امریکی مداخلت یا سازش؟

پاکستان ایک پس ماندہ ملک ہے-پاکستان کے عوام کی چونکہ سیاسی تربیت نہیں کی گئی لہذا ان کا سیاسی شعور معیاری نہیں ہے- عوام کے بیدار اور باشعور نہ ہونے کی وجہ سے سیاست دان مختلف نعرے استعمال کرکے عوام کو اپنے سیاسی مفادات کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں- آج کا پاپولر نعرہ سازش ہے- تحریک انصاف کے لیڈر دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت کے خلاف امریکہ نے سازش کی ہے جس کے نتیجے میں عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا- امریکہ چونکہ پوری دنیا  میں خفیہ اور ظاہری مداخلت کر کے حکومتوں کو گراتا اور بناتا رہا ہے لہذا جب بھی امریکہ پر سازش کا الزام لگایا جاتا ہے عوام بڑی آسانی کے ساتھ اس پر یقین کر لیتے ہیں-امریکہ کی پاکستان  میں مداخلت کی تاریخ کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے- اس مداخلت کے بارے  میں عالمی سطح پر معروف مؤرخین نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے- بعض مورخین کے مطابق پاکستان میں وزیراعظم اور آرمی چیف امریکہ کی اشیر باد سے بنتے رہے ہیں-حقیقت یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں نے پاکستان کو پا بہ زنجیر کر رکھا ہے - جب تک ہم قرضوں سے نجات حاصل کرکے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا نہیں سیکھتے ہماری حقیقی آزادی اور خودمختاری سلب ہی رہے گی- ہم نے غیر ملکی امداد پر انحصار کرکے ترقی کو بھی داؤ پر لگا رکھا ہے - ریاست کو سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم بنا کر اور عدل و انصاف پر مبنی فلاحی ریاست قائم کر کے ہی ہم اپنا قبلہ درست کر سکتے ہیں اور غلامی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں- پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ محترم شمشاد احمد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں- " قوم کی طاقت عوام اور اداروں میں ہوتی ہے - کوئی ایسا ملک وقار حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی خارجہ امور میں کامیاب ہو سکتا ہے جو اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو - دنیا کے بڑے ممالک کے ساتھ ہمارے ڈائیلاگ کے عمل کا مستقبل اس وقت تک غیریقینی رہے گا جب تک پاکستان اپنی داخلی مشکلات پر قابو نہیں پا لیتا اور دنیا میں اپنی اہمیت جنگوں اور عسکری مہم جوئی میں اتحادی کی حیثیت سے نہیں بلکہ امن اور خوشحالی کے فریق کے طور پر اجاگر نہیں کر لیتا"- برطانیہ نے متحدہ ہندوستان میں   "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کے اصول پر کامیابی کے ساتھ عمل کیا اس نے مقامی لیڈروں جاگیر داروں نوابوں قبائلی سرداروں کی سرپرستی کی ان کے مقامی مفادات کا تحفظ کیا انہیں اپنے عوام کو دبائے رکھنے کیلئے ان سے تعاون کیا اور اپنے سامراجی مفادات حاصل کئے- امریکہ پاکستان کے اندر اسی پالیسی پر گامزن ہے -امریکہ نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے گہری سازش تیار کی اور پی این اے کے نام سے سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کر دیا -  ان مذہبی جماعتوں نے ایک دوسرے کیخلاف کفر کے فتوے دے رکھے تھے- پاپولر لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو نہ صرف اقتدار سے محروم کیا گیا بلکہ  ان کا عدالتی قتل بھی کرایا گیا اور ان کو پھانسی بھی دی گئی-نائن الیون کے بعد امریکہ  نے جنرل پرویز مشرف کو فون کرکے کھلی دھمکی دی" آپ یا تو ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمنوں کے ساتھ ہیں"- جرنیل پرویز مشرف دباؤ میں آ گیا اور امریکہ کی سات شرائط تسلیم کر لیں- امریکی صدر
