اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے سینئر جج قاضی فائز عیسی نے آئین کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آمر چاہتے ہیں ان کے غیر قانونی کام قانونی لگیں، تاریخ 7 مرتبہ سبق دے چکی، سب کو ساتھ لے کر نہ چلیں تو شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں، غلط فیصلہ غلط ہی رہے گا چاہے اکثریت کا ہو، ناانصافی زیادہ دیر نہیں ٹھہرتی، ازخود نوٹس کی شق صرف مظلوموں کیلئے ہے، کسی کو فائدہ دینے کیلئے نہیں، سوموٹو کے استعمال سے متعلق قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہئے، دو حکومتوں میں تنازع یا مسئلہ آئے تو 184 تین کا استعمال ہوسکتا ہے، قبل از وقت اسمبلی کی تحلیل سے متعلق وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے اختیار کا معاملہ آیا تو رائے دے دوں گا، میرے نزدیک تکبر اور انا انتہائی بری چیز ہے۔ آئین پاکستان، قومی وحدت کی علامت کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آئین پاکستان کی 50ویں سالگرہ منارہے ہیں، یہ میرے لئے کتاب نہیں، اس میں لوگوں کے حقوق ہیں، ہم اس آئین کی تشریح کرسکتے ہیں، آئین صرف سیاستدانوں، چند افراد، پارلیمان اور عدلیہ کیلئے نہیں، عوام کیلئے ہے۔ جب تک لوگ آئین نہیں سمجھیں گے اس کی قدر بھی نہیں ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نہیں سمجھتا ناراضگی ہے یا ہونی چاہئے، ہر کوئی سر ہلانے لگے تو آمریت کی طرف اشارہ ہوگا، انصاف اور حقوق کیلئے عدالتیں ہی ہوتی ہیں، ہر چیز کو اپنی جگہ پر ہونا لازمی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین میں سوموٹو کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے، کہیں نہیں لکھا کہ یہ اختیار چیف جسٹس یا سینئر جج کا ہے، ازخود نوٹس شق سے متعلق پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے۔ سپریم کورٹ کے جج کا کہنا ہے کہ صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں کے الیکشن پر اپنی رائے نہیں دوں گا، اپنی رائے دینے سے قبل دوسروں کی رائے سننا چاہوں گا، کہیں نہیں لکھا سپریم کورٹ کے لامحدود اختیارات ہیں، میری رائے میں 184 تین کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے، دوستوں کی رائے ہے یہ اختیار صرف چیف جسٹس استعمال کرسکتا ہے، آئین یہ نہیں کہتا، اگر کہتا ہے تو بتادیں، شق بتادیں میری اصلاح ہوجائے گی، میں آپ کے نظریہ پر چل سکوں گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ہم وفاق کو بھول چکے ہیں، 18 ویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا ہے، وفاق نے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کردیئے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے بری چیز تکبر اور انا ہے، کسی عہدے پر ہوں تو آپ میں انا نہیں ہونی چاہئے، جس دن مجھ میں انا آگئی پھر میں جج نہیں رہا، اختلاف سے انا کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ 1971 میں پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا۔ اسلام آباد میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کی تقریب میں ' آئین پاکستان قومی وحدت کی علامت' کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ دسمبر 1971 میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا بلکہ اس کے بیج بوئے گئے تھے، میری رائے میں فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نے پاکستان توڑنے کا بیج بویا، پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، جو زہریلا بیج بویا گیا وہ پروان چڑھا اور 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم جو کام آج کرتے ہیں اس کے اثرات صدیوں بعد تک ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی، اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ نے ہمیں سکھانے کے لیے کئی مرتبہ اپنے آپ کو دہرایا۔ 