کارخانوں کے دوزخ 

Apr 20, 2023

عبداللہ طارق سہیل

جانوروں کے ہولوکاسٹ کی ایک بہت ہی بڑی صنعت بعض ملبوسات کی تیاری سے متعلق ہے۔ فرکے ملبوسات، جوتے، بٹوے اور بیگ بنانے کے لیے ہر سال کروڑوں لومڑیاں، سموردار نیولے، بڑے بالوں والے کتے اور بلیاں ، مگرمچھ، سانپ، کچھوے قتل کئے جاتے ہیں۔ ان جانوروں کو جنگل سے اٹھایا بھی جاتا ہے لیکن زیادہ تر کی پیدائش نسل کشی کے عمل کے تحت انہی اداروں کے ”فارمنگ“ والے شعبے میں کی جاتی ہے۔ پیدائش کے فوراً بعد یہ جانور ایسے پنجروں میں بند کئے جاتے ہیں جہاں ان کے لیے اِدھر سے اُدھر حرکت کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ سخت تکلیف دہ حالات میں یہ جانور جب بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کے سر دیواروں پر پٹخ کر یا ڈنڈے مار کر انہیں ہلاک کردیا جاتا ہے اور پھر کھال اُتار لی جاتی ہے۔ مہنگے ترین جوتے کتے کی کھال سے بنائے جاتے ہیں اور جن کتوں کی باری آتی ہے، انہیں دوسرے کتوں کے سامنے ہی ہلاک کیا جاتا ہے۔ فرکی صنعت میں شیر چیتے اور بچھو کی کھال بھی استعمال کی جاتی ہے، یہ جانور ”پوچنگ“ کے ذریعے حاصل کئے جاتے ہیں۔ 
اس صنعت کا ایک بڑا حصہ چین، کوریا وغیرہ زرد فام ملکوں میں ہے۔ وہاں جانوروں کو ڈنڈوں یا دیواروں سے پٹخ کر مارنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ جانوروں کی کھال زندہ حالت میں اُتاری جاتی ہے۔ جس پر دنیا بھر میں احتجاج کیا جاتا ہے۔ زندہ کھال اُتارنے کی ہولناک وڈیوز نیٹ پر عام دستیاب ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق عالمی احتجاج کے بعد چینی حکام نے بعض مقامات پر کارروائی کی ہے اور کچھ فارم ہاﺅس بند بھی کرائے ہیں۔ فرفارم ہاﺅسز کی وڈیوز ایسی ہیں کہ عام دل گردے کا آدمی انہیں دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتا۔ 
ان ملکوں میں مگرمچھ کی کھال بھی زندہ حالت میں اُتاری جاتی ہے۔ مگرمچھ کو مرنے میں بعض اوقات آدھا گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے۔ کچھوﺅں اور سانپوں کی کھال بھی زندہ اُتاری جاتی ہے۔ 
کتے کی کھال کی مصنوعات، جوتے، بیگ اور پرس سب سے زیادہ اٹلی میں بنتے ہیں اور ہمارے ہاں امیر زادے اور امیر زادیاں جو بیگ اور جوتے لئے پھرتی ہیں، وہ کتوں کے ہولوکاسٹ سے ہی حاصل کئے جاتے ہیں۔ 
___________
میٹ انڈسٹری میں سب سے زیادہ سوّر پالے اور مارے جاتے ہیں۔ ان کے دردناک حالات کے بارے میں ایک فلم SENTINENT نے ایک عرصہ سے دنیا بھر میں تہلکہ برپا کر رکھا ہے لیکن اسے دیکھنا آسان کام نہیں۔ دوسرے نمبر پر گائے بھینسیں مظالم کا شکار ہیں۔ اسی ہفتے ٹیکساس (امریکہ کے ایک فارم ہاﺅس میں آگ لگنے کی وڈیو آئی۔ اس میں 18 ہزار گائیں زندہ جل گئیں۔ وڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ فارم ہاﺅس شعلوں میں گھرا ہوا ہے اور 18 ہزار گائیوں کے رونے کی دردناک آوازیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ اس واقعے کے بعد سے امریکہ میں میٹ انڈسٹری کے خلاف عوامی ردّعمل بھی سامنے آیا۔ امریکہ پر کارپوریٹ سیکٹر کی حکمرانی ہے اس لیے ہو گا کچھ بھی نہیں۔ 
