دیارِ مجدد سے داتا نگر تک! روح پرور سوانح عمری

زیرنظر تصنیف کو عمومی طورپر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
 1۔ ابتدائی ایام
 2۔ ہجرت
3۔ جدوجہد اور کامیابی و کامرانی کے مراحل
خلیل جبران نے کہا تھاکہ ’’ہر بچہ پیدا ہو کر یہ پیغام لاتا ہے کہ ہنوز خالق کائنات اپنی مخلوق سے مایوس نہیں ہوا۔‘‘ایسا ہی ایک پیغام متحدہ ہندوستان کی ریاست پٹیالیہ کے قصبہ سرہند شریف سے 11 مئی 1941ء کو آیا۔ قاضی صاحب کو فخر ہے کہ وہ ایک ایسے شہر میں پیدا ہوئے جو مجدد الف ثانی کا مسکن تھا۔ جب بھی ہندوستان میں تبلیغ اسلام کا ذکر ہوگا تو ایک چہرہ جو پردۂ ذہن پر ابھرے گا وہ شیخ احمد سرہندی کا ہوگا۔ جو کام سلاطین ہند بزورِ شمشیر نہ کر سکے وہ اس مردِ حق نے تالیفِ قلوب سے کیا۔ مطلق العنان مغل بادشاہوں کے سامنے کلمۂ حق کہنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ ہندوئوں کے نرغے میں آئے ہوئے ان پڑھ اکبر نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کا جو فتنہ کھڑا کیا اسے ماننے سے انہوں نے یکسر انکار کر دیا۔ اس کی کھل کر مخالفت کی۔ انہوں نے جودھا بائی کی کوکھ سے جنم لینے والے جہانگیر کو راہ راست پر لانے کی بھرپور کوشش کی۔ انسان کی زندگی میں بچپن کے ایام بہترین شمار ہوتے ہیں، نہ فکرِ فردا نہِ غم روزگار۔ اپنے ’’فلیش بیک‘‘ میں انہوں نے ان دنوں کا ذکر بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ ان کی والدہ جب حمیت کی وجہ سے ہندوئوں بلوائیوں سے بچنے کیلئے اپنے سارے خاندان کوLive electric wire  کی طرف لے جا رہی تھیں یہ کمسنی کے باعث فلسفہ موت و حیات سے خبر تھے۔ جب مرگ و زیست میں ایک جست کا فاصلہ رہ گیا تو کسی طرح ان کے ماموں وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے سب کو روکا ۔
تقسیم کے وقت جو رقص ابلیس ہوا اس کی روئیداد کئی لوگوں نے لکھی ہے۔ مشکور حسین یار کی کتاب ’’آزادی کے چراغ‘‘ پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ انہوں نے گو ان واقعات کا اجمالاً ذکر کیا ہے، لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانان ِہند نے آزادی کی کیا قیمت ادا کی۔
ہجرت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ دوسرا، افتادگی کا کرب انسان کو ہمیشہ مضمحل اور مضطرب رکھتا ہے۔ اموی شہزادہ حکمران عبدالرحمن اول کو حکمران ہونے کے باوصف وطن کی یاد ستاتی رہتی تھی۔ یہ واحد شیرازدہ تھا جو عباسیوں کی تلوار سے بچ کر افریقہ بھاگ گیا تھا۔ اکثر عرب سے منگوائے گئے کھجور کے درخت سے لپٹ کر اشک بہاتا تھا۔ 
پردیس میں ناصبور ہوں میں 
پردیس میں ناصبور ہے تو 
جس حسین خواب کو دیکھ کر مسلمانانِ ہند نے ہجرت کی تھی وہ پاکستان پہنچ کر چکنا چور ہو گیا۔ کچھ یوں گمان ہوتا تھا کہ گنبد نیلوفری سے جو من و سلویٰ اترا ہے وہ عوام میں تقسیم نہیں ہوا۔ اس پر کوے‘ کتے اور گدیں جھپٹ پڑی ہیں۔ قاضی صاحب کے خاندان کیلئے یہ بڑے تکلیف دہ دن تھے۔ نسبتاً سیم و زر کے گلزار سے نکل کر یہ عسرت و تنگدستی کے خارزار میں آپہنچے تھے۔
با ایں ہمہ انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے لیے صحافت کا پیشہ چنا۔ مختلف اخباروں میں کام کیا۔ رفتہ رفتہ ان کی انتھک محنت رنگ لائی اور یہ کئی اخباروں کے مالک بن گئے۔ ان کی ’’وفاق‘‘ میں مصطفی صادق کے ساتھ شراکت کی داستان بڑی دلچسپ ہے۔ 
مصطفی صادق گو کسی بڑے اخبار کے مالک نہ تھے لیکن حکمرانوں کو شیشے میں اُتارنے کا فن جانتے تھے۔ انہیں اس کام میں بھی مہارت تھی کہ کس شخص کو کب تک استعمال کرنا ہے۔ اس سے کیا کام لینا ہے اور کب فارغ کرنا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر بھی اس کا تجربہ تھا۔ انہوں نے رحیم یار خان میں بھی دفتر کھول رکھاتھا۔ لوکل ایڈیٹر اپنے ایک رشتہ دار عارف کو مقرر کررکھا تھا۔ قاضی صاحب کی طرح اس سے بھی چپقلش ہو گئی۔ جب انہوں نے حساب مانگا تو اس نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ انہوں نے وزیراعلیٰ نواز شریف سے شکایت کی۔ میاں صاحب نے مجھے حکم دیا کہ ان کی ڈوبی ہوئی رقم برآمد کرائی جائے۔ میں اُس وقت ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان تھا۔ میں نے مصطفی صادق صاحب کو رحیم یار بلا کر مسئلہ حل کروا دیا۔ 
قاضی صاحب سے اختلاف بھی لازمی امر تھا۔ اس سلسلے میں ان کے درمیان جو خط کتابت ہوئی وہ بڑی دلچسپ ہے۔ اس کی ابتدا غالباً اس وقت ہوئی جب قاضی صاحب نے طوفِ حرم کا ارادہ کیا۔ غالب کی طرح انہیں بھی حج کرنے کا بڑا شوق تھا۔ مرزا تو حج کا ثواب نذرِ شاہ کرنے پر بھی راضی تھے لیکن قاضی صاحب کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔ یہ زرِکثیر اپنی جیب سے ادا کر رہے تھے جبکہ مصطفی صادق صاحب ہر سال سرکاری حج کیاکرتے تھے۔ صادق صاحب کی مخالفت کے باوجود یہ کامیاب ہو گئے۔ 
اُن دنوں مولانا کوثر نیازی مذہبی امور کے وزیر تھے۔ یہ بھی اس وفد میں شامل ہو گئے۔ گو اپنا ٹکٹ خود خریدا روضہ رسولؐ پر حاضری کے وقت جو کیفیت طاری ہوئی اس کا اظہار بڑے مؤثر انداز میں کیا ہے۔ (جاری) 

ای پیپر دی نیشن