وطن عزیز کے موجودہ حالات میں معاشی معاملات کو سیاست پر بھی فوقیت حاصل ہو گئی ہے۔ ایک سو ارب ڈالر سے زائد غیر ملکی قرضوں نے ہر محب وطن شخص کی نیند اڑا کر رکھ دی ہے کیونکہ مقروض ملک کی داخلی خود مختاری اور حاکمیت اعلیٰ ہر وقت دائو پر لگی رہتی ہے۔ اس پر مستزاد کورونا وائرس کی مہلک وبا ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی معیشتوں پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ان مشکلات کے باوجود پاکستان کے معاشی افق پر امید کی ایک توانا کرن نمودار ہوئی ہے جس سے محب وطن حلقوں میں طمانیت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ضرور کسی دانش مند نے حکومت کو یہ صائب مشورہ دیا ہو گا کہ اس اہم ترین وزارت کی باگ ڈور اس دھرتی کے ایک قابل فخر فرزند شوکت ترین کے ہاتھ تھما دی جائے۔
پاکستانی معیشت کے اس نبض شناس کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جس کی حب الوطنی‘ انسان دوستی اور غریب پروری کی لوگ مثالیں دیتے ہیں۔ انکے والد محترم کرنل (ر) ڈاکٹر جمشید احمد ترین کا شمار اُن نوجوانوں میں ہوتا ہے جو زمانۂ طالب علمی کے دوران بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ہراول دستے میں شامل ہوئے اور محترم حمید نظامی و دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر لاہور میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی۔ انگریز سامراج کیخلاف جدوجہد کے دوران قید و بند کی صعوبتیں پامردی سے برداشت کیں اور اپنی اولاد کی تربیت اس نہج پر کی کہ وہ لاکھوں قربانیوں کے طفیل معرض وجود میں آنیوالی اس مملکت خداداد کے سچے خدمت گار بن جائیں۔ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ مادرِ وطن سے اٹوٹ محبت شوکت ترین کے ڈی این اے (DNA) میں شامل ہے تو ہرگز مبالغہ نہ ہو گا۔ شوکت ترین کو بھی اپنے مایۂ ناز والد پر بڑا فخر ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور نظریۂ پاکستان سے محبت کا جو ورثہ والد گرامی کی وساطت سے انہیں ملا ہے‘ اسے اگلی نسل تک منتقل کرنا ان کا فرض اولین ہے کیونکہ جو قومیں اپنے نظریے اور تاریخ سے منہ موڑ لیتی ہیں وہ امتدادِ زمانہ کا شکار ہونے سے نہیں بچ سکتیں۔یہی وجہ ہے کہ شوکت ترین اور انکے بھائی عظمت شہزاد ترین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ جیسے قومی اداروں سے گہری وابستگی رکھتے ہیں اور ان کے اغراض و مقاصد کو آگے بڑھانے میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ عظمت شہزاد ترین بھی بینکاری کے شعبے میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔
معاشی امور پر شوکت ترین کی گہری نگاہ نے انہیں مسائل کی تہہ تک جلد از جلد پہنچنے اور حل کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ وہ ایک سچے اور کھرے انسان ہیں جو عوام کے روبرو معاشی صورتحال کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے سے ملفوف کرنے کی بجائے سیدھے سادے سچے انداز میں پیش کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے 1976ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی اے (میجر فنانس) کیا۔ یہاں سے شروع ہونے والا ان کا اقتصادی سفر قابل رشک کامیابیوں سے عبارت رہا ہے۔ 1985ء سے 1990ء تک انہوں نے متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں سٹی بینک کے کنٹری منیجر اور ریجنل منیجر کے عہدوں پر ذمہ داریاں ادا کیں۔ 1991ء تا 1995ء پاکستان میں سٹی بینک کے کنٹری جنرل منیجر رہے۔ اس دوران پاکستان میں غیر ملکی بینکوں کے چیئرمین اور امریکن بزنس کونسل کے صدر کے طور پر فرائض انجام دیے۔ 1996ء تا 1997ء تھائی لینڈ میں سٹی بینک کے کنٹری کارپوریٹ آفیسر کے اہم عہدے پر تعینات رہے۔
آپ اپریل 1997ء تا فروری 2000ء تک پاکستان کے مشہور و معروف حبیب بینک لمیٹڈ کے چیئرمین اور صدر مقرر ہوئے اور حکومت پاکستان کی درخواست پر خسارے میں چلنے والے اس بینک کو نفع بخش بنانے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کی خداداد صلاحیتوں اور پیشہ ورانہ مہارت کی بدولت اس بینک نے 1998ء میں 30 ملین ڈالر کا منافع کمایا جبکہ 1996ء میں اسے 230 ملین ڈالر کا خسارہ برداشت کرنا پڑا تھا۔ بینکاری کی دنیا میں آپ کو حد درجہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آپ 1998ئ‘ 2000ئ‘ 2003ئ‘ اور 2005ء میں پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین منتخب ہوئے جبکہ اگست 2000ء سے ستمبر 2006ء تک یونین بینک لمیٹڈ کے چیئرمین‘ صدر اور گروپ چیف ایگزیکٹو آفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ وہ مرتبہ پاکستان کے وزیر خزانہ رہے۔
یہاں قابل ذکر امر یہ ہے کہ وزیر خزانہ ہونے کے اپنے دونوں ادوار میں شوکت ترین نے حکومتی خزانے سے ایک روپیہ تنخواہ لینا گوارا نہیں کی۔ وہ ذاتی گاڑی پر دفتر آتے جاتے رہے۔ کبھی کوئی ٹی اے ڈی اے وصول نہیں کیا‘ حتیٰ کہ اگر کسی ضروری سرکاری کام کے لیے چارٹرڈ طیارہ استعمال کرنے کی نوبت بھی آئی تو اس کا کرایہ اپنی جیب سے ادا کیا۔ یہ صفات شوکت ترین کے بے لوث ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔درحقیقت ان کا تعلق پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی سے نہیں ہے بلکہ ان کی پارٹی دین اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی یہ مملکت خداداد ہے۔
موجودہ حکومت کی طرف سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں بہترین ساکھ کے حامل ان جیسے بااصول انسان کی بطور وزیرخزانہ تقرری سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کا ملکی معیشت پر اعتماد بحال ہو گا۔ چونکہ وہ دبنگ لہجے میں کھری باتیں کرنے والے شخص ہیں‘ لہٰذا آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے وفود کی جانب سے پاکستانی حکام پر ناروا دبائو ڈالنے کا سلسلہ بھی تھم جانے کا امکان ہے۔ انہیں اپنے والد سے غریب پروری کی صفت ودیعت ہوئی ہے‘ اس لیے پاکستانی عوام ان سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ وہ اب معاشی ٹیم کے بااختیار سربراہ کی حیثیت سے نہ صرف انہیں مہنگائی کے روزافزوں عذاب سے نجات دلانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر گزریں گے بلکہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے وژن کے مطابق پاکستان کو ایک جدید اسلامی‘ جمہوری اور فلاحی مملکت بنانے کیلئے بھی سرگرم کردار ادا کریں گے۔