1958، 1977، 1993، 1993، 1999 میں بھی تاریخ پکارتی رہی کہ سیکھو، تاریخ ہمیں سات سبق دے چکی ہے، اور کتنی بار سکھائے گی۔ آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈکٹیٹر آنے کے کچھ عرصے بعد سمجھتا ہے کہ وہ تو اصل میں جمہوریت پسند ہے، ڈکٹیٹر ریفرنڈم کراتا ہے اور نتائج 98 فیصد تک پہنچ جاتے ہیں، ریفرنڈم کے برعکس پاکستان میں زور وشور سے ہونے والے الیکشن کے نتائج کبھی 60 فیصد سے زیادہ نہیں آتے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج کا کہنا تھا کہ اختلافات کے باوجود حکومت اور پی این اے ایک میز پر بیٹھے اور مسائل بھی حل کرلیے تھے، مگر 4 جولائی 77 میں ایک شخص مسلط ہوا اور قبضہ کرلیا۔ 12اکتوبر 1999 میں ایک اور سرکاری ملازم نے سمجھا کہ اس سے بہتر کوئی نہیں، مشرف کا دوسرا وار 3 نومبر 2007 میں تھا جب ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں 184 تین کا لفظ استعمال ہوا ہے سوموٹو کا نہیں۔ آرٹیکل 184 تین سپریم کورٹ کو شرائط کے ساتھ اختیار دیتا ہے کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے کوئی کام کیا جائے۔ 184 تین کی شق ان مظلوموں کے لیے رکھی گئی تھی جو عدالت تو دور وکیل تک نہیں پہنچ سکتے تھے، اس شق کا پاکستان میں بھرپور استعمال ہوا، کئی مرتبہ اچھی طرح اور کئی مرتبہ بہت بری طرح۔ قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ 184 تین کو کسی فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، اگر اس شق کا استعمال مفاد عامہ میں نہ ہو تو اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا، لازم ہے کہ اس شق کو استعمال میں لاتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھایا جائے، میری رائے کے مطابق 184 تین کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے، میرے دوستوں کی رائے ہے کہ سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، ایک رائے یہ بھی ہے کہ 184 تین کا استعمال ہو تو سپریم کورٹ کے تمام ججز اسے سنیں، شق بتا دیں، میری اصلاح ہوجائے گی، میں آپ کے نظریہ پر چل سکوں گا۔ قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ مستقبل کی طرف دیکھتا ہوں، آئین کا بڑا حوصلہ ہے جس پر کئی بار وار کیے گئے لیکن وہ آج بھی ویسے ہی کھڑا ہے، بڑے وکیلوں کے دلوں میں آئین کی اتنی محبت نہیں کیونکہ ان کی جیبوں میں فیسیں جاتی ہیں، اگر فیصلہ غلط ہے تو غلط رہے گا، چاہے اکثریت کا فیصلہ ہو، نمبر گیم سے جھوٹ سچ میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پر آئین کا زیادہ بوجھ ہے، ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین کا دفاع اور حفاظت کریں گے، جب تک لوگ آئین کو نہیں سمجھیں گے اس کی قدر نہیں ہوگی، ظالم کہتا ہے میری مرضی، آئین کہتا ہے لوگوں کی مرضی، زندہ معاشرے میں اختلاف رائے ہوتا ہے، سب تائید میں سر ہلانا شروع کردیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہوجائے گی، طرح طرح کے آرڈر جاری ہوتے ہیں، پتہ نہیں کسے بیوقوف بنا رہے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آئین میں آرٹیکل 58 ٹوبی کی شق ڈالی کہ جب دل کرے منتخب حکومت کو برطرف کرسکیں، 58 ٹوبی کا استعمال بھی کیا اور خود ہی کی منتخب جونیجو حکومت ختم کردی۔ 18 ویں ترمیم میں 58 ٹو بی کو ہٹایا، صوبوں کو اختیارات دیے گئے، سب سے بری چیز تکبر اور اس کے بعد انا ہے۔ آپ کسی عہدے پر بیٹھے ہیں تو انا نہیں ہونی چاہیے، جس دن مجھ میں انا آگئی میں جج نہیں رہوں گا، اختلاف سے انا کا تعلق نہیں ہے۔
جسٹس فائز عیسیٰ