میرے عزیز ہم وطنو !

Apr 20, 2022

جسطرح پاکستانی سیاست میں ہر آنے والے روز اک نواں چن چڑھ ریا اے،ڈر لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے بارہا احتیاطی اور تردیدی بیانات کے باوجود بادلِ نخواستہ حالات ملک کواس مقام پر نہ لے جائیں جہاں رسماً نہیں بلکہ اصولی اور دلی طور پر ‘‘میرے عزیز ہم وطنو’’ والے خطاب سے اجتناب برتنے والے بھی اپنے آپکو اس عملی قدم سے دور نہ رکھ سکیں۔
قارئین !میری اس فکر کے اظہار کے پیچھے کئی وجوہات ہیں جنکی طرف میں آپکی توجہ مبذول کروانا چاہونگا۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ وفاق کی سطح پر پچھلے کئی ماہ سے ایک ایسی ڈرامائی فلم کی عکس بندی ہو رہی تھی جسکا کلائمیکس اپریل کی 9 تاریخ کو اس وقت اپنے عروج پر پہنچا جب ہمارے چڑے کے بقول کچھ انتہائی ناخوشگوار لمحات تاریخ میں بہت ہی تلخ یادیں چھوڑ گئے، ابھی اس بحرانی کفیت سے وابستہ تلخی کم نہ ہوئی تھی کہ 16 اپریل کو پنجاب اسمبلی کے فلور پر ایک اور سانحہ نے اس میں مزید اضافہ کر دیا جب اسمبلی ممبران کچھ اسطرح آپس میں گھتم گھتا ہوئے کہ ایک طرف ڈپٹی سپیکر کے بال نوچے گئے تو دوسری طرف مبینہ طور پر سپیکر صاحب کا بھی تشدد کی وجہ سے بازو ٹوٹ گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کینسر کے مرض کی طرح آخری حدوں کو چھوتا عدم برداشت اور تشدد کا ایسا رجحان کیوں اور اسکا ذمہ دارار کون۔اس ایک سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے ہمیں تاریخ کے بند کواڑ کھولنے پڑینگے۔ سب سے پہلے ہمیں اس واقعہ کا ذکرکرنا پڑیگا جب 1958ء میں مشرقی پاکستان میں اس وقت کی صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر شاہد علی پٹواری ایک رکن کی طرف سے پھینکے پیپر وئٹ کے لگنے سے زخمی ہونے کے دو دن بعد فوت ہو گئے تھے۔ اسکے بعد متشدد رویوں کی بابت بات کریں تو اسکی ایک نظیر ہمیں اس وقت ملتی ہے۔جب 1964ء میں صدارتی الیکشن کی کمپئین کے دوران ایک کتیا کے گلے میں انتخابی نشان لالٹین باندھ کر ایک نہایت ہی محترم اور مقدس ہستی کو نفرت کا نشانہ بنایا گیا۔ کہتے ہیں مقافات عمل بڑی ظالم چیز ہے ۔ہر اس جاگتی آنکھ نے جس نے 1964ء میں یہ نظارہ دیکھا تھا ، وہ نظارہ بھی دیکھا جب گلی گلی اسی جانور کے مذکر سے اسی ہستی کو پکارا گیا جس کی ایماء پر یا خوشنودی کیلئے 1964ء میں یہ قبیح کھیل کھیلا گیا تھا۔ اہل دانش کہتے ہیں تاریخ صرف سبق حاصل کرنے کیلئے ہوتی ہے۔ 1968ء میں ایک ڈکٹیٹر ایوب خان کو جسطرح پر تشدد ہنگاموں کے ذریعے ہٹایا گیا اسی طرح کا ری پلے 1977ء میں اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب ایک سول حکمران ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے الگ کیا جاتا ہے جسے کچھ ناقدین ایک دفعہ پھر مقافات عمل کا ہی نام دیتے ہیں لیکن بطور تجزیہ نگار راقم کا اشارہ صرف اس متشدد رویہ کی طرف ہے جو ہمیشہ سے ہماری سیاست کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ تاریخی حوالوں سے بات کرتے راقم ضیاء دور کو ہمیشہ بلیک آوٹ کرتا ہے کیونکہ اسکے نزدیک یہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دور شمار ہوتا ہے جس میں پاکستان کی سیاست میں پیسے کا لین دین اقرباء پروری نے نہ صرف جنم لیا بلکہ پورے معاشرے کو جہنم بنانے کی  داغ بیل ڈالی۔ ضیاء دور کے خاتمہ پر بینظیر بھٹو کے دور اقتدار کے ابتدائی دنوں میں بظاہر یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اپنی روشن خیالی کی وجہ سے اپنے باپ کی ظالمانہ موت کی انتہائی اذیت ناک یادوں کو پس پشت ڈال کر جسطرح اس نے نئی شروعات کی داغ بیل ڈالی ہے شائد وہ پاکستان کی سیاست کو کسی نئی جہت سے ہمکنار کرے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ نرسری کے گملوں سے ابھرنے والی قیادتوں نے اپنے خمیر کی جزویاتی کیفیات سے قطعی طور پر کوئی فرار اختیار نہیں کیا تا انکہ کہ اکتوبر 1999ء والا سانحہ وقوع پذیر ہو گیا۔ کہتے ہیں اور دیکھا بھی کہ اسی دوران دو بڑی پارٹیوں کے درمیان میثاق جمہوریت ہوا کہ آئندہ جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے نہ صرف ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائیگا بلکہ گندی زبان اور متشدد رویوں سے بھی اجتناب کیا جائیگا، کہتے ہیں رسی جل بھی جائے اسکے بل نہیں جاتے۔ 2008ء میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے سے جو امید بندھ چلی تھی کہ دونوں پارٹیاں ماضی سے کوئی سبق سیکھیں گی اور ملک کی بہتری کیلئے کوئی کام کرینگی وہ سب ایک طرف علی بابا چالیس چور اور پیٹ پھاڑ کر سڑکوں پر گھسیٹنے اور دوسری طرف مریم کے پاپا۔ کے نعروں کی نذر ہو گیا جو ایک تیسری سیاسی قوت کے ظہور کا سبب بنی جس سے کم از کم اس خاکسار کو ہی نہیں ایک اچھے خاصے طبقے کو یہ امید ہو چلی تھی کہ بینظیر بھٹو کے بعد اس دفعہ شائد اس ملک کو ایسی قیادت نصیب ہونے جا رہی ہے جو بیرون ملک اپنی تعلیم و تربیت اور بین الاقوامی فیم کی وجہ سے ملک میں ایک ایسے کلچر کو متعارف کروا دے جہاں ایمانداری کے ساتھ ساتھ لوگوں میں شرافت ،تہذیب اور برداشت کے اوصاف بھی پیدا ہو جائیں لیکن افسوس صد افسوس راقم کو یہ کہنے میں ذرا بھر بھی تامل نہیں کہ اس دور میں بات ہی اوے سے مخاطب کر کے شروع کی گئی اور چھوڑوں گا نہیں پر ختم کی گئی جسکا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے کہ آج کسی شخص کی عزت ہے نہ ادارے کی۔ سیاسی جلسوں میں ہونے والی بد زبانی اور بد کلامی گھروں تک پہنچ چکی ہے لیکن یاد رہے ملک ایسے نہیں چلتے، قدرت کا اپنا ایک نظام ہے۔ جسطرح کائنات میں فتنے سر اٹھاتے ہیں تو پھر قدرت کا نظام ایک دم حرکت میں آ جاتا ہے اسی طرح ریاستوں میں جب خود سری اور خود فریبی زور پکڑتی ہے تو قدرتی طور پر ریاست کے ادارے خود بخود حرکت میں آ جاتے ہیں اور پھر ایسے کرداروں کو تاریخ کی سبق آموز داستانوں میں دفنا دیتے ہیں۔

مزیدخبریں