بجٹ ڈاکومینٹ ! ہو سکتا ہے کسی ملک میں ایسی دستاویز ہو جو وسیع معنوں میں ریاست کے مقاصد کو پورا کر نے کے لئے ایک سال کے اہداف کو بتاتی ہو مگر پاکستان جیسے ملک میں یہ گھسی پٹا کاغذ کا پلندہ ہے جس کو خود ارکان پارلمینٹ بھی پڑھنا پسند نہیں کرتے ہیں اور اس کی ساری دستاویزات ڈیسک پر دھری کی دھری رہ جاتے ہیں اور دوسرے روز صفائی کرنے والا عملہ ردی کی ٹوکری کے حوالے کر دیتا ہے ،عوام بھی بس اس کو مہنگائی ، بے روز گاری اور زندگی کو مذید اجیرن بنانے کے اعلان کے طور پر لیتے ہیں،بجٹ محض بولے اور چھپے ہوئے الفاظ ہیں،جن کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ، ملک میںستر سے زائد بجٹ آئے ہوں گے ،جب پہلا بجٹ آیا ہو گا تو کیا پاکستان مقروض،غربت کا ستایا ہوا،طبقاتی کشمکش کا مارا ہوا،بانجھ قیادت کا ڈسا ہوا ملک تھا،ایسا نہیں تھا،اب کا پاکستان ستر سے ذائد بجٹس کا شاخسانہ ہے ،’’یو ٹرنز‘‘ کا کیا دھرا ہے ،بہت برس پہلے کی بات ہے جب خاک نشیں سٹوڈنٹ ہوا کرتا تھا تو جتنی بھی طلبہ تنظیمیں تھیں ان کا نعرہ ’چہرے نہیں نظام کو بدلو ‘ہوا کرتا تھا ،یقینا وہ سب اپنے اپنے نظریہ کے نظام کے حق میں نعرہ بازی کر رہے ہوتے تھے،اب بھی یہی نعرہ سننے کو مل جاتا ہے ،تو ایک چیز طے ہے کہ مسلہ چہروں کا نہیںہے بلکہ نظام کا ہے ،کیونکہ چہرے بدل لینے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکی ہے ،ہرگزرتے سال کے ساتھ خود سرکار کے فگرز گراوٹ کا پتہ دیتے ہیں ،چلیں معاشی ایشوز تو پرانے چلے آ رہے ہیں ،ہر نیا دن کسی نہ کسی سیاسی ، مذہبی ،سماجی ایشو کو لے کر طلوع ہو تا ہے اور ہر گزرتا دن ان کو مذید پیچیدہ بنا رہا ہے ،اتنے گنجلک ایشوز اور بھانت بھانت کی بولیوں کی وجہ سے قیادت میں سکت باقی نہیں رہی ہے کہ وہ بنیادی مسائل کو دیکھ سکیں اور عوام کو دال روٹی کے چکر میں الجھا دیا گیا ہے ،یہ ساری وقت گزاری ہے اور اسی پر فیصلے صادر کرنے والوں کا غیراعلانیہ اتفاق رائے موجود ہے ،آج ارد گرد پر نظر دوڑایں تو حساس فرد بے بسی ہی محسوس کرئے گا ،ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ادارے اڑتی چڑیا کی پر گن لیتے ہیں اور دوسری طرف مہیب خطرے اچانک سروں پر منڈلانے لگتے ہیں،کہیں نہ کہیں غلطی کاعنصر تو موجود ہے ،ان چیزوں کی وجہ سے ملک کے اندر بد امنی،تقسیم اور بے چینی درکر آئی ہے اور پہیہ رک جاتا ہے ،ان خطروں کا بجٹ سے تعلق اس وجہ سے بن جاتا ہے کہ یہی بے چینی بجٹ کو ناکام بنا دیتی ہے ،بجٹ کے بے وقعت ہونے کی دوسری سب سے اہم وجہ گمراہ کن اہداف ہیں،22بار آئی ایم ایف کے پاس گئے اور اتنی ہی بار گمراہ کن اہداف قبول کر کے ناکام ہو گئے ،نہ حالات کے معروضی جائزہ لیا اور ’’قبول ہے قبول ہے‘‘ کرتے چلے آئے،چونکہ ماضی میںہر بار ریونیو کا ہدف پورا نہ کرسکے