انسانی فلاح کے عزم سے سرشار ادارہ

Apr 20, 2023

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

میں پچھلے سال کے سیلاب کا ذکر لے بیٹھا ہوں، جبکہ اس سال پھر خطرات کی گھنٹیاں بج گئی ہیں۔ تاہم گذشتہ سیلاب نے اس قدر تباہی مچائی کہ اس پر قابو پانے کیلئے تین سال درکار ہیں، اس سلسلے میں حکومت اور این جی اوز کی کاوشیں جاری ہیں، میں یہاںالخدمت کی کاوشوں کا ذکرکرنا چاہوں گا،جس کاسب سے بڑا نیٹ ورک رکھنے والا ادارہ ہے۔ 2005 ء میں کشمیر او رصوبہ خیبر پختونخوا میں آنے والا تباہ کن زلزلہ،2007میں شمالی پنجاب میں آنے والا سیلاب ہو یا 2008 میں بلوچستان میں آنے والا زلزلہ، 2009 اور 2014 میں بد امنی کے خلاف جنگ سے بے گھر ہونے والا سانحہ ہو یا 2010 سے 2015ہر سال سیلاب کی بربادیاں، تھر پارکر میں قحط کی صورتحال ہو یا آزاد کشمیر میں لائن آف کنٹرول پرکشیدگی سے متاثرہ خاندان۔الخدمت فاؤنڈیشن نے ہمیشہ کسی بھی نا گہانی آفت کی صورت میں بر وقت ریسکیو اور ریلیف سرگرمیوں میں حصہ لیا۔الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت ملک بھر میں قدرتی سانحات اور ایمرجنسی کی صورت میں عوام کو فوری اور بروقت ریلیف کی فراہمی کے لئے الخدمت ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل موجود ہے۔ 
چونکہ پاکستان مون سون کے علاقے میں واقع ہے۔ اس لئے جولائی اور اگست کے مہینوں میں بارشوں کی وجہ سے سیلاب آتے رہتے ہیں۔ کبھی کم اور کبھی زیادہ۔ 1973ء اور 2010ء میں آنے والے سیلابوں نے بہت تباہی مچائی تھی لیکن سال2022 میں سیلاب نے تمام پچھلے سالوں میں سیلابوں کی نسبت بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔گزشتہ سال سیلاب نے جو بلوچستان میں شروع ہوا تھا ،پورے پاکستان میں تباہی مچا دی لیکن سب سے زیادہ نقصان بلو چستان میں ہوا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ بلوچستان کے پہاڑوں کے دامن میں واقع تمام علاقے پہاڑوں سے آنے والی مون سون کی بارش کے ر یلے کی تاب نہ لا سکے۔ اس لئے بہت جانی اور مالی نقصا ن ہوا۔زیادہ نقصان ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ چونکہ بلوچستان کی آبادی وسیع علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔ بارشوں سے سڑکیں اور پل بہہ جانے کی وجہ سے سیلاب زدگان کے بارے میں بروقت معلومات صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو نہیں پہنچ سکیں۔اس سال آنے والے سیلاب کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی وجہ غیر معمولی بارشیں تھیں جس کے باعث جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں کہیں فلیش فلڈنگ اور کہیں اربن فلڈنگ کے باعث نقصان ہوا۔
یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2022 کے دوران مون سون میں شدید بارشوں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے، جن میں تقریباً ایک کروڑ 60لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ 350 سے زائد بچوں سمیت 1100 سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، 1600 زخمی ہوئے، اور 287,000 سے زیادہ گھر مکمل طور پر اور 662,000 جزوی طور پر تباہ ہو ے۔ کچھ بڑے دریاؤں کے بند ٹوٹنے اور ڈیمزمیں پانی کی سطح بلند ہونے سے گھروں، کھیتوں، سڑکوں، پلوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور صحت عامہ کی سہولیات سمیت اہم بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔
اِس ساری صورتحال  میں الخدمت کے 62,805 رضاکاروں نے ریسکیو، ریلیف اور بحالی کی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ انہوں نے  سینکڑوں رسوں، ٹیوبز، 281 ایمبولینسز، گاڑیوں اور 43 موٹر بوٹس کی مدد سے کم و بیش60 ہزار افراد کو ریسکیو کیا۔ اِن رضاکاروں نے انسانی جانیں بچانے کیلئے عزم و ہمت کی تاریخ رقم کی۔ خاص طور پر میت چارپائی اور تاروں  کے ذریعے پانی میں گھرے خاندان اور دریا میں ڈوبتی گاڑی میں سے خاندان کو ریسکیو کرنا ایک یاد گار واقعہ بن گیا۔ اِن مناظر نے کئی لوگوں کو حوصلہ دیا اور اِن رضاکاروں کو ملکی و بین الاقوامی میڈیا پر بھی سراہا گیا۔ رضاکاروں نے انسانی جانوں کے ساتھ جہاں تک ممکن ہوا جانوروں کو بھی ریسکیو کرنے کا اہتما م کیا۔