دانائے راز

Apr 20, 2024

طارق محمود مرزا

طارق محمود مرزا۔آسٹریلیا
    ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال ؒ بیسویں صدی کی ایک نابغہ روز گار شخصیت تھی ۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریکِ پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اگرچہ شاعری ان کی وجہ شہرت بنی تاہم انہوں نے اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ اُن کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی ۔ شاعری میں بنیادی رُجحان تصوف، احیائے ملتِ اسلامیہ اور فروغِ عظمتِ انسان تھا۔ان کا کلام ہمہ جہت موضوعات اور خیالات پر مبنی ہے۔اس میں انسان، معاشرہ اور کائنات سبھی شامل ہیں۔انہوں نے انسان کی داخلی کیفیات ، خارجی اثرات، نفسیات سمیت مدنیات، فطرتِ حیات اور آفاقی خیالات کو شاعرانہ رنگ و آہنگ میں پیش کیا ہے ۔ انہوں نے فطرت سے بھی کلام کیا اور اس کے خالق سے بھی ہم کلام ہوئے۔اپنے ہم وطنوں میں ولولہ تازہ پیدا کیا ،مسلمانوں میںانقلابی روح پھونکی اور بنی نوع ِ انسان کو خود شناسی کا پیام دیا۔ان کی زندہ شاعری نے زندگی کی نئی اور تابناک راہوں کا تعیّن کیا جس پر چل کر انسان عظمت کی بلندیاں سر کر سکتا ہے ۔ 
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہَ کامل نہ بن جائے 
    اقبال مشرق و مغرب کے علم کے خوشہ چین تھے۔کارل ماکس، گوئٹے، ارسطو، ابن ِ خلدون، رازی، رومی ، نطشے، آئن سٹائن، بائرن،پٹوفی، ہیگل، مزدک سمیت علم وہنر کے کتنے ہی تابندہ چراغ تھے جن سے اقبالؒ نے نہ صرف اکتسابِ فیض کیا بلکہ ان کے نظریات و خیالات کو اپنے اشعار میں پر وکر بنی نوع انسان تک پہنچایا۔تاہم ان تمام حکما سے علامہ ؒنے اپنے نظریات کو خلط ملط نہیں ہونے دیا، بلکہ ایک صاحبِ فکراورصاحبِ بصیرت شخص کی حیثیت سے اپنی سوچ اور اپنا جداگانہ انداز قائم رکھا۔ ویسے بھی شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی فکر اور فلسفہ تہذیبِ مشرق کا عکاس ہے جو عمومی طور پر مغربی سوچ و فکر سے جُداہے ۔علامہ ؒکے فکر ونظر میں بوعلی اور رازی کا انداز اور رومی کا سوز و ساز ان کے کلام کو الہامی بنادیتا ہے۔علامہ اقبالؒ کے مطالعہ کی وسعت اور غور وفکر کی عمق دانائی ا ور حکمت کے ایسے گوہر ِ نایاب ڈھونڈ لاتی ہے جو رہتی دنیا تک اہلِ نظر کی روح ودل کو گرماتے رہیں گے۔:
خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
اقبالؒ کی عقل اور دانائی فکر انسانی تک محدود نہیں بلکہ اس کے مآخذ قرآن و سنت بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام اور پیغام واضح ہے اور ابہام سے پاک ہے۔ علامہ اقبال ؒ کو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا گہرا ادراک تھا اور اس عظمت کے کھو جانے کا شدید ملال تھا ۔ مگر وہ اس پر ماتم نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوامقام یاد کراتے ہیں۔ اورانہیں یہ مقام پھر سے حاصل کرنے کاولولہ اور حوصلہ دیتے ہیں ۔ علامہ اقبالؒ کے کلام کا بیشتر حصہ ملّت اسلامیہ کی عظمت کی بحالی کے عزم سے مزیّن ہے۔