 جارج بش حیران اور ششدر رہ گیا  کہ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے قومی مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے امریکہ سے کچھ لیے بغیر اسکی سات شرائط تسلیم کر لیں-وزیراعظم عمران خان جس امریکی خط کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ حقیقت میں امریکی خط نہیں ہے بلکہ پاکستانی سفیر کا خفیہ میمو ہے جو اس نے اپنے الوداعی لنچ میں ہونیوالی گفتگو کے بارے میں اپنے فارن آفس کو ارسال کیا-  الوداعی لنچ میں پاکستانی سفارتخانے کے دوسرے اہلکار  اور امریکی اہلکار بھی موجود تھے-  مبینہ طور پر امریکی ڈیپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ساؤتھ ایشیا ڈونلڈ لو نے پاکستانی سفیر کو  کہا تھا کہ پاکستان میں اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہ ہوئی تو پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا- امریکی اہلکار کی کئی لوگوں کی موجودگی میں کی گئی گفتگو کو سازش نہیں البتہ مداخلت کہا جا سکتا ہے  جو پاکستان کے اندرونی امور میں کی گئی اور اپوزیشن اتحاد کی اس سے حوصلہ افزائی ہوئی-وزیراعظم عمران خان اگر خود احتسابی کے بجائے  مبینہ سازش کے پیچھے چھپنے کی کوشش کریں گے تو ان کو ان کی جماعت کو اور پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا-وزیراعظم عمران خان خوب جانتے ہیں کہ ان کی حکومت تکنیکی اعتبار سے اسی دن ختم ہو گئی تھی جب انکے دست راست جہانگیر ترین صوبائی اسمبلی کے چالیس اراکین اور قومی اسمبلی کے بارہ اراکین کو منحرف کر چکے تھے-اس وقت امریکی خط اور مداخلت کا کوئی ذکر تک نہیں تھا-آنے والا مورخ لکھے گا کہ عمران خان کی حکومت  کمر توڑ مہنگائی بیڈ گورننس کی وجہ سے گرائی گئی- پاکستان کے عوام لیڈروں کو مظلوم سمجھ کر انکی غلطیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں لہٰذا لیڈر انہی غلطیوں کو بار بار دہراتے ہیں اور جمہوری سیاست معیاری نہیں بن پاتی - پاکستانی جمہوری سیاست کا المیہ ملاحظہ فرمائیے کہ ضمانت پر رہا لیڈر ریاست کے اہم ترین عہدوںپر براجمان ہو جاتے ہیں حالانکہ جس کیخلاف مقدمہ گزشتہ ایک سال سے عدالت میں زیر سماعت ہو اسے انتخاب لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے -عمران خان اگر حالات کا درست تجزیہ کرنے پر آمادہ ہوجائیں  تو وہ تحریک انصاف کے حامیوں اور کارکنوں کی سیاسی تربیت کرکے انکے سیاسی شعور کو معیاری بنا سکتے ہیں- عمران خان کو اپنے حامیوں کو بتانا چاہیے کہ ان کا سب سے بڑا دشمن انگریز کا بنایا ہوا موجودہ نظام ہے-عمران خان عوام کو اعتماد میں لیکر بتائیں کہ نئے پاکستان کی تشکیل کیلئے آئینی ترامیم لازم ہو چکی ہیں- انتخابات کے  بعد جو پارلیمنٹ وجود میں آئے گی وہ دستور ساز اسمبلی ہوگی جسے یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ نیا سماجی معاہدہ تشکیل دینے کیلئے آئین میں ضروری ترامیم کرسکے-  عمران خان سازشی بیانیے کے بجائے مثبت اور تعمیری بیانیہ تشکیل دیں نیو سوشل کنٹریکٹ کو اپنا انتخابی سلوگن بنائیں تاکہ پاکستان کی سیاست کو مثبت اورمعیاری بنایا جا سکے اور ریاست اشتعال و اضطراب کا شکار نہ ہو۔
بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی
سر پہ تاج رکھا ہے بیڑیاں ہیں پاؤں میں 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...