محمد آصف بھٹی
اقبال کی غزل گوئی
اقبال کی غزل گوئی پہ کچھ لکھنے سے پہلے اس تہذیبی ماحول اور شاعرانہ فضا کا مطالعہ کرنا ضروری ہو گا۔ جس میں اقبال نے آنکھ کھولی اور ان کے ذوقِ شاعری کی تربیت ہوئی۔ شروع میں اقبال داغ? و میر کی طرف متوجہ ہوئے اور غزل گوئی میں ان کی پیروی کو اچھا سمجھا تو چنداں تعجب کی بات نہیں ہے۔ ان کے گردوپیش اور ان کے آغاز ِ شباب کی امنگوں کا تقاضا یہی تھا کہ وہ عشقِ سخن کی ابتدا غزل سے کرتے اور اسی رنگ کو اپناتے جس پر سب جان چھڑک رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بھی یہی کیا یعنی غزل گوئی سے اپنی شاعری کا آغاز کیا ور بحیثیت شاعر اپنے فن کی داد بھی اوّل اوّل انہیں غزل کے مندرجہ ذیل شعر پر لاہور کے ایک مشاعرے میں ملی ؎
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
ہر چند اقبال شروع میں داغؔ اور امیر مینائیؔ دونوں سے متاثر ہوئے اور دونوں کی طرزِ سخن کو اپنانے کی کوشش کی۔ امیر مینائی کے بارے میں انہوں نے مقطع میں کہا کہ
عجیب شے ہے صنم خانہء امیر اقبال
میں بْت پرست ہوں رکھ دی کہیں جبیں میں نے
اور داغؔ کی وفات پر انہوں نے جو مرثیہ 1905 میں کہا اس کی ابتداء میں بھی امیر کو اس طرح خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیرؔ
چشمِ محفل میںہے اب تک کیفِ صہبائے امیرؔ
بحیثیت مجموعی اقبال پر گہرا اثر داغ کا رہا۔ چنانچہ ان ہی کی شاگردی قبول کی انہیں کو ابتدائی غزلیں دکھائیں اور ان کے رنگ میں غزلیں کہیں۔ اس رنگ میں خیال افروزی اور فکر انگیزی کے بجائے زیادہ توجہ عشقیہ جذبات کو دی جاتی تھی۔ اقبال کی ابتدا کی غزلیں اسی رنگ میں ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے بانگِ دَرا کی ترتیب و اشاعت (1924ء ) کے وقت داغ ؔکے رنگ کی بیشتر ابتدائی غزلیں نظری قرار دے دیں اور اس لئے 1905ء تک غزلوں میں صرف چند غزلیں بانگِ درا میں نظر آتی ہیں اور وہ بھی ساری کی ساری داغ کے رنگِ خاص میں نہیں ہیں ؎
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
علامہ مرحوم دل کے محسوسات کو بھی خاص اہمیت دیتے تھے۔
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
ایسے ہی کئی ایک اشعار 1904 تک کی انکی غزلوں سے ماخوذ ہیں اور بانگِ دَرا کے حصہ اوّل میں موجود ہیں۔ ان کے اسلوب میں قدیم رنگ کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ جو فارسی کے زیر اثر ایک مدت سے اردو میں مقبول چلا آ رہا تھا۔ اور جس سے کوئی صاحبِ ذوق متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اگر شعر گوئی میں ذوق کی تربیت کی کوئی اہمیت ہے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ اقبال اور ان سے پہلے کے شعرا کے ذوقِ سخن کی تربیت عام طور پر فارسی کے ماحول میں ہوئی ہے ۔ چنانچہ اقبال کے شروع کے کلام میں جو فارسی کا رنگ نظر آتا ہے وہ اسی وجہ سے ہے بعض ناقدین نے اقبال کی شاعری کا محرک اوّل فارسی ہی کو قرار دیا ہے۔ علامہ نیاز فتح پوری کے مطابق اقبال کو شاعری کا ذوق اس وقت پیدا ہوا جب وہ سیالکوٹ میں تھے چوں کہ فارسی کا جو نصاب اس زمانے میں پڑھایا جاتا تھا وہ زیادہ تر شعر و شاعری اور ادبِ لطیف ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ اس لئے فارسی کے ہر طالبعلم میں ذوقِ شعری پیدا ہو جانا لازمی تھا۔ پروفیسر عبدالقادر سردری کے مطابق عربی اور فارسی سے مناسبت طبعی اقبال کو خاندان سے ترکے میں ملی تھی اس پر میر حسن جیسے عالم کا ساتھ گویا پیاسے اور سمندر کی یکجائی ہو گئی۔ اقبال کی عام شاعری پر غالب کے معنوی اثرات بھی نظر آتے ہیں۔چنانچہ بانگِ درا کے حصہ اول کی ساتویں غزل جس کا مطلع ہے
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدء دل وَا کرے کوئی
صاف بتاتی ہے کہ یہ غالب کی اس غزل جس کا مطلع یہ ہے
جب تک دھانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی
سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔
اقبال زندگی میں کسی نقطہ نظر کی تلاش میں ہیں اس نقطہ نظر کے نقوش زیادہ ابھرے نہیں پھر بھی پتہ چلتا ہے کہ علم و فکر شعر و ادب اور اخلاق و مذہب سب کو انسان کی عملی زندگی سے ہم آہنگ دیکھنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ اقبال نے مشرق سے آگے بڑھ کے مغرب میں اطمینانِ قلب تلاش کرنے کی کوشش کی مگر میسر نہ آیا بلکہ قیام یورپ کے ابتدا کے زمانے میں ہی مغربی تہذیب کی چمک دمک کا راز فاش ہو گیا۔ اور انہوں نے محسوس کر لیا کہ اس تہذیب کے ہاتھوں آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ اس سلسلے میں بانگِ درا کے حصہ دوم کی طویل غزل کے چند اشعار دیکھے جس پر 1907 کی تاریخ درج ہے
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
یہ غزل اقبال کی شاعری میں ایک موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔اورمینائے سخن میں صہبائے ملت کی رنگینیوں کی پہلی جھلک پیش کرتی ہے۔ یہاں غزل کا وہ دور شروع ہوتا ہے جو اقبال کی غزل گوئی کا سب سے تابناک دور ہے۔ اقبال نے اپنی غزلوں میں ہمیں محسوس کرایا ہے کہ عشق و محبت دل ہی کا ماجرا نہیں ذہن کا بھی ہے۔ نئی غزل گوئی کا یہی سنگِ بنیاد ہے جس کے ذریعے وہ ملت اسلامیہ کو آشنا کرانا چاہتے تھے ۔یہ مقصد تھا اسلامی عقائد کی برتری اور اسلامی اعمال کی برگزیدگی کا۔ اقبال کی غزلیں دعوت و پیغام لئے ہوئی ہیں۔ اقبال سے پہلے اردو غزل بحیثیت مجموعی ایک فرد کی داخلی زندگی کا ذاتی سفر تھی۔ اس سفر کا بڑا حاصل خدا کی تلاش اور اس کی تلاش میں ترکِ دنیا کر کے خود کو فنا کر دینا تھا۔لیکن اقبال کا کلام داخلی و خارجی زندگی کو پوری طرح اپنی گرفت میںلے کر رومانوی انداز سے آگے بڑھا ہے اور تلاشِ منزل سے آگے نکل کر خدا سے ہمکلام ہے۔ اقبال نے اردو غزل کو بالکل نئی منزلوں، نئی سمتوںاور نئی عظمتوں سے آشنا و ہمکنار کر دیا ہے ۔
قصوروار ہوں، غریب الدّیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے، نہ کر سکے آباد