دنیا کے 200سے زائد ممالک پچھلے دو ماہ سے کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ابھی تک عوامی جمہوریہ چین کے سوا کسی ملک نے اسے شکست نہیں دی اس کی یہ وجہ نہیں کہ عوامی جمہورہ چین نے وائرس ختم کرنے کے لئے ویکسین دریافت کر لی ہے بلکہ چینیوں نے ’’کورونا ‘‘ پر قابو پانے کا راز پا لیا ’’ووہان ‘‘ جہاں کورونا وائرس نے جنم لیا وہاں مکمل لاک ڈائون کر کے لوگوں کو ایک دوسرے کے درمیان فاصلہ برقرار رکھنے پر مجبور کر دیا بالآخر نہ صرف ’’کورونا ‘‘ کو شکست دے دی بلکہ پورے چین کو اس سے محفوظ کر لیا اس کی ایک وجہ یہ ہے چینی قیادت جہاں اپنے فیصلے کرنے میں یکسو تھی وہاں انہیں عمل درآمد کرانے میں کوئی رو رعایت نہیں کی چین کی قیادت نے وہ کار نامہ کر دکھایا جس کی آج کے دور میں نظیر نہیں ملتی چینی قیادت دو عملی کا شکار نہیں ہوئی بلکہ جو فیصلہ کیا اس پر عمل درآمد کرایا ۔ بدقسمتی سے پاکستان کی صورت حال یکسر مختلف ہے دو ماہ ہونے کو ابھی تک وزیر اعظم لاک ڈائون کے بارے میں ’’کنفیوژن ‘‘ کا شکار ہیں ملک میں لاک ڈائون جاری بھی ہے چونکہ انہوں نے پہلے روز ہی’’ لاک ڈائون ‘‘ کی مخالفت کی ہے لہذا وہ آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں اور ہر روز کسی نہ کسی حوالے سے وزیر اعظم’’ لاک ڈائون ‘‘کی مخالفت بھی کرتے ہیں ان کا سارا زور اس بات پر ہے ’’لاک ڈائون‘‘ سے ’’دیہاڑی دار ‘‘ متاثر ہو گا بنیادی طور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’لاک ڈائون‘‘ پر ہی اختلاف رائے ہے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف برطانیہ سے وطن واپس آئے تو انہوں نے جہاں حکومت کی طرف دست تعاون بڑھایا وہاں انہوں چینی تجربہ سے استفادہ کرتے ہوئے مکمل لاک ڈائون کا مطالبہ کر دیا لیکن حکومت نے نہ صرف ان کا دست تعاون جھٹک دیا بلکہ ان کی مکمل لاک آئوٹ کی تجویز کو مسترد کر دیا عام تاثر یہ تھا کہ میاں شہباز شریف کی وطن واپسی پر کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ان کے خلاف نیب سرگرم عمل نہیں ہو گی لیکن ان کو نیب لاہور سے پیشی کا سمن موصول ہو گیا وہ کورونا وائرس اور لاک ڈائون کے باعث بہ نفس نفیس تو پیش نہ ہوئے تاہم تحریری جواب ارسال کر دیا جس پر وفاقی وزیر ریلویز شیخ رشید احمد نے پھبتی کسی کہ ’’ اب کی بار شہباز شریف ان کے ’’دم ‘‘ کی وجہ سے بچ گئے البتہ انہوں نے ان کے جیل یا لندن جانے بارے میںکوئی پیشگوئی
سے گریز کیا‘‘ شیخ رشید احمد کی پھبتی پر نیب کی طرف سے وضاحت آگئی جس میں کہا گیا کہ نیب کا میاں شہباز شریف کو گرفتار کرنے کا کوئی ارادہ تھا اور نہ ہی نیب پر کسی کا اثر ہے نیب کے اعلامیہ میں شیخ رشید احمد کو نیب پر سیاست نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ۔ دلچسپ امر یہ ہے ادھر حکومت لاک ڈائون کی مخالفت کر رہی تھی تو دوسری طرف جن قوتوں نے لاک ڈائون کے فیصلے پر عمل درآمد کرانا نے از خود ہی اعلان کر دیا اب بھی وزیر اعظم آئے روز ’’لاک ڈائون‘‘ کے خلاف لیکچر دے رہے ہوتے ہیں لیکن جب قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہو تا ہے تو فیصلے یکسر مختلف ہوتے ہیں رواں ہفتہ کے اوائل قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں جاری لاک ڈائون کی مدت میں دو ہفتے کی توسیع کر دی گئی ایک طرف حکومت اس بات کا اعتراف کرتی ہے لاک ڈائون سے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں کم نقصان ہوا ہے لیکن اس کے باوجود ’’لاک ڈائون ‘‘ کے نقصانات بھی گنوائے جاتے ہیں کل ہی کی بات ہے وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس