وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
امریکی صدر بائیڈن کی جانب سے 3برس کے بعد پاکستانی وزیر اعظم کو لکھے جانے والا خط اہمیت کا حامل ہے۔ مکتوب میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ امریکہ پاکستا ن کا دوست ہے اور مشکل وقت میں کام آنے والا ہے اور یہ خط عین اسی وقت میں بھیجا گیا ہے جب کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ،حکومت اور صدر پاکستان آصف علی زرداری چین کے ساتھ دوستی مضبوط اور ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے ہو ئے تھے ،چینی شہریوں پر حملوں کے بعد ہمیں یہ بھی خدشات لاحق تھے کہ کہیں چین سی پیک سے پیچھے ہی نہ ہٹ جائے اور ہمیں کہیں چینی سرمایہ کاری سے ہاتھ نہ دھونے پڑ جائیں ،اس خط کی ٹائمنگ یقینا اہم تھی لیکن اور میں تو یہ کہوں گا کہ یہ خط چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بیک برنر پر لے جانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے ،پاکستان کو چاہیے کہ چاہے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہی کیوں نہ ہوں چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں کسی قسم کی کو ئی بھی کمی نہیں کی جانی چاہیے۔پاکستان اہم ملک ہے اور پاکستان ایک کلیدی جغرافیائی حیثیت کا بھی حامل ہے۔لیکن ہمیں عالمی معاملات میں احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔افغانستان کا معاملہ بھی ہمارے لیے ایک امتحان بنا ہوا ہے اور یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ امریکہ افغان طالبان کے ساتھ کئی برس تک مذاکرات کرتا رہا ،اور ان طویل مذاکرات کے بعد ایک اسلحے سے لدا ہوا افغانستان طالبان کے حوالے کیا گیا اور یہ میرے نزدیک کو ئی بھی اتفاق یا حادثہ نہیں تھا جو کہ یہ ہوا بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی کہ ایسا ہوا اور اب ہمیں افغانستان کے ساتھ معاملات میں بھی نہایت ہی احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ اس برصغیر میں اور وسیع تر خطے میں طالبان کی ذمہ داری امریکی مفادات کو آگے بڑھانا ہو گی اور امریکہ کی مخالف قوتوں جن میں چین بھی شامل ہے ان کے مفادات کو زک پہچانے کی ہو گی جو کہ وہ کررہے بھی رہے ہیں اور چینی شہریوں پر حملے اس کی واضح مثال ہیں۔عالمی طاقتیں یقینی طور پر کسی بھی صورت میں یہ نہیں چاہیں گی کہ یہ خطہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے یا پھر اس خطے میں ان کی موجودگی ہی نہ ہو اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے یہ قوتیں کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جائیں گی۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ عالمی سطح پر سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری ہے اور ہمیں اس کھیل میں بہت احتیاط کے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔مجھے یہ خیال بہت عرصے سے آرہا تھا لیکن آج کے حالات میری خود میری اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ایسا ہی ہو رہا ہے ایک جانب طالبان کی جانب سے چین پر حملے ہو رہے ہیں ،دوسری جانب طالبان کا رویہ اور تیسری جانب امریکہ کی جانب سے پاکستان سے 3سال کے بعد رابطہ اس بات کی گواہی ہے کہ امریکہ اس خطے سے چین کو آوٹ کرکے خود ان ہونا چاہ رہا ہے اور پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کرناچاہ رہا ہے چین سے تعلقات میں خرابی اور افغان حکومت کے ساتھ بھی پاکستان کے معاملات نہ ہونے دینا سب امریکی ایجنڈے کا ہی حصہ لگتا ہے ،خطے میں ایک نئی گریٹ گیم کی بو شدت سے محسوس ہو رہی ہے اور لگتا ایسا ہے کہ پاکستان کی کمزور معاشی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو ایک مرتبہ پھر مغربی بلاک کا حصہ بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔بہر حال چین سے تعلقات کو مضبوط رکھا جائے اور ان کو اس خطے میں کردار ادا کرنے دیا جائے ،امریکہ سے تعلقات رسمی سطح پر رکھے جائیں اور چین کے فائدے کے ساتھ ساتھ اپنے فوائد حاصل کیے جائیں ،چین یقینا کبھی نہیں چاہے گا کہ یہ خطے جو کہ اس کا پروس بھی ہے وہ کسی بھی طرح سے بد امنی کا شکار ہو ،لیکن دوسری جانب موجود طاقتوں کے مفادات میں اس خطے کا امن تو شاید ترجیحات میں شامل نہ ہو۔امریکہ کا بھی اس خطے میں مفاد ہندوستان کے ساتھ جڑا ہو ا ہے اور امریکہ کی یہی کوشش ہے کہ ہندوستان کو اپنے مفادات اور خاص طور پر چین کے خلاف استعمال کیا جائے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کی معیشت جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور جس سائز اور آبادی کا ملک ہندوستان ہے اس کو امریکہ کے لیے بھی اپنی مرضی سے چلانا کوئی آسان کام نہیں ہو گا اور ابھی سے اس حوالے سے ہمیں ایک جھلک دیکھائی دے رہی ہے کہ ہندوستان نے حالیہ برسوں میں نہ صرف روس اور یوکرین کی جنگ میں روس کی مذمت کرنے سے انکار کیا اور مغرب کا کھل کر ساتھ نہیں دیا اور اسی طرح سے ایران کے ساتھ بھی تیل کی خرید و فروخت مغربی طاقتوں کی منشا کے خلاف جاری رکھی گئی ہے اور چین کے ساتھ بھی ہندوستان کے وسیع تجارتی تعلقات ہیں ،مستقبل میں شاید ہندوستان کو اپنی معاشی مضبوطی کی بنا پر امریکہ کی ضرورت نہ رہے لیکن پاکستان کو بہر حال سوچنا پڑے گا کہ اگر خطے میں رہنا ہے تو پھر ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنا ہو ں گے۔اس کے بغیر کام نہیں چلے گا اور اس کے سوا اور کوئی چار ہ بھی نہیں ہے۔ایران کے ساتھ بہتر تعلقات ہمارے مفاد میں ہیں ایران سے حاصل ہونی والی سستی توانائی ہماری صنعتوں اور ہماری معیشت کو ایک نئی لائف لائن مہیا کرسکتی ہے۔ہمیں اپنی ترقی کے لیے ایران ،افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ بہتر انداز میں آگے چلنا ہو گا اور کہیں سے بھی کو ئی سازشی تحریک شروع ہو گی تو وہ خود بخود دم توڑ جائے گی کیونکہ یہ ممالک ساتھ ہوں گے اور ایک حقیقی انداز سے یہ خطہ آگے بڑھ سکے گا۔خارجہ پالیسی امریکی خواہشات پر نہیں بلکہ اپنی ضروریات کے حساب سے تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔عالمی امن اور سکون کا دارومدار باہمی تجارت پر ہی ہے اور کسی چیز پر نہیں ،اور تجارت خطوں کے درمیان سب سے زیادہ موثر ہو تی ہے۔اگر ہم اپنے خطے میں تجارت کو موثر بنا لیں تو ہی ہم معاشی طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