”حکمت عملی“ اور ”حربہ“

کسی بھی ملک میں پیشہ ورانہ استعداد کی حامل فوج جب بھی کوئی نیا ہتھیار عالمی اسلحہ ساز اداروں سے خرید کرتی ہے تو یہ بات اس کے پیش نظر ضرور ہوتی ہے کہ ان کا دشمن ملک اپنی فوج کو کس طرح کے ہتھیاروں سے لیس کررہا ہے یا کس نوعیت کے ہتھیار ان کے زیر استعمال ہیں۔ ہر ایک ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے ہتھیار دشمن کو چونکا دیں۔ انہیں پریشان کر دیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی افواج میں جدید سے جدید ہتھیاروں کے حصول کے لیے دوڑ لگی رہتی ہے۔ جس کا زیادہ فائدہ وہ عالمی ساہوکار قوتیں اٹھاتی ہیں جو اپنے ہتھیاروں کی استعداد میں اضافہ کی جستجو میں رہتی ہیں اور پھر ضرورت مندملکوں سے من مانی قیمت وصول کرتی ہیں۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ ان ہتھیاروں کی عملاً آزمائش کا ہوتا ہے تاکہ ہتھیاروں کی اہمیت یا دھاک ثابت ہوسکے۔ لیکن اس کے لیے جنگ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس جنگ میں وہی فوج فتح حاصل کرتی ہے جو اپنے ہتھیاروں کو بہتر حکمت عملی اور حربے کے ساتھ استعمال کرسکے۔ تاہم اس کامیابی کی بنیادی شرط یہی ہے کہ دشمن ملک اپنے خلاف استعمال کیے گئے ہتھیاروں کی استعداد سے لاعلم ہو اور بروئے کار لائی گئی حکمت عملی و حربوں کاتوڑ کرنے میں ناکام رہے۔ 
اس صورتحال کو دوسرے زوایے سے دیکھیں تو 26 فروری 2019 ءکو جب انڈین ایئر فورس کے طیاروں کی طرف سے آزاد کشمیر کے ویران پہاڑوں پر چار عدد بم گرائے جانے پر بھارت سرکار نے اپنے عوام کے سامنے شادیانے بجائے تو پاکستان ایئر فورس نے دوسرے روز 27فروری کو بھارت کو حیران کردینے اور سبق سکھانے کے لئے Strategy (حکمت عملی) اور Tactics (حربے) کے امتزاج سے بھارت کو اس حد تک حواس باختہ کردیا کہ پاکستان ایئر فورس کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر انڈین ایئر فورس کے دوعدد مگ 21 طیارے لائن آف کنٹرول کو عبور کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں آگھسے اور پاکستان ایئرفورس کے زیراستعمال پاکستانی ساختہ جے ایف 17 تھنڈر طیاروں کے ہاتھوں تباہ ہوگئے۔ ایک طیارہ آزاد کشمیر میں گرا اس کا ہوا باز ابھی نندن زمین پر عوام کے ہاتھوں ناک تڑوا کر جنگی قیدی بنا لیا گیا جبکہ بھارت کا دوسرا طیارہ اپنی ا±ڑان کی قوت اور رفتارکے بل بوتے پر لائن آف کنٹرول کے پار مقبوضہ کشمیر میں جاگرا۔ اس دوسرے بھارتی طیارے کے ہوا باز کا کیاانجام ہوا؟ بھارت آج تک اس پر خاموش ہے۔ بھارت کی بدحواسی کی اصل وجہ پاکستان ایئر فورس کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی 6 اہم تنصیبات کے قریب گرائے جانے والے گائیڈڈ راکٹ تھے۔ ان میں سے ایک ہدف ایسا تھا جہاں بھارتی فوج کا انتہائی اہم اعلیٰ افسر موجود تھا جو وہاں