سے کم اموات پر عوام کو مبارک باد دی ہے اورکہا ہے کہ پاکستان میں کورونا کی صورتحال بہتر ہے، تاہم انہوں نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا ہے کہ 15 سے 20 مئی2020ء تک مشکل صورت حال ہوگی، ہسپتالوں پر پریشر بڑھے گا، وزیر اعظم نے کہا کہ خدشہ تھا کہ 25اپریل2020ء تک کو رونا وائرس کے کیسز کی تعداد 50ہزار ہو جائے گی لیکن اب 12سے 15ہزار کیسزکا اندازہ ہے لیکن یہ کامیابی کسی دوا یا ویکسین کی وجہ سے حاصل نہیں ہوئی بلک اس کے پیچھے ’’لاک ڈائون ‘‘ کی کہانی ہے جس پر حکومت اور اپوزیشن کے’’ آمنے سامنے‘‘ ہونے کے باوجود چارو ناچار عمل کر کے کسی حد تک ہمارے ہاں اب تک کم نقصان ہو اہے ؛ میاں شہباز شریف جہاندیدہ سیاست دان وہ بار بار حکومت کو لاک ڈائون میں نرم پالیسی ہونے والے ممکنہ نقصانات سے متنبہ کر رہے ہیں انہوںنے کہا ہے کہ’’ لاک ڈائون میں نرمی کے چند دن بعد کورونا وائرس کے متاثرین اور اموات میں اضافہ کے اعدادوشمار خطرناک ہیں اور یہ مستقبل کے لیے نیک شگون نہیں حیرت ہے کہ کس بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا ۔ دنیا بھر کے ماہرین لاک ڈائون میں نرمی سے پہلے ٹیسٹنگ اور ٹریسنگ پر زور دے رہے ہیںلیکن ہماری حکومت ایک بہت بڑے خطر ے کو مول لے رہی ہے حکومت اور اپوزیشن لاک ڈائون پر ایک ’’ صفحہ‘ ‘ پر نہیں لہذا دونوں طرد سے کھینچا تانی جاری ہے وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کا نام لئے بغیر یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ’’ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ یہاں ایک ایسا طبقہ ہے کہ جو یہ چاہتا ہے ملک میں کورنا کے اثرات میں اضافہ ہو اور زیادہ لوگ مریں تا کہ وہ اپنی سیاست چمکائیں لیکن وہ اس وقت مایوس ہیں‘‘۔ بہر حال وہ اب تک ’’کورونا ‘‘ کے ہاتھوں کم ہلاکتوں کا کریڈٹ خود حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم ان کا اصرار ہے کہ ان کے اقدامات کوسیاسی رنگ دیا جارہا ہے جن ملکوںنے کورونا وائرس پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا وہاں کورونا نے تباہی مچا دی لوگ ۔چین میں ہونے والی تباہی کو بھول گئے ہمارے سامنے امریکہ ،برطانیہ ، اٹلی اور سپین کی مثال موجود ہے جہاقں تمام وسائل ہونے کے باوجود تاحال کورونا وائرس پر تاحال قابو نہیں پایا جاسکا ان ممالک میں ’’کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعدا د میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اب تک 23لاکھ سے زائد افراد کورونا وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں جب کہ ایک لاکھ 60ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں پاکستان میں بھی اب تک کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد 8ہزار سے زائد ہو گئی ہے اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد167 سے تجاوز کر گئی ہے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے یہ کہہ کر کہ ’’ ماہ رواں کے اواخر میں پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعدا د 70ہزار سے تجاوز کر جائے گی اس سے جا ں بحق ہونے والوں کی تعداد 700سے زائد ہو جائے گی خوف ہراس پھیلا دیا تھا لیکن اب وزیر اعظم ان سے مختلف بات کر رہے ہیں بہر حال سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعدا د کہیں زیادہ ہو گی حکومت کے پاس ’’کورونا وائرس‘‘ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بڑھ گئی ہے لیکن اس کے پاس کورونا ٹیسٹ کرنے والے ٹیکنیشنز کی کمی ہے جس کے پاس کورونا کی ٹیسٹنگ کا عمل سست روی کا شکا ر ہے تنہا حکومت کورونا وائرس کے خلاف جنگ سکتی ہے اور نہ ہی قوم اس وائرس کے خلاف جنگ میں شکست کو افورڈ کر سکتی ہے
