قومی قیادتیں ایک ہی دن انتخابات پر متفق ہو جائیں

Apr 20, 2023

اداریہ

پاکستان الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی اپنی رپورٹ میں ایک مرتبہ پھر یہ کہا ہے کہ پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانا اب ممکن نہیں۔ اس رپورٹ میں ایک ہی دن تمام اسمبلیوں کے انتخابات اور اس کیلئے آٹھ اکتوبر 2023ء کی تاریخ کو موزوں قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے تمام معاملات و حقائق کو مدنظر رکھ کر ہی انتخابات کیلئے آٹھ اکتوبر کی تاریخ دی تھی۔ الیکشن کمیشن یقین رکھتا ہے کہ اگر اس راستہ کو نہ اپنایا گیا تو ملک میں انارکی پھیلے گی۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کے انتخابات کیلئے پولیس اہلکاروں کی دستیاب تعداد 81 ہزار پچاس ہے جبکہ ضرورت چار لاکھ 66 ہزار اہلکاروں کی ہے۔ اس وقت پولیس اور دوسرے سکیورٹی ادارے اپریشنز میں مصروف ہیں۔ الیکشن کیلئے ہونیوالے اخراجات میں سکیورٹی نظام کی نقل و حرکت بھی شامل ہے۔ مرحلہ وار انتخابات کرانے سے تشدد کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ 
پنجاب میں انتخابات کیلئے فنڈز کی فراہمی کے معاملہ پر الیکشن کمیشن‘ وزارت خزانہ اور سٹیٹ بنک کی جانب سے بھی اپنی الگ الگ رپورٹیں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ہیں۔ سٹیٹ بنک نے فنڈز جاری نہ کرنے کی وجوہات بتائی ہیں جبکہ وزارت خزانہ کی رپورٹ میں کابینہ کے فیصلہ اور پارلیمان کو معاملہ بھجوانے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ یہ رپورٹس رجسٹرار سپریم کورٹ آفس میں جمع کرائی گئیں جو ججز چیمبرز میں بھجوائی جائیں گی۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وزارت دفاع نے ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پنجاب میں انتخابات کا حکم واپس لے اور ملک بھر میں ایک ساتھ انتخاباثت کے انعقاد کا حکم دیا جائے۔ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر عدالت عظمیٰ کا چار اپریل کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ عدالت سندھ‘ بلوچستان اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر انتخابات کا حکم دے۔ وزارت دفاع نے سربمہر درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔ 
اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ ریاستی‘ انتظامی اداروں کیلئے آئین و قانون کی پاسداری اور عدل و انصاف کی عملداری ترجیح اول ہونی چاہیے۔ آئین نے جس کی جو ذمہ داریاں اور حدودقیود متعین کی ہیں‘ اسکے مطابق ہی حکومت و مملکت کے تمام معاملات چلائے اور امور طے کئے جائیں تو ادارہ جاتی سطح پر فرائض کی انجام دہی کے معاملہ میں کسی قسم کی قباحت‘ رکاوٹ یا عذر پیدا ہونے کا موقع نہیں نکل سکتا اور نہ ہی اداروں کے مابین غلط فہمیاں‘ اختیارات کی کشمکش کا کوئی ناخوشگوار منظر سامنے آسکتا ہے۔ بے شک آئین میں یہ طے ہے کہ کسی اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں اسکے 90 دن کی میعاد کے اندر اندر انتخابات ہونگے تاہم 1990ء کی اسمبلی کی تحلیل کیخلاف نواز شریف کے کیس میں سپریم کورٹ ہی یہ فیصلہ صادر کر چکی ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے صوابدیدی اختیارات نیک نیتی سے استعمال ہونا ضروری ہے۔ اسی تناظر میں عدالت عظمیٰ نے 90ء کی اسمبلی توڑنے سے متعلق صدر غلام اسحاق خان کا اقدام غیرقانونی اور کالعدم قرار دیا تھا۔ آئین میں اسمبلی تحلیل کرنے کا صوابدیدی اختیار وزراء اعلیٰ کو بھی حاصل ہے تاہم اس اختیار کے استعمال کی نیت کا پیش نظر رکھا جانا ضروری ہے۔ اگر کوئی وزیراعلیٰ محض اپنی اور اپنی پارٹی کی سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس گورنر کو بھجوائے جس پر عملدرآمد سے ملک کے سسٹم میں خلفشار پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس پر نوازشریف کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ لاگو ہو سکتا ہے۔ 
پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلیوں کی قبل ازوقت تحلیل کے حوالے سے ملک میں انتشار‘ خلفشار اور سیاسی عدم استحکام کی فضا اس لئے گہری ہوئی کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ان اسمبلیوں کے 90 دن کی آئینی میعاد کے اندر انتخابات کے معاملہ کا اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیا اور اس کیس کی مختلف بنچوں کے روبرو سماعت کے دوران یہ تاثر پیدا ہوا کہ عدالت عظمیٰ کا فاضل بنچ بالخصوص ایک فریق کی سائیڈ لے رہا ہے۔ اس تاثر کو بعدازاں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے بعض دوسرے اقدامات و احکام سے بھی تقویت ملی۔ بالخصوص اس حوالے سے کہ 90 دن کی آئینی میعاد کا تقاضا صرف پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے ہی کیوں کیا جارہا ہے اور اس معاملہ میں خیبر پی کے اسمبلی کے انتخابات کی الگ حکمت عملی کیوں سوچی گئی ہے۔ اس پر یقیناً حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی اپنی سیاسی ترجیحات کو پیش نظر رکھ کر سیاست کی اور پنجاب کے انتخابات کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے احکام کو وفاقی کابینہ اور پارلیمنٹ کی سطح پر مسترد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جس کیلئے انہیں اسی ایشو پر سپریم کورٹ کے اندر چیف جسٹس کے ساتھ انکے برادر ججوں کی جانب سے سامنے آنیوالے تحفظات سے بھی تقویت حاصل ہوئی۔ فاضل ججوں کے اپنے اپنے نوٹس میں دیئے گئے یہ استدلال ہرگز نظرانداز نہیں کئے جا سکتے کہ سیاسی معاملات و مقدمات میں چیف جسٹس کو اپنے صوابدیدی اختیارات بروئے کار نہیں لانے چاہئیں کیونکہ اس سے عدلیہ کا تشخص خراب ہوتا ہے۔ اسی دلیل کو حکومتی اتحادی قیادتوں نے استعمال کیا اور چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات محدود کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں عدالتی اصلاحات بل منظور کرلیا۔ مگر اسے بطور قانون روبہ عمل آنے سے پہلے ہی چیف جسٹس نے آٹھ رکنی بنچ تشکیل دے کر اس مجوزہ قانون پر عملدرآمد روک دیا۔ اس سے سیاست و عدالت میں مزید خلفشار کا راستہ ہموار ہوا‘ نتیجتاً آج ملک بھی قیاس اور انارکی کی زد میں ہے اور قوم بھی مضطرب و مایوس نظر آتی ہے۔ اگر پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ ایک دوسرے کے مدمقابل آکر ایک دوسرے کے اختیارات کو چیلنج کرنا شروع کر دیں تو اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ ملک میں خلفشار اور سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کس انتہاء تک جا سکتا ہے اور ملک کی سلامتی کے درپے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے ملک کے ان حالات سے فائدہ اٹھانے کا کتنا سازگار موقع مل سکتا ہے۔ 
بلاشبہ یہ صورتحال تمام قومی‘ سیاسی‘ عسکری اور ادارہ جاتی قیادتوں سے معاملہ فہمی اور اس کیلئے قومی ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرنے کی متقاضی ہے۔ یقیناً اسی تناظر میں افواج پاکستان کے تین انٹیلی جنس اور سکیورٹی اداروں کے سربراہوں نے چند روز قبل چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطاء بندیال سے انکے چیمبر میں طویل ملاقات کی اور انہیں پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے عدالتی کارروائی کے ممکنہ مضمرات اور ملک کی سکیورٹی کے حالات سے مفصل بریف کیا جس کی گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے۔ 
ملک کو خلفشار اور سیاسی و اقتصادی عدم استحکام سے نکالنے کا یقیناً یہی صائب اور دانشمندانہ اقدام ہو سکتا ہے کہ تمام سول‘ عسکری اور ادارہ جاتی قیادتیں باہم افہام و تفہیم سے آٹھ اکتوبر کو یا کسی بھی دوسری مناسب تاریخ پر ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا متفقہ فیصلہ کرلیں اور حکومت کو پابند کردیا جائے کہ وہ اس فیصلہ سے انحراف کا تصور بھی نہ کرے۔ اس کیلئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی جانب سے پہلے ہی عندیہ دیا جا چکا ہے کہ اگست میں قومی اسمبلی تحلیل اور موجودہ حکومت ختم ہو جائیگی اور اکتوبر میں نگران حکومتیں انتخابات کرائیں گی۔ بے شک یہ کسی کی ضد اور انا کا مسئلہ نہیں‘ ہمیں ملکی سلامتی اور سسٹم کی بقاء و استحکام سے زیادہ کچھ عزیز نہیں ہونا چاہیے ورنہ تاریخ متعلقین میں سے کسی کو معاف نہیں کریگی۔ 

مزیدخبریں