___________
گائے عمومی محاورے میں ناسمجھ جانور سمجھی جاتی ہے حالانکہ یہ سخت حساس اور ذہین جانور ہے۔ موسیقی کی دھنیں سمجھتی ہے اور کھلے ماحول میں فٹ بال کھیلنے میں مہارت رکھتی ہے۔ کتے، سوّر اور بندر کی ذہانت، سائنس دانوں کے بقول، 5 سالہ انسانی بچے کے برابر ہوتی ہیں۔ ان جانوروں کے سامنے ان کے ہم جنسوں کا قتل عام ایک شیطانی ذہن ہی سوچ سکتا ہے لیکن مغرب میں یہ ہو رہا ہے۔ 
اسی طرح سے فشریز کی صنعت بھی ظلم کی اتھاہ سنگینی کا مظہر ہے۔ کروڑوں مچھلیاں ہر روز جس طرح سے ماری جاتی ہیں، وہ بالکل نیا ماجرا ہے (مثلاً مچھلیوں کو زدہ حالت میں پولی تھین کے تھیلوں میں پیک کرنا وغیرہ)۔ 
انڈوں کی صنعت میں ہر روز کروڑوں نر بچّے (چوزے) گرانڈر مشینوں میں ڈال دئیے جاتے ہیں۔ مرغیاں کس حالت میں رہتی ہیں، مرغی کے گوشت کی کسی بھی دکان میں جا کر دیکھ لیجئے، وہی ماحول پولٹری فارمز کا ہے۔ دکاندار دن بھر ان مرغیوں کو دانہ دیتے ہیں نہ پانی اور پنجروں میں جکڑی ہوئی مرغیوں کے سامنے دوسری مرغیوں کو ذبح کرتے ہیں۔ یہ دکاندار بھی کارپوریٹ ذہن کے ہو گئے۔ 
اور بہت سی صنعتوں کے علاوہ، دیگر شیطانی کارخانے بھی ہیں مثلاً چڑیا گھر، سرکس، برفانی علاقوں میں کتا گاڑیوں کی دوڑ (زخمی کتے کو الگ کر کے برف پر پھینک دیا جاتا ہے، طویل اور دردناک موت کے لیے) لومڑیوں اور خرگوشوں کا کتوں کے ذریعے شکار۔ خرگوشوں کے بال ہاتھ سے نوچ کر تِکے بنانے والی صنعت اپنی جگہ ظلم ڈھا رہی ہے۔ بال نچنے کے بعد خرگوش کئی دن تک درد و اذیت سے تڑپتے رہتے ہیں اور انہیں پین کلر دوا دینے کی زحمت بھی نہیں کی جاتی۔ 
یہ سب سے بڑا ہولوکاسٹ سائنسی لیبارٹریوں میں ہوتا ہے۔ کتے، بلیاں، بندر، چوہے اور خرگوش سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ جانوروں کی آنکھیں سوئی دھاگے سے سی دی جاتی ہیں، انہیں پاکیوں میں بند کیا جاتا ہے۔ بلّیوں کے سر میں سوراخ کر کے الیکٹروڈ داخل کئے جاتے ہیں، اس طرح کہ وہ مرے نہیں، بس اذیت سمجھتی رہے، پھر اذیت سہنے کے پیمانے سے دوائیں بنائی جاتی ہیں۔ جانوروں کے چاروں پاﺅں مخالف سمتوں میں کھینچ کر جکڑ بند کر کے شکنجے میں کسا جاتا ہے اور درجنوں دیگر اذیت رسانی کے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں اور حالانکہ سائنس دانوں کے ایک اہم طبقے کا کہنا ہے کہ یہ غیر ضروری تجربات ہیں، ان کا کچھ فائدہ نہیں، پھر بھی مار دیتے ہیں۔ پھر ریس کورسز میں ہر سال ہزاروں گھوڑے مرتے ہیں۔ 
ایک اور اذیت گاہ بلّیوں کی کافی ہے جو دنیا بھر میں سب سے مہنگی کافی ہے اور ایلیٹ کلاس کے لیے یہ ”ڈیلی کیسی“ ہے اور وہ اسے شوق سے لیتی ہے۔ تنگ بکسوں میں بلّیوں کو بند کر کے انہیں فاقہ زدہ رکھا جاتا ہے، وہ بھوک سے بے تاب ہوتی ہیں تو انہیں کافی کے بیج دئیے جاتے ہیں۔ فاقوں سے مرتی یہ بلّیاں کافی کے بیج کھانے پر مجبور ہو جاتی ہیں جو عام حالات میں ان کی غذا نہیں۔ پھر ان کا فضلہ حاصل کیا جاتا ہے اور یہی فضلہ پیس کر یہ بیش قیمت مگر شیطانی کافی تیار کی جاتی ہے۔ ہر سال لاکھوں نہیں کروڑوں بلّیاں یہ کافی تیار کرنے کے لیے مار دی جاتی ہیں۔ امریکہ میں شیروں کے فارم ہیں۔ شیروں کی افزائش نسل کی جاتی ہے۔ یہ انسانوں سے مانوس ہو جاتے ہیں تو شکاری بلائے جاتے ہیں۔ لاکھوں روپے فیس دے کر یہ شکاری ان پالتو جانوروں کو گولی کا نشانہ بناتے اور پھر ان کی نعش پر پاﺅں رکھ کر تصویر بناتے ہیں۔ ظلم کی یہ داستان بہت لمبی ہے ، کہاں تک کوئی لکھے۔
___________

مزیدخبریں