یہ بیس فروری 2022ءکی بات ہے۔ اس دن راقم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس دن کو پاکستان کے عدالتی نظام کی تاریخ سنہرے دن کے نام سے پکارے یا اسے روشنی کی پہلی کرن قرار دے۔ جب ٹھیک چار ماہ اور دس دن کی عدالتی کارروائی کے بعد اسلام آباد کی سیشن عدالت نے نور مقدم کیس کو اپنے انجام کی پہلی سیڑھی پر پہنچاتے ہوئے کیس کے مرکزی ملزم کو سزائے موت سنائی اور معاملے کو مزید پیشرفت کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف بھیج دیا۔
بلاشبہ اس دن مجھ سمیت اس وطن کا ہر ذمہ دار شہری اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کر رہا تھا لیکن نہ جانے کیوں انہی لمحات میرا لاشعور مجھے اس دور کی یادوں کے دشت نوردی کی طرف لے جا رہا تھا جب دسمبر 2012ءمیں بھی اس سے ملتا جلتا ایک کیس ہوا تھا جس میں ایک حاضر سروس ڈی ایس پی اورنگ زیب خان کا بیٹا شاہ زیب ایک امیر زادے شاہ رخ جتوئی اور اسکے دیگر ساتھیوں سراج تالپور، سجاد تالپور اور مرتضی لاشاری کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔ اس کیس کے متعلق بند کواڑ کھولیں تو پتا چلتا ہے کہ جسطرح نور مقدم کے قتل پر سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی کی طرف سے وسیع پیمانے پر " جسٹس فار نور مقدم کمپئین" چلی اسی شدت کے ساتھ اس وقت " جسٹس فار شاہ زیب کمپئین" بھی چلی تھی جسکے زور پر نور مقدم قتل کیس کے فیصلے کی طرح ا±س وقت انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قتل کے وقوعہ کے ٹھیک ساڑھے پانچ ماہ بعد 2013ء میں شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو بھی اسی طرح موت کی سزا سنائی تھی لیکن پھر اس وطن میں بسنے والے ہر شہری کی جاگتی آنکھوں نے اندھے قانون کی ان موشگافیوں کی وہ کرامات بھی دیکھیں کہ پہلے کس طرح دہشتگردی کی دفعات اس کیس سے خارج ہوئیں اور پھر یہ کیس کس طرح دیت اور قصاص کے قانون کی دبیز تہوں میں لپٹتا ان امیر زادوں کی رہائی پر اختتام پذیر ہوا۔
جس دن نور مقدم کیس کا فیصلہ آیا تو نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے یہ الفاظ “ہمارا سب سے بڑا مطالبہ یہی تھا کہ قاتل کو انجام تک پہنچایا جائے اور سزائے موت ہو جو آج پورا ہو گیا اور آج عدالت کا انصاف انکے اس اطمینان کیلئے کافی ہے کہ اس فیصلہ سے اس قوم کی دیگر بیٹیوں کا مستقبل محفوظ ہو جائیگا” سن کر مجھے ایسا لگا کہ یہ الفاظ ا±س بیان کی ہو بہو وہی سٹریو ریکارڈنگ ہے جو شاہ زیب قتل کیس میں شاہ رخ جتوئی کی موت کی سزا پر شاہ زیب کی والدہ عنبرین اورنگ زیب نے کہے تھے کہ " ہم اس سزا سے اس لیئے مطمئن ہیں کیونکہ ہم قوم کے بچوں کے تحفظ کیلیئے کھڑے ہوئے تھے تاکہ پھر کسی امیر والد کا بیٹا ایسی حرکت نہ کر سکے۔" لیکن اسے وقت کا جبر کہیں یا مصلحتوں کا گورکھ دھندہ کہ بچوں کے تحفظ کیلیئے کھڑی ہونے کی دعویدار نے پھر کس طرح اپنے خاوند کے ساتھ ملکر اسی امیر زادے کی رہائی کی راہ ہموار یہ سوچے بغیر کی کہ انکا یہ فعل کس طرح آئندہ کی نسلوں کی تربیت پر اثر انداز ہو گا۔ کس دل سے عدالت میں صلح نامہ داخل کیا۔
اہل فکر کہتے ہیں کہ وسوسے اور خدشات ایسے ہی جنم نہیں لیتے۔ انکے پیچھے بھی ایک مِتھ ہوتی ہے۔ پچھلے ہفتے کی بات ہے پرنٹ میڈیا سمیت الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ بازگشت بڑے زور و شور سے س±نی گئی کہ اڈیالہ جیل میں امریکن ایمبیسی کے کچھ آفیشلز نے نور مقدم کیس کے مرکزی سزا یافتہ مجرم ظاہر جعفر سے قونصلر رسائی کے قانون کی سہولت سے فائدہ ا±ٹھاتے ایک ملاقات کی ہے۔ اس خبر پر سب سے پہلے جس بات پر دل گرفتہ ہوا وہ یہ تھی کہ وہ امریکہ جسکے آفیشل یہ قونصلر رسائی کے قانون کے تحت ملاقات کر رہے تھے۔ اسی امریکہ میں ایک خاتون عافیہ صدیقی بھی مقید ہے، اسے کتنی بار اس قونصلر رسائی کا حق دیا گیا ہے۔ دوئم جس بات پر ماتم زنی کو دل چاہا وہ ہمارے عدالتی نظام کی برہنگی تھی۔ غور کریں ایک قتل کا کیس جسکا ٹرائل صرف چار ماہ اور دس دن لیتا ہے جس میں ملزم پر فرد جرم بھی عائد ہوتی ہے گواہان کے بیان بھی ریکارڈ ہوتے ہیں اور ان پر جرح بھی ہوتی ہے وکلاءصفائی اور استغاثہ اپنے اپنے دلائل بھی دیتے ہیں اور پھر سزا کا فیصلہ بھی آ جاتا ہے لیکن ایک ایسا کیس جس میں نہ صرف ایک انسانی جان کا بیہمانہ قتل ہوا ہے بلکہ اس میں سزا یافتہ مجرم کی سزا پر عملدرآمد یقیناً معاشرے میں ایک ایسی سمت کے تعین میں کلیدی کردار کا حامل ہو گا جہاں پھر ایسا گھناونا فعل سرزد نہ ہو سکے گا، اس کی اپیل کی سماعت کو دو سال اور دو ماہ کا عرصہ گذرنے کے باوجود سماعت کی سولی پر لٹکائے رکھا جاتا ہے۔ گھن آتی ہے اس نظام پر جہاں سیاسی کیسوں اور کرپشن کے کیسوں میں تو سماعت ایک ایک دن میں اور سزا اور بریت کے فیصلے گھنٹوں میں ہوتے ہیں وہاں اس جیسے کیس صرف اسلیئے سالہا سال قابل شنوائی نہیں ہوتے کہ انکی حساسیت وقت کے ساتھ لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو جائے اور پھر ایسے کیسوں میں سزا یافتہ مجرموں کو اپنی ترجیحات کے تحت بری کر دیا جائے۔
راقم سمجھتا ہے اسکی یہ تحریر وقت کے فرعونوں کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے گی لیکن بقول اپنے مرشد جناب مجید نظامی کے، حق کی بات کی دستک دیتے رہو۔ یہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اہل فکر کہتے ہیں جن معاشروں میں اس ایک فقرہ کی بازگشت س±نائی دیتی رہتی ہے وہاں انصاف ضرور قائم ہوتا ہے۔ اگر اہل دانش کی یہ بات سچ ہے تو آئیں اس میں ہم بھی اپنا حصہ ڈالیں۔