سیّد ابو بکر غزنوی
ڈاکٹر خورشید رضوی
دنوں کی بھی ایک خوشبو ہوتی ہے۔ یا شاید آدمی کے باطن میں کوئی نافہ ہوتا ہے جو ا±سے باہر مہکتا محسوس ہوتا ہے۔ یہ 959ا کی بات
ہے۔ ا±ن دنوں کی خوشبو آج بھی میرے مشام میں ہے۔اورینٹل کالج میں داخلہ ہوا کالج کے اندر جانے کی مرکزی راہداری میں بائیں طرف کی دیوار پر نوٹس بورڈ آویزاں تھا۔ اس کے بڑے بڑے گول گول خانوں کی جالی کے اندر سے میں نے اپنا ٹائم ٹیبل نوٹ کیا۔ اساتذہ کون ہیں اور ہمیں کب کب اور کیا کیاپڑھائیں گے۔ اس کی تفصیل نوٹ کرتے ہوئے ان اساتذہ کی ایک فرضی شبیہ بھی ذہن میں بنتی چلی گئی۔ ان ناموں میں ایک نام سید ابو بکر غزنوی کا بھی تھا جو ہمیں جدید عربی ادب پڑھائیں گے۔ اس نام ’ابو بکر غزنوی‘ کی جو تصویر متخیلّہ نے بنائی وہ ایک د±بلے پتلے، سانولے، دراز قد، باریش شخص کی تصویر تھی جو ڈھیلی ڈھالی عربی عبا میں ملبوس، عبا کے دامن کو لہراتا ہوا میری روشِ خیال پر گام زن تھا۔
سیّد ابو بکر غزنوی صاحب اسلامیہ کالج سول لائنز میں فریض? تدریس انجام دیتے تھے اورہفتے میں دوبار انہیں اورینٹل کالج آنا تھا۔ اورجب وہ آئے تو ہم بس ا±نہیں دیکھتے ہی رہ گئے۔ میانہ قد، کلین شیوڈ، سرخ و سپید رنگت، بڑی بڑی پ±رجلال آنکھیں، چغتائی آرٹ کا نمونہ، خوبصورت سوٹ میں کمال جامہ زیبی کے ساتھ ملبوس، بوٹ چمکے ہوئے جو پیدل اسلامیہ کالج سے آتے آتے کچھ گرد آلود ہو جاتے تھے۔ چال میں ایک عجیب تمکنت جسے بیان میں لانا بہت مشکل ہے۔ سرمستی، ناز، رعب اور دبدبے کا آمیزہ:
اے تماشا گاہِ عالم روئے تو۔۔۔ توکجا بہرِ تماشا می روی۔
اسی موجِ خرام سے گل کترتے ہوئے س±رخ سیڑھیاں چڑھ کر کلاس روم میں داخل ہوئے تو سب کا اوپر کا سانس ا±وپر اور نیچے کا نیچے
رہ گیا۔ حاضری لگائی تو پاٹ دار آواز کے زیر و بم نے بالکل ہی مار ڈالا۔ بہت ٹھہر ٹھہر کر طلبہ و طالبات کا نام بولتے تھے۔ لڑکوں کے ساتھ ’مسٹر‘ اور لڑکیوں کے ساتھ ’مِس‘کا سابقہ لگاتے۔ کہیں کہیں ’مِس عثمان غنی‘ جیسی غلطی بھی ہو جاتی جو مجھے یقین ہے کہ دانستہ ہوتی تھی۔ طلبہ بے ساختہ ہنس پڑتے تو غزنوی صاحب تیوری چڑھا کر کمال سنجیدہ لہجے میں فرماتے ’There is nothing to be laughed at، زبان ہے،لغزش کر سکتی ہے۔‘
یہ لہجہ صرف سنجیدہ ہی نہیں، سفّاک بھی ہوتا تھا۔ ا±ن کی آواز کی گمک اور ایک ایک لفظ پر زور دینے کے انداز میں ایک طرح کی سوچی سمجھی یلغار ہوتی تھی۔ وہ لڑکوں کو اسی لیے ہنساتے تھے کہ فوراً ہی پٹخنی دے کر ٹھکانے لگا دیں۔ ا±ن کی کلاس میں کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ نئے شاگردوں کو آغاز ہی میں ب±ل ڈوز کر دینے کے قائل تھے۔ میرانام پکارتے تو قواعد کے اعتبار سے ’ال‘ کی غلطی کو نمایاں کرنے کے لیے خورشید الحسن میں ’د±ل‘ پر خاص زور دیا جاتا۔ پھر رک کر فرماتے جب ’دارالماہی‘ جاتا ہوں تو آپ یاد آجاتے ہیں اور جب آپ کو دیکھتا ہوں تو دارالماہی یاد آجاتا ہے۔ (اشارہ بھاٹی دروازے کے باہر ایک مشہور دکان کی طرف ہوتا جہاں تلی ہوئی مچھلی بکتی تھی اور اس کے نام میں ’ال‘کی وہی غلطی پائی جاتی تھی) اس پر کلاس میں ہنسی کا ہلکا سا قہقہہ ا±ٹھتا تو وہی مکمّل مخارج کے ساتھ There is nothing to be laughed at کا رولر چلتا اور یہ غنچے بن کھِلے ہی مرجھا جاتے۔