تو ہر بار خسارہ،پھر خسارہ کو پورا کرنے کے لئے قرضے،پھر بڑا ریونیو ہدف اور پھر خسارہ،یہ گیم چل رہی ہے ،اور ابھی مذید چلے گی،6ہزار ارب کا ائندہ مالی سال میں ہدف ،اس کے مطابق خرچے اور پھر بہت جلد جی ڈی پی کے سو فی صد کے مساوی ہوتے ہوئے قرضے ،اس میں بجٹ کیا، کایا پلٹ کرئے گا یاوہی اعدادوشمار کا ہیر پھیر ہو جائے گا ،’’کامیاب ہوں گے،بہتری آ جائے گی ،یعنی،گا ،گے ،گی ، سے کا م چلایا جائے گا ،گزشتہ مالی سال کے بجٹ کے موقع پر جو حالات تھی اگر اس سے آج اچھے ہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ بہتری آئی ہے ،ہاں ایک بات ضرور ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ 30جون کو ختم ہونے والے مالی سال میں گروتھ ریٹ تین فی صد تک رہنے کی امید ہے جو گذشتہ سال کے مقابلہ میں بہتر ہوگی جب گروتھ کی شرح0.4فی صد تک منفی ہو گئی تھی ،یہ ایک لحاظ سے اچھی پیشرفت ہو گی مگر یہ نا کافی ہے اسے جلد از جلد سات فی صد کی شرح پر لانا بے حد ضروری ہے ،کیونکہ اس شرح کے ساتھ ہی معاشی بحالی کی توقع بڑھائی جا سکتی ہے ، ،اصل پریشانی کی بات یہ ہے کہ جب گروتھ کا پہیہ تیز ہونے لگتا ہے تو کچھ برا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے تنزل کی طرف چلے جاتے ہیں ،یہ وہ ماحول ہے جس میں موجودہ حکومت کی تین سال کی معیاد میں چوتھے وزیر خزانہ شوکت ترین وزارت خزانہ کا منصب سنبھال چکے ہیں ،آئندہ چند ہفتوں میں ان کی ترجیحات پر سامنے آ جائیں گی جب وہ بجٹ کا علان کریں گے ،ان کے ہاتھ میںاس وقت کیا ہے جو وہ بہتر ی کی جانب بڑھ سکتے ہیں؟،سب سے پہلے آخراجات کا معاملہ ہے ،اس میں اگر کمی کر سکتے ہیں تو یہ اچھا قدم ہو گا ،بجٹ کا خسارہ کم ہو جائے تو استحکام کی جانب بڑھ سکتے ہیں مگر اطلاعات ہے کہ حکومت اب انتخابی امور کو سامنے رکھ کر’’ الیکشنی‘‘ منصوبے لانا چاہتی ہے جس کے لئے اس کو مالی وسائل درکار ہوں ،دوسری طرف پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت ہے جس میں ایک خاص حد سے آے نہیں جا سکتے ہیں ،شوکت فیاض ترین کو کچھ انتظام تو کرنا ہوگا ،اس کے لئے جو آپشن ہیں ان میں آئی ایم ایف سے اہداف میں کمی کروا لیں جو اچھا آپشن ہے دوسرا یہ ہے کہ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے ریونیو کو اتنا اوپر لے جائیں گے کہ آخراجات کی گنجائش نکل آئے ،اس کی امید بہت کم ہے اور تیسرا یہ کہ خسارہ بڑھائیں اور پبلک سپورٹ کے لئے منصوبے اور مراعات لائی جائیں جسکے مضمرات بہت خطرناک ہوں گے ،اس لئے آپشن ون ہی بہتر ہے کہ آ ئی ا یم ایف سے رعایات لی جائیں اور وقت کے ساتھ خود کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے تاکہ آئے روز کے جھٹکے نہ لگیں اور ملک پائیدار ترقی کے راستے پر چل سکے ۔
تین آپشنز
Apr 20, 2021