تحریک انصاف کے اندازِ سیاست کی بابت ہزاروں تحفظات کے باوجود میں عمران خان کے عقیدت مندوں کا مذاق اڑانے سے گریز کرتا ہوں۔کسی ٹی وی پروگرام میں تبصرہ آرائی کے لئے مدعو کیا جاﺅں اور اس پروگرام کی کلپس سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوجائیں تو عاشقان عمران مشتعل ہوجاتے ہیں۔میرے دلائل کو منطقی بنیاد پر خام ثابت کرنے کے بجائے ”بڈھا“ پکارتے ہوئے میری تذلیل کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ وہ ”ٹوکری“ بھی یاد دلائی جاتی ہے جو محترمہ مریم نواز صاحبہ نے ایک بار مجھے بھجوائی تھی۔
سادہ لوح عاشقان عمران خان کو خبر ہی نہیں کہ مسلم لیگ (نون) کا ”لفافہ“ ٹھہرائے مجھ ناچیز کو شہباز حکومت نے اس قابل بھی نہیں سمجھا تھا کہ اس تقریب میں مدعو کیا جائے جس کے دوران وزیر اعظم نے اپنے عہدے کا حلف لیا تھا۔مذکورہ حلف ہوجانے کے بعد شہباز صاحب نے صحافیوں کے ایک گروہ سے کھل ڈل کر بات چیت بھی کی تھی۔اس محفل میں ان کے دیرینہ اور ثابت قدم نقاد بھی موجود تھے۔میرے چند صحافی دوست اس تقریب اور سوال جواب والی محفل میں میری عدم موجودگی سے پرخلوص انداز میں پریشان ہوئے۔میں دیانت داری سے انہیں یہ سمجھاتے ہوئے تسلی دیتا رہا کہ دورِ حاضر میں ”صحافی“ وہ تصور ہوتا ہے جو ٹی وی سکرینوں پر رونق لگائے۔اگر یہ ممکن نہ ہو تو اپنا یوٹیوب چینل بنائے اور قوم کی رہ نمائی کا فریضہ سرانجام دے۔
عمران حکومت کے اقتدار میں آنے کے دو مہینے بعد مجھے اس ٹی وی سے فارغ کروادیا گیا تھا جہاں میں اپریل 2016ءسے ہفتے کے چار دن آٹھ سے نو بجے براہ راست چلائے ایک شو کا میزبان تھا۔میں نے وہ شو دو سال تک کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔معاہدے کی مدت ختم ہوئی تو مجھے مزید ایک سال تک اسے جاری رکھنے کو رضا مند کیا گیا۔ میری رضا مندی کی جو ”اضافی“ رقم دفتر سے چیک کی صورت آئی میں نے اسے واپس کردیا۔ مالکوں سے استدعا کی کہ میرے بجائے میری ٹیم کی تنخواہوں میں اضافہ کردیا جائے۔اپنی ذلت آمیز فراغت کے اسباب اور اس کے ذمہ دار کرداروں سے ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے بخوبی آگاہ ہوں۔ شکوے کی مگر ضرورت نہیں۔ ساری عمر صحافت کی نذر کردینے کے بعد بنیادی سبق یہ سیکھا ہے کہ ”اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں“۔ محض ”صحافت“ کو ڈٹے افراد کو خوئے غلامی سے اجتناب کی قیمت ا دا کرنا ہوتی ہے۔اس تناظر میں خود کو ”ہیرو“ ثابت کرنا وقت کا زیاں ہے۔
بہرحال ”بڈھوں“ سے عاشقان عمران کی نفرت پر غور کرتا ہوں تو ذہن میں عمران خان ،پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی اور اسد قیصر جیسے ”نوجوان“ رہ نماﺅں کے چہرے نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔نوجوانوں کی جانب سے ان کی والہانہ پذیرائی مجھے رشک میں مبتلا کردیتی ہے۔اپنے ”بومر“ کہلائے جانے کو احمد مشتاق کا وہ مصرع یاد کرتے ہوئے کھلے دل سے تسلیم کرتا ہو ں جو ”عمر بھر کون حسین کون جواں رہتا ہے۔“ کی حقیقت بیان کرتا ہے۔
ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے تحریک انصاف کے اندازِ سیاست اور عاشقان عمران کے جارحانہ رویے کے باوجود اس حقیقت کو ہمیشہ ذہن میں رکھا کہ اس جماعت کے بانی نے اپنی کرشماتی شخصیت سے ہمارے معاشرے کے ایسے کئی طبقوں کو سیاسی عمل میں حصہ لینے کو راغب کیا جو اسے ”چور اور لٹیروں“ سے منسوب کرتے رہے ہیں۔ نوجوانوں کے علاوہ پڑھی لکھی بچیوںکی تحریک انصاف کے جلسوں میں والہانہ شرکت مجھے امید دلاتی ہے کہ ہماری آئندہ نسلیں قومی مسائل کے بارے میں فکر مند رہیں گی۔ وہ ریاستی اور حکومتی ڈھانچوں کی فرسودگی اور استحصالی رویوں سے اکتا کر ایسے ڈھانچے اور رویے متعارف کروائیں گے جو عوام دوست ہوں۔ رعایا کو حقوق وفرائض سے باخبر ”شہریوں“ میں بدل دیں گے۔ گزشتہ چند ماہ سے لیکن اس ضمن میں بھی مایوسی محسوس کررہا ہوں۔