طہٰ حسین کی خود نوشت، کا حصّہ اوّل ہمارے نصاب میں تھا اور ا±س کی تدریس غزنوی صاحب فرماتے تھے۔ طہ ٰ حسین کے اسلوب پر جا بجا تبصرہ کرتے ہوئے ہمیں سمجھاتے کہ اس کے ہاں صِلات کا التزام دیکھو’عن ?ن‘کو کس خوبی سے برتا ہے۔ کہیں واضح کرتے کہ دیکھو نا بینا ہونے کے باوجود اس نے رنگوں کا امتزاج کیسا دکھایا ہے، الفاظ کا در و بست کیا خوب رکھتا ہے۔
طہٰ حسین کے لیے کبھی کبھی اپنا مخصوص لفظ ” ٹوٹی “ استعمال کرتے جس کا مفہوم تھا ” شریر “۔ مثلاً دادکے انداز میں فرماتے، بڑا ٹوٹی ہے‘۔بہت اچھے م±وڈ میں ہنستے تو سامنے کا ایک دانت جو تِرچھے ر±خ سے تھوڑا سا ٹوٹا ہوا تھا بہت بھلا معلوم ہوتا تھا۔ جلد ہی میں نے محسوس کیا کہ غزنوی صاحب کا خصوصی التفات مجھے حاصل ہوگیا ہے۔ وہ اورینٹل کالج سے نکلتے تو مجھے کچھ دور ساتھ چلنے کی خاموش اجازت ہوگئی۔ جس کے دوران وہ بے تکلّف گب شپ بھی کر لیتے۔ وہ عربی پڑھنے والوں کے عمومی ٹھس رویے سے ناخوش تھے۔ ک±ندذہن لوگوں سے، جنہیں وہ ’کو دن‘ کہتے تھے، ان کی طبیعت نفور تھی۔
ایک روز باتیں کرتے کرتے وہ مجھے اپنے گھر تک ساتھ لے گئے شیش محل روڈ پر ان کے آبائی مکان کے نچلے حصّے میں مدرسہ تھا۔ دروازے سے داخل ہوکر جب بائیں ہاتھ کو سیڑھیاں چڑھنے لگے تو مدرسے کے دالان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’یہاں ایک سے ایک کو دن مولوی بیٹھا ہے‘ پھر گویا ہوئے کہ اپنے زمانہ جاہلیت میں ایک بار میں انہی سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا کہ اندر سے ایک مولوی لپکا ہوا آیا اور کہنے لگا: ’غزنوی صاحب! آپ کی پتلون کے پائینچے ٹخنوں سے نیچے تک آرہے ہیں۔‘ میں نے کہا: ’تو پھر؟‘ ا±س نے کہا: ’یہ خلافِ شرع ہے‘ میں نے کہا: ’کوئی دلیل؟‘ ا±س نے اِلَی الکَعبےَن (ٹخنوں تک) والی روایت پڑھی۔ میں نے کہا: ’الی الکعبین‘ میں ٹخنے داخل ہیں یا خارج؟ ا±س نے کہا: ’خارج‘ میں نے کہا وضو کی آیت ’دھولیا کرو اپنے چہرے اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک‘میں کہنیاں داخل ہیں یا خارج؟ ا±س نے کہا ’داخل‘ میں نے کہا: ’کبھی خارج کرتے ہو کبھی داخل کرتے ہو چلو بھاگ جاو¿۔‘ وہ گھبرا کر بھاگ گیا۔ ا±وپر کمرے میں جاکر مجھے احساس ہوا کہ بات تو مولوی کی درست تھی اس لیے ا±سے اس مخمصے سے نکالنا بھی چاہیے۔ چنانچہ ا±سے پھر بلوایا اور پوچھا: ’روزے کے بارے میں آیتفَا تِمّ±وا الصِّیام اِلی اللَّیل میں رات داخل ہے یا خارج؟‘ اِس نے کہا: ’خارج‘ میں نے کہا:’تو یہ دلیل ا±س وقت کَیوں نہیں دی؟ چلو بھاگ جاو¿، سو وہ غریب پھر بھاگ گیا۔
اوائل اپریل 1984میں یہ خبرِ وحشت اثر سننے میں آئی کہ غزنوی صاحب جو ورلڈ آف اسلام فیسٹیول میں شرکت کے لیے پاکستانی وفد میں لندن تشریف لے گئے تھے، سڑک عبور کرتے ہوئے ایک تیز رفتارگاڑی کی جھپٹ میں آگئے اور کچھ عرصہ وہیں ہسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے بعد 24/ اپریل کو انتقال کر گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجع±ونَ