پاکستان اسلامک میڈیکل ایسو سی ایشن کے  سینکڑوں ڈاکٹرز اورطبی عملے نے متاثرہ علاقوں میں ہزاروں مقامات پر میڈیکل کیمپ لگائے۔اشیائے خورونوش، خیموں، ترپالوں، ادویات، کپڑوں، جوتوں اور دیگرامدادی سامان پرمشتمل 910 ٹرک روانہ کیے جا چکے ہیں۔ ترکیہ، ملائشیا، انڈونیشیا، یو کے،کینیڈا،امریکہ، تھائی لینڈ اور عرب ممالک سے 86 سیز ائد بین الاقوامی رفاہی تنظیموں نے الخدمت کے ہمراہ سیلابی علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ سیلاب متاثرہ  علاقوں  میں 41 کچن کے ذریعے روزانہ 85,200 افراد کو پکاپکایا کھانا فراہم کیا جاتا رہا۔جہاں رسائی ممکن نہ تھی وہاں کشتیوں کے ذریعے خورونوش کی دیر پا اشیا(بسکٹ، بھنے ہوئے چنے، کھجور اور جوسز)پہنچانے کا عمل جاری رہا۔275833  ضرورت  مند خاندانوں میں خشک راشن (فوڈ  پیکج)تقسیم کیا جا چکا ہے۔الخدمت نے متاثرین میں 61,758  خیمے اور ترپالیں تقسیم کی جا چکی ہیں۔الخدمت نے محفوظ مقامات کی نشاندہی کے بعدڈیڑھ ہزار سے زائد خیموں پرمشتمل چھوٹی بڑی 69 خیمہ بستیاں بھی  قائم کیں۔
 سیلاب کے فوری بعد الخدمت کے ڈاکٹرز،پیرامیڈیکل اسٹاف اور رضاکاروں نے ایمبولینسز ، کشتیوں اورگاڑیوں کے ذریعیدوردراز متاثرہ علاقوں میں طبی سہولیات پہنچانا شروع کیں۔اب تک الخدمت سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے متاثرہ علاقوں میں 2296میڈیکل کیمپس کا انعقاد کیا گیا۔سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے متاثرہ علاقوں میں 60 موبائل میڈیکل وینز کام کر رہی ہیں۔ اور سانپ کے کاٹے سمیت  10 سے زائد امراض کی ادویات بھی مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔الخدمت کے حاملہ خواتین کیلئے بڑے  فلاحی منصوبے ''ماں محفوظ۔۔ خاندان محفوظ''کے تحت لیڈی ڈاکٹر کے ذریعے حاملہ خواتین کا بنیادی چیک اپ، الٹرا ساؤنڈ اور رجسٹریشن کا پراسس کیا جاتا ہے تاکہ محفوظ زچگی تک رہنمائی اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ اب تک  60 موبائل ہیلتھ یونٹس متاثرہ علاقوں میں بھجوائے جا چکے ہیں۔
الخدمت نے سیلاب متاثرہ علاقوں میں فوری اور موثر طبی امداد کی فراہمی کیلئے متاثرہ علاقوں کو 6 زونز میں تقسیم کیا ہے اور 6 فیلڈ ہسپتال قائم کیے ہیں۔ ایک اور خدمت سیلاب متاثرین کو ہائی جین کٹس کی فراہمی ہے جس میں صابن، ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ،مگ، فوری طبی امداد کی ادویات، پانی صاف کرنے کی دوا  اورخواتین کے لیے سینٹری پیڈز شامل کیے گئے ہیں۔اب تک 52 ہزارسے زائد ہائی جین کِٹس تقسیم کی جا چکی ہیں۔گزشتہ سال سیلابی صورتحال میں الخدمت کی ان طبی خدمات سے 779054  افراد مستفید ہوچکے ہیں۔
متاثرہ علاقوں میں عارضی آبادیوں تک پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے  34موبائل واٹر فلٹریشن پلانٹس اور 106 واٹر ٹینکرز کا اہتمام کیا ہے۔ الخدمت  نے17 خیمہ بستیوں میں  خیمہ سکول بھی قائم کئے تاکہ بچے تعلیم و تربیت اور تفریح حاصل کر پائیں۔ ریسکیو اور ریلیف  سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بحالی کے کام کے لئے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔بحالی کاکام چاروں صوبوں (بلوچستان، سندھ، خیبر پختوا اورجنوبی پنجاب) میں جاری ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے تعمیرِ وطن پروگرام کے تحت سیلاب متاثرہ علاقوں میں90کروڑ روپے کی لاگت سے5ہزار گھروں کی تعمیرومرمت کا منصوبہ کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ اب تک ملک بھر کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں ایک ہزار سے زائد گھروں کی تعمیر و مرمت کا کام مکمل کرکے متاثرین کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔ متاثرہ اضلاع میں موجود یتیم بچوں کو الخدمت آرفن کیئر پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔توقع ہے ان علاقوں کے4 سے 12سال تک کے3ہزارسے زائد یتیم بچوں کی مستقل کفالت کا بندوبست کیا گیا ہے۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹس،کمیونٹی واٹر پمپس اور دیگر منصوبہ جات کیلئے25 کروڑروپے مختص کیے گئے ہیں۔ اب تک صاف پانی کے 579 منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں۔

مزیدخبریں