بابائے پارلیمنٹ کی روداد سیاست

Apr 20, 2022

 نواز رضا سے بھائیوں جیسے تعلقات ہیں۔ان کی کتاب روداد سیاست پر خود تبصرہ کرنے کے بجائے خود انہی کی زبانی ساری کہانی بیان کرتا ہوں۔نواز رضا لکھتے ہیں۔نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں۔۔۔ زمانہ طالب علمی میںپیشہ صحافت کی طرف رحجان تھا، سو گریجویشن کرنے کے بعد باضابطہ طور پر 1970ء میں اس پیشہ سے وابستہ ہوگیا۔ پچھلے 50سال سے صحافت کے دشت میں صحرا نوردی کر رہا ہوں۔ میدان صحافت و خطابت کے شہسوار آغا شورش کا شمیری ؒ نے قلم پکڑنا سکھایا۔ الطاف حسن قریشی اور صلاح الدین شہید نے قلم سنوارا اور پھر 36سال سے زائد عرصہ سے مجید نظامی کی زیر ادارت کام کیا۔ میں صحافت میں آج جو کچھ ہوں اس میں مجید نظامی کا بڑا عمل دخل ہے۔ میں نے ہفت روزہ چٹان لاہور میں ’’اسلام آباد کی سیاسی ڈائری‘‘ لکھنے سے اپنی صحافت کا آغاز کیا لیکن میرے لئے یہ بھی اعزاز کی بات ہے کہ آغا شورش کا شمیری نے خود اپنے قلم سے ہفت روزہ چٹان میں میرے نام سے اسلام آباد کی سیاسی ڈائری شائع کر دی۔ مجھے پیشہ صحافت میں الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمن شامی، صلاح الدین، سید اصغر بخاری اور سعود ساحرکا زانوئے تلمذ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ 
متوسط کاشت کار پیشہ خاندان سے میرا تعلق ہے۔ ایام جوانی میں میرے والد سرکاری ملازمت کے دوران کھیتی باڑی کرتے تھے۔ میں ان کے ساتھ شوق کے ساتھ کبھی کبھا ر ہل چلاتا رہا ہوں۔ گھر میں بیلوں کے لئے ’’ٹوکہ‘‘ سے چارہ بنا کر اپنے آپ کو ایک کسان کا بیٹا ثابت کر دکھایا۔ آج جو کچھ بھی ہوں وہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور میرے والد محترم اور والدہ محترمہ کی تربیت کے طفیل ہے۔ میرے والد1936ء میں مصریال اور گردونواح میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے والے پہلے طالبعلم تھے۔ اسی طرح مصریال میں میرا جگری دوست عبد الرشید ملک اور میں ہی پہلے گریجویٹ تھے۔ پیشہ صحافت میں آج جو کامیابیاں میرا مقدر بنی ہیں اس میں میرے والدین کی رہنمائی،شفقت اور تربیت کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔ میری اہلیہ کو ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ میں نے ان سے زیادہ صحافت کو وقت دیا۔ چھٹی کا دن بھی اپنی فیملی کے ساتھ گذارنے کے بجائے قلم و قرطاس اور لیب ٹاپ کے ساتھ ہی گذارنے پر دوستانہ ’’خاموش‘‘ احتجاج کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ میں داد دیتا ہوں کہ میری فیملی میری صحافتی سرگرمیوں کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ 
میں پچھلے 50سال سے جہاں کوچہ صحافت میں اپنے لئے مقام کی ’’تلاش‘‘ کر رہا ہوں۔ ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینے کے ’’جرم‘‘ میں میرے لئے صحافتی میدان میں ’’ترقی‘‘ کی راہیں مسدود ہوتی رہیں۔ بہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ روزنامہ نوائے وقت سے 4عشروں سے وابستہ رہا ہوں اور اسلام آباد آفس میں چیف رپورٹر کے فرائض انجام دئے۔ شروع دن سے میں سیاسیات کا طالبعلم ہوں۔ 
میں نے پروفیسر وثیق احمد مرحوم جیسا سیاسیات کا استاد نہیں دیکھا۔ انہوں نے اپنی ’’شاگردی‘‘ میں ایسا لیا کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ رشتہ قائم رہا۔ میرا سیاست پر قلم اٹھانے کا حوصلہ جہاں اساتذہ کی حوصلہ افزائی سے بڑھا وہیں ایسے حالات میں آنکھ کھولنے کا موقع ملا جو میرے سیاسی شعور کو جلابخشنے میں معاون ثابت ہوئے۔ پچھلے 50سال سے جمہوری اور غیر جمہوری ادوار، مارشل لائوں اور نیم مارشل لائوں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوا لیکن آج تک کسی مارشلائی حکومت کو دل نے قبول نہیںکیا۔ 
طالب علمی اور صحافتی زندگی میں شیخ مجیب الرحمن، ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو، عمران خان، چوہدری ظہور الٰہی، چوہدری نثار علی خان، سردار فاروق لغاری، محمد رفیق تارڑ، ممنون حسین، مولانا کوثر نیازی، چوہدری شجاعت حسین، میاں شہباز شریف سمیت متعدد سیاسی شخصیات سے ذاتی سطح تک تعلقات رہے ہیں۔ مجھ پر یہ ’’الزام‘‘ ہے کہ میری بیشتر تحریروں کا محور میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان رہے ہیں۔ اس الزام میں کسی حد تک صداقت بھی ہے لیکن میں نے ان کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا ہے اپنے دل و دماغ سے لکھا۔ کبھی کسی کے کہنے یا ایما پر نہیں لکھا۔بعض اوقات میری تحریریں انہیں ناگوار ر بھی گذری ہیں لیکن انہوں نے اپنی ناراضی کا اظہار ’’دوستانہ‘‘ انداز میں کیا۔ ایک موقع پر تو میری تحریروں سے چوہدری نثار علی خان اس حد تک ناراض ہو گئے کہ انہوں نے وارننگ دے دی اور کہا کہ ’’مسلم لیگ (ن) میں بعض عناصر میری تحریروں کو بنیاد بنا کر میرے اور میاں نواز شریف کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں یہ سب کچھ میں ہی لکھواتا ہوں۔
’’روداد سیاست‘‘ میں بیشتر کالم نواز شریف، چوہدری نثار علی خان، آصف علی زرداری، مریم نواز، عمران خان،میاں شہباز شریف کی سیاست کے بارے میں ہیں ممکن ہے کچھ احباب کو میرے کالموں میں میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے بارے میں میرا جھکائو نظر آئے لیکن ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ جو کچھ لکھا اس میں میری محبت اور دیانت دونوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ 
میرے کالموں کا مجموعہ 2014ء سے 2020 ء تک کے کالموں پر محیط ہے اور اسے تین حصوں میں شائع کیا گیا ہے۔سیاست کے طالب علموں کو ان کالموں کے ذریعے اس عرصہ کے دوران کی سیاست کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ 
روداد سیاست نصف صدی کی تاریخ بھی ہے اور آئینہ بھی، اسے ہر لائبریری میں ہونا چاہئے۔نوابزادہ نصر اللہ خان کو لوگ بابائے جمہوریت کے لقب سے پکارتے تھے جب کہ حاجی نواز رضا کو میں بابائے پارلیمنٹ کا خطاب دیتا ہوں ۔

مزیدخبریں