان اسلام کا تیسرااہم رکن جس کے مرکب لغوی معنی پاک کرنا یا بڑھانا ہے۔یہ مالی عبادت آسودہ حال مسلم افراد سے سالانہ مدت تعین اور شرائط مخصوصہ کے ساتھ لیکر مستحق مسلمان افراد تک پہنچانے کا عمل ہے۔ آٹھ ہجری میں زکوٰۃفرض ہوئی اور نو ہجری میں اس کی ادائیگی اور مصارف کی تصریح وتشریح ہوئی۔زکوٰۃ کا حکم نہ صرف امتِ محمدیہ کیلئے لازم قرار پایا بلکہ ’’سورہ مائدہ‘‘ میں ’’بنی اسرائیل‘‘ کو زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم موجود ہے۔اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں بار بار جہاں نماز کا حکم ہوا وہاں زکوٰۃ کی ادائیگی کی تاکید بھی کی گئی ۔اللہ تعالیٰ نے غریبوں کی حاجت روائی و مداوائی،انسانوں کے درمیان غمگساری،ایثار،محبت اور اجتماعیت پیدا کرنے ،گناہوں کے کفارہ اور اللہ کی نصرت کے حصول کیلئے زکوٰۃ کو فرض قرار دیا۔ اس کوادا کرنے والے کو اللہ پاک سچا مومن اور ادا نہ کرنے والے کو آخرت کا منکر قرار دیتے ہیں۔زکٰوۃ صاحبِ نصاب(جس پر زکٰوۃ فرض ہو)پر لازم ہے۔زکوٰۃ 2.5فیصد(مال کا چالیسواں حصہ) کے حساب سے لی جاتی ہے ۔اس کِی ادائیگی کا نصاب کا ساڑھے سات تولہ سونا،ساڑھے باون تولہ چاندی یا س کے برابر نقدی ،مال تجارت موجود ہو۔زکوٰۃ مال مویشیوں پر بھی لازم ہے۔ اس کو صدقہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔یہ انسان کی سرشت کو بخیلوں سے نکال کر سخی کی طرف راغب کرتی ہے جو صفت اللہ اور اللہ کے رسول کو بہت عزیز ہے۔زکوٰۃ دل کو سکون و طمانیت بخشتی ہے۔
یہ معاشرے میں معاشی استحکام کاذریعہ اور معاشی نا ہمواری وجرائم کا خاتمہ کرتی ہے۔گداگری جیسی کریہہ لعنت متروک ہوتی ہے۔ جب ضرورت مند کو اپنی جائز ضرورت کیلئے امداد میّسر آجاتی ہے تو وہ چوری یا دیگر منفی ذرائع ضرورت پوری کرنے کا خیال ترک کر دیتا ہے ۔ اس کے مصارف’’ سورہ توبہ ‘‘میں واضح ہیں۔’’صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کیلئے ہے اورعاملوں(زکوٰۃ جمع کرنے والے)کیلئے ہے۔اور ان کے لئے جن کے دلوں
میں اُلفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑوانے میں،اور تاوان بھرنے والوں میں،اور اللہ کے راستے میں،اور مسافروں میں،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے‘‘زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والوں کو سخت سزا کی وعید ہے ــ’’جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیںاور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں درد ناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے جس دن اس خزانے کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں ،پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی۔‘‘اس طرح نبی پاک کا فرمان ہے ۔’’جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں سے اپنی کنجوسی کو بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کیلئے نہائت بد تر ہے۔‘‘ نبی پاک ؐ کا یہ بھی فرمان ہے ہر شخص روز قیامت اپنے صدقے کے سائے تلے ہو گا۔اس کی ادائیگی سے مال پاک اور اللہ پاک رزق میں اضافہ فرما دیتے ہیں۔ جس کے طفیل رزق کی بڑھوتری کا ذکر بار با فرمایا گیا۔’’تم لوگ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کا بہتر بدلہ دے گا۔‘‘ زکوٰۃ ادا کرنے سے رزق پاک ہو جاتا ہے ۔عصر حاضر میں جب عالمی وباء نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس کے ضمنی اثرات معیشت پر پڑے ہیں۔ماہ مقدس کی آمد آمد ہے جس میں نیکیوں کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے حاجت مندوں کی مالی اعانت فرما کے زکوۃ کی ادائیگی فرما کر اللہ اور اس کے کنبہ کو راضی کر لیا جائے۔زکوٰۃ کی ادائیگی میں اول خویش بعد درویش کا فومولا اپنایا جائے ۔ہمارے ارد گرد اپنے بیگانے کئی گھرانے ہماری امداد کے متظر ہوتے ہیں لیکن ہماری نظریں ان پر جانے کی بجائے ایثار وزکوٰۃ کیلئے دور دور بھاگ رہی ہوتی ہیں ۔زکوٰۃ بے شمار انفرادی و اجتماعی ،دنیاوی و اخروی فوائد کا موجب ہے ۔اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم اور مستحق افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کی توفق عطا فرمائے۔