پاکستان کی سا لمیت کا تحفظ اور عیدالفطر

اپنی غریب الوطنی‘ قومی بے چارگی اور روزافزوں شرمناک حد تک بگڑتے معاشی‘ اقتصادی اور سیاسی حالات پر تسلسل سے لکھنے کا جی میرا بھی چاہتا ہے۔ اپنے متعدد کالم نگار دوستوں کی طرح خواہش میری بھی یہ رہتی ہے کہ ’’ولایت نامہ‘‘ میں صرف اور صرف اپنے وطن عزیز میں سیاستدانوں کی جاری سیاسی شعبدہ بازیوں پر ہی قلم چلائوں ۔ دل یہ بھی چاہتا ہے کہ لاکھوں قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آئے اپنے 76 سالہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا استحصال اور اسکی بنیادیں کمزور کرنیوالے ان نام نہاد مفاد پرست سیاستدانوں اور حکمرانوں کو سلسلہ وار بے نقاب کروں‘ جن کے غیرذمہ دارانہ رویوں اور طویل غیر جمہوری عمل سے دنیا ہمیں آج شک کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہے۔ چاہتا یہ بھی ہوں کہ اسلام کے نام پر حاصل کئے اس ملک کو لوٹنے اور اسے غیرمستحکم کرنیوالے سیاستدانوں کے سیاسی کرتوتوں سے بھی پردہ اٹھائوں‘ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے اپنے عوام کی حکمرانوں کو دی گئی بددعائوں اور دہائیوں سے آنکھ سے گرنے والے آنسوئوں کو بھی اپنے قلم کی چشم تر سے بیان کروں مگر کیا کروں کہ ایک جانب کالم نگاری کا بھاری وزن اور ریاستی قواعد و ضوابط کی لٹکتی تلوار جبکہ دوسری طرف مثبت اظہار آزادی میں درپیش بعض رکاوٹیں قلم کے راستہ کی سب سے بڑی دیوار ہیں جنہیں پھلانگنے یا گرانے کا مجھ ایسا برطانوی محب وطن پاکستانی کسی حال میں بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔ یوں بھی وطن عزیز سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور یہاں انگلستان میں بیٹھ کر غیروں کے سامنے (وہی پرانا فقرہ) اپنا ’’ٹڈننگا‘‘ کرنے کے عمل کو میں اپنے وطن کی کھلی توہین تصور کرتا ہوں۔ لندن میں پاکستانی سیاست کے حوالے سے یہاں شب و روز جو کچھ ہوتا ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت یہاں قائم کردہ سیاسی پارٹیوں سے وابستہ کارکنان‘ رہنما اور لیڈر ایک دوسرے کی جس طرح ’’لاپا‘‘ کے رکھتے نظر آتے ہیں‘ برطانوی شہری ہی نہیں‘ امریکہ‘ کینیڈا ار یورپی ممالک سے آئے سیاح بھی ان مناظر سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔
کیا ہیں یہ لوگ اپنے شجر آپ کاٹ کر
دیتے ہیں پھر دہائی کہ سایہ کرے کوئی
کوشش کرتا ہوں کہ وطن عزیز کے سیاسی پس منظر کے حوالے سے ان دقیق نکات پر اظہار خیال کروں جس سے یہاں کی وہ عمر رسیدہ پرانی گوری کمیونٹی جس نے قیام پاکستان کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے‘ انہیں بحث میں شامل کر سکوں۔ میری یہ بھی کوشش رہتی ہے کہ کالم کو کالم تک ہی محدود رکھوں تاکہ ’’ولایت نامہ‘‘ کا مفہوم متاثر ہونے نہ پائے۔ ملک کے افسوسناک سیاسی و معاشی حالات تو اب یہاں بھی سب پر عیاں ہیں۔ مگر کرپٹ سیاست دانوں اور قومی اداروں کو دائو پر لگانے والے عناصر سے جو نقصان پاکستان کے نام کو پہنچایا جارہا ہے‘ ماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی۔ دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں برطانیہ میں پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کا گراف کہیں زیادہ اس لئے بھی ہے کہ پاکستان کے تین مرتبہ منتخب سابق وزیراعظم محمد نوازشریف اپنے علاج معالجے کیلئے جس روز سے لندن آئے ہیں‘ اپنی مدد آپکے تحت کی جانیوالی پاکستانی سیاست کا یہاں رخ ہی تبدیل ہو گیا ہے۔ سابق وزیراعظم متعدد مقدمات میں مبینہ طور پر چونکہ سزایافتہ بھی ہیں اس لئے عام گورے گوریاں جب یہ سوال پوچھتے ہیں کہ سابق وزیراعظم جن کا وسطی لندن میں ایک شاندار اور مہنگا گھر بھی موجود ہے‘ اپنے علاج کے بعد اب واپس اپنے ملک کیوں نہیں جاتے جبکہ انکے چھوٹے بھائی اب برسراقتدار بھی ہیں؟ تو سیاسی طور پر ان گوروں گوریوں کو مطمئن کرنا مجھ جیسے کالم نگار کیلئے ممکن نہیں ہوتا۔ اس سے بڑی قومی بدقسمتی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ محمد نوازشریف صاحب کے گھر کے باہر ہر تیسرے چوتھے ہفتے برطانوی پاکستانی مظاہرین کی ایک بڑی تعداد ان کیخلاف بینر اٹھائے اب ایسی منفی نعرے بازی کرتی ہے کہ آنکھیں ندامت سے جھک جاتی ہیں۔ چند ہفتے قبل اسی طرح کے ایک مظاہرہ کے دوران میرے ساتھ کھڑی ایک امریکی گوری نے جو بظاہر ٹورسٹ دکھائی دے رہی تھی‘ ایک ایسا بینر اٹھا رکھا تھا جس پر اردو میں نوازشریف صاحب کیخلاف ایک انتہائی منفی انداز میں لکھی تحریر درج تھی۔ ’’تم جانتی ہو کہ اس بینر پر اردو زبان میں کیا تحریر درج ہے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔ یہ تو میں نہیں جانتی‘ مگر یہ ضرور جانتی ہوں کہ اس پر پاکستان کے سابق وزیراعظم کے بارے میں ’’منی لانڈرنگ‘‘ میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کا نعرہ درج ہے۔ دنیا بھر میں منی لانڈرز وزراء اعظم اور بیوروکریٹس کے خلاف میں بھی چونکہ پرچم بلند کئے ہوئے ہوں‘ اس لئے زبان کوئی بھی ہو‘ ایسے جرائم میں ملوث ہر عام و خاص شخص کو انصاف کے کٹہرے میں لانا میرا بھی مشن ہے۔ ساتھ کھڑا ڈیوٹی پر مامور پولیس آفیسر اس امریکن گوری کے جواب سے خوب محظوظ ہوا۔ پہلے مسکرایا‘ پھر ویل ڈن کہا اور پھر No further comments کہتے ہوئے اس نے اپنی جگہ تبدیل کرلی۔ اس ینگ امریکن کے اس تجزیہ کے بعد میں اس سوچ میں گم تھا کہ لاکھوں قربانیوں سے حاصل کئے اپنے وطن کی سا  لمیت و استحکام کے دفاع کیلئے ہمارے سیاست دانوں اور حکمرانوں نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے جو راہیں متعین کی ہیں‘ یہاں پروان چڑھنے والی نئی پاکستانی نسل ان راستوں سے اپنا تعلق شاید اب ہمیشہ کیلئے منقطع کرلے کہ قیام پاکستان کے جس خواب کی تعبیر انکے اباواجداد نے انہیں بتائی‘ افسوس! وہ اب پوری ہوتی انہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ من حیث القوم ہمارا مسئلہ کوئی ایک ہو تو اس پر بات کریں‘ یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ ماہ صیام کے اس بابرکت ماہ کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ’’لیلۃ القدر‘‘ کے حصول کیلئے اس مرتبہ بھی ہم نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ ایسی ایسی دعائیں مانگی ہیں جو سال بھر نہ مانگ سکے مگر! آج جمعرات کی شب برطانوی مسلمانوں پر اس لحاظ سے بھی بھاری ہے کہ ’’قمری شہادت‘‘ کے مسئلے نے پھر سر اٹھا لیا ہے۔ برطانیہ کی قمری تاریخ میں گرینج کی Moon Sighting کی جانب سے پہلی بار چاند کی پیدائش کے بارے میں دی گئی پیشگی معلومات کے مطابق آج جمعرات کی شب مطلع پر چاند نظر آنے کی قطعی امید نہیں۔ آسان لفظوں میں یوں کہ عیدالفطر بروز ہفتہ ہوگی۔ مگر نہ جانے میری چھٹی حس یہ تسلیم کیوں نہیں کر پا رہی کہ برطانیہ میں مسلمان اس مرتبہ کیا ایک ہی دن عیدالفطر کا تہوار منا پائیں گے؟

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...