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال پر از خود نوٹس لے رکھا ہے موجودہ چیف جسٹس نے پہلا از خود نوٹس لیا ہے چیف جس ٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد جہاں کورونا وائرس کی روک تھام میں وفاقی حکومت کی کارکدگی سے نالاں دکھائی دیتے ہیں وہاں وہ سندھ حکومت سے بھی خوش نہیں انہوں نے بھی کراچی میں کچھ یونین کونسلوں کو سیل کرنے پر برہمی کا اظہار کیا جس کے بعد انہیں بھی ان علاقوں میں ’’لاک
ڈائون ‘‘ کی پابندیاں نرم کرنا پڑیں انہوں نے پہلے روز وفاقی حکومت کو خوب ڈانٹ ڈپٹ پلائی جب کہ اگلے روز حکومت سندھ کی بھی خوب کھنچائی کی انہوں نے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کا کہہ دیا تاہم انہوں نے اس بارے میں کوئی حکم تو جاری نہیں کیا البتہ وفاقی حکومت کو اپنے طور طریقے تبدیل کرنے کے لئے وارننگ دے دی ،چیف جسٹس نے وفاقی حکومت پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’وزراء اور مشیروں کی فوج در فوج ہے، مگر کام کچھ نہیں ہو رہا ، مشیروں کو وفاقی وزراء کا درجہ دے دیا گیا ، کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا ہے ظفر مرزا کی کیا صلاحیت ہے؟ ہم نے حکم دیا تھا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرے، پوری دنیا میں پارلیمنٹ کام کررہی ہیں، عدالت کے سابق حکم میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب نہیں آئے اور ظفر مرزا نے عدالتی ہدایات پر عمل نہیں کیا،کابینہ کا حجم دیکھیں، 49 ارکان کی کیا ضرورت ہے؟ مشیر اور معاونین نے پوری کابینہ پر قبضہ کر رکھا ہے، اتنی کابینہ کا مطلب ہے کہ وزیراعظم کچھ جانتا ہی نہیں ، ہم ظفر مرزا کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں سپریم کورٹ کے ریمارکس کے بعد موجودہ حکومت کی کارکردگی بارے میں کچھ کہنے کے لئے نہیں رہتا اب حکومت کے پاس وقت ہے وہ کورونا بارے میں از خود فیصلے کرنے کی بجائے اپوزیشن کو بھی ’’آن بورڈ ‘‘لیں ممکن ہے ۔ شنید ہے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں سپریم کورٹ کو کورونا وائرس بارے میں اٹھائے گئے اقدامات سے پوری طرح آگاہ نہ کرنے پر وزیر اعظم نے اپنے خصوصی معاون برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا پر ’’ناراضی‘‘ کا اظہار کیا ہے بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے اعلیٰ عدلیہ اور چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پروپیگنڈا مہم کا نوٹس بھی لے لیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے)کو فوری کارروائی کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ چیف جسٹس اور اعلی عدلیہ کے خلاف مہم اور نازیبا زبان ناقابل برداشت ہے لہذا پروپیگنڈا مہم چلانے والوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں کورونا وائرس کے حوالے سے حکومتی اقدامات پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے حکومت کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیا تھا جس کے بعد سے سوشل میڈیا پر عدلیہ کیخلاف مہم چلائی جارہی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے حکومت عدلیہ کے خلاف مہم چلانے والوں کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوتی ہے یا تحقیقا تی فائل بند کر دی جاتی ہے اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں مل جائے گا