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
    علامہ اقبالؒ کا کلام تصوف پر مبنی ہے۔ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے عشق کا ترانہ ہے۔ایک ایک شعر معنی اور مفہوم کا دریا موجزن ہے۔ جتنا غوطہ زن ہوں اتنے موتی ہاتھ آتے ہیں۔ یہ شاعری نہیں داستانِ عشق ہے ۔عشقِ الہٰی، عشقِ حقیقی ، جذب وشوق ، سوز و مستی اور من کی دنیا کا ذکر ہے جو تن کی دنیا سے الگ ہے۔:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
 ان کے پیغام اور فلسفہ حیات میں سب سے اہم ’خودی‘ ہے ۔یہ ان کے فکر ونظر کا مرکزی نکتہ ہے ۔ان کا فلسفہ خودی ان کی پہچان ہے۔یہ معراجِ انسانیت فلسفہ انسانیت کے لیے نئی راہوں اور نئی بلندیوں کو متعارف کراتا ہے۔ اقبالؒ کے نزدیک خودی احساس و غیرت، خودداری، اپنی ذات و صفات کا پاس ہونا، اپنی انا کو محفوظ رکھنا اور دوسروں پر انحصار کیے بغیر اپنی راہیں خود تلاش کرنا ہے ۔خودی کی راہ خالق سے کیسے وابستہ ہے اس کا اظہار اقبالؒ نے یوں کیا ہے ۔:
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
 فکرِ اقبالؒ ایک مکمل فلسفہ حیات پیش کرتی ہے۔ خودی، یقین، عشق، عملِ پیہم، تحرک اور خود انحصاری ان کے فلسفہ کے بنیادی عناصر ہیں۔انہوں نے اپنے پیام میں غیر اللہ کے آگے ہاتھ پھیلانے سے منع کیا اور صرف اللہ سے تمام امیدیں وابستہ کرنے کا حکم دیا ۔
خودی کا سر نہاں لا اِلَہ اِلا اللہ
خودی کی تیغ فساں لا اِلَہ اِلا اللہ
         اقبالؒ کا مدعا یہ تھا کی انسان عظمت کی بلندیاں سر کرے، زمین کی تہوں اور آسمان کی رفعتیں دسترس میں لائے، پہاڑوں کا سینہ چاک کرے، سمندر کی گہرائیاں ناپ ڈالے، گویا زمین و آسمان کو میدانِ عمل بنا لے اور اپنی جملہ صلاحیتیں بروئے کار لاکر اپنے آپ کو صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات ثابت کرے۔ یہ ایک شاعر کا تخیل نہیں ہے بلکہ دانائے راز فلسفی کا فلسفہِ حیات ہے۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں شاعرِ مشرق اس وجہ سے اداس اور غمگین رہتے تھے کہ اس فقیر کی زندگی تو انجام کو پہنچ رہی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے بعد ان رازوں کا آمین مسلمانوں کو میسر ہو سکے گا یا نہیں۔ ان کی فارسی رباعی جو حالتِ نزع ان کی زبان پر تھی کا اُردو ترجمہ ہے:
 سرودِ رفتہ آئے کہ نہ آئے ۔ حجاز سے ٹھنڈی ہوا آئے کہ نہ آئے ۔ یہ فقیر دُنیا سے جا رہا ہے ۔ دوسرا دانائے راز آئے کہ نہ آئے ۔)
 قوم و ملت کے لیے یہ کرب علامہ کی عظمت کی غمازی کرتا ہے۔ایسی درد مند شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔تاہم ان کا کلام ہمیشہ ملت کی رہنمائی کرتا رہے گا۔کلامِ اقبالؒ فلاح کا راستہ ہے، کامیابی کا راستہ ہے اور تکمیلِ انسانیت کا راستہ ہے۔شرط یہ ہے کہ اس پیغام کو قلب و رُوح میں جاگزیں کیا جائے۔
 (اس تحریر کے خالق طارق محمود مرزا کہانی ، سفرنامہ اورکالم نگاری کے ساتھ شنا سائے فکرِ اقبال ہیں۔ انھوں نے آسٹریلیا میں اقبال سٹڈی سرکل قائم کر رکھا ہے جو با قاعدگی سے فکرِ اقبال کے پروگرام منعقد کرتی ہے) 

مزیدخبریں