”نظام کہنہ“ کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کرنے کے بعد عوام دوست ریاستی اور حکومتی ڈھانچے تشکیل دینے کے لئے لازمی ہے کہ تحریک انصاف ایسے حربے اختیار کرے جو اسے اپنے اہداف کے قریب تر پہنچائے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو تحریک انصاف کا کلیدی ہدف فوری انتخابات کا حصول ہے۔ 25مئی کے بعد گزشتہ برس کے آخری مہینوں میں بھی لاہور سے اسلام آباد تک یلغار کے لئے ایک لانگ مارچ کا اہتمام ہوا تھا۔ اس لانگ مارچ کے دوران بدقسمتی سے عمران خان صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ربّ کا صد شکر کہ ان کی جان بچ گئی وگرنہ ہم ایک اور قدآور سیاسی رہ نما سے محروم ہوجاتے۔
خودپر ہوئے حملے کے بعد عمران خان صاحب بتدریج لاہور کے زمان پارک میں واقعہ اپنے آبائی گھر تک محدود ہونا شروع ہوگئے ۔ان کے عقیدت مند اس گھر کے گرد”انسانی فصیل“بناکر اسے ناقابل تسخیر قلعہ بناچکے ہیں۔خان صاحب مگر قلعہ کے اندر ہی محصورنہیں رہ سکتے۔ان کے خلاف جھوٹے یا سچے مقدمات ہیں۔اپنے دفاع کے لئے لہٰذا سابق وزیر اعظم کو عدالتوں میں پیش ہونا پڑتا ہے ۔عدالت میں پیش ہوتے ہوئے وہ اپنی حفاظت کے لئے جو طریقہ کار اختیار کرتے ہیں وہ ان کے ناقدین اور مخالفین کو ”مضحکہ خیز“ محسوس ہوتا ہے۔ لوہے کے ڈبے سے منہ چھپاتے وہ ”دلیر“ نظر نہیں آتے۔حقیقی سیاسی رہ نماﺅں سے مگر ”دلیری“ کی توقع رکھی جاتی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے متعصب ترین ناقدین کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ 2007ءمیں جب وہ طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹیں تو کراچی میں ان کے استقبالی ہجوم پر دہشت گرد حملہ ہوا۔ اس کے ذریعے واضح پیغام یہ دیا گیا کہ اگر وہ پاکستان ہی میں موجود رہیں ۔ جلسے جلوسوں سے خطاب کرتی رہیں تو انہیں ”بخشا“ نہیں جائے گا۔واضح خطرات کو دلیری سے نظرانداز کرتے ہوئے محترمہ اپنے مشن پر ڈٹی رہیں۔ بالآخر راولپنڈی میں ہوئے جلسے کے بعد گھر کو جاتے ہوئے دہشت گردی سے محفوظ نہ رہ پائیں۔
عمران خان صاحب واجب بنیادوں پر ویسے انجام سے دو چار نہیں ہونا چاہتے۔میں ان کی برتی احتیاط کا تمسخر اڑانے والی سفاکی سے محروم ہوں۔ میرا بنیادی سوال ان کے سیاسی اہداف کے حصول تک ہی محدود رہے گا۔ فوری انتخاب کے حصول کے لئے خان صاحب نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیاں تحلیل کروانے کا رسک لیا۔انہیں گماں تھا کہ ان دو صوبوں کی نئی اسمبلیوں کے لئے بروقت انتخاب ہوگئے تو عوام میں ان کی مقبولیت روزروشن کی طرح عیاں ہوجائے گی۔ ان دو صوبوں میں بروقت انتخاب یقینی بنانے کے لئے مگر وہ اپنے عقیدت مندوں کو تحریکی انداز میں منظم نہ کر پائے ۔ امید باندھ لی کہ سپریم کورٹ ہی آئین کی اس شق کے تحفظ کے لئے ڈٹ جائے گا جو کسی اسمبلی کی تحلیل کے بعد آئے نوے دنوں کے اندر نئے انتخاب کا تقاضہ کرتی ہے۔سپریم کورٹ ان کی توقع کے مطابق یقینا متحرک ہوا۔اس ”تحرک“ نے مگر ہماری اعلیٰ ترین عدالت کو مخالف دھڑوں میں تقسیم ہوا دکھایا۔سپریم کورٹ کی ”یک سوئی“ پر سوال اٹھنے لگے۔ ان سوالات کے باوجود پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لئے 14مئی کی تاریخ طے کردی گئی۔ خیبرپختونخواہ اگرچہ نظرانداز کردیا گیا۔ 14مئی 2023ءکے دن بھی لیکن پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہوتے اب ممکن نظر نہیں آرہے۔اس دن مذکورہ انتخاب کا نہ ہونا عمران خان کے برتے حربوں کو کار بے سود کی صورت اجاگر کرے گا۔ تحریک انصاف کو اس پہلو کی جانب سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی۔
نظام ”کہنہ“ کا کھوکھلا پن
Apr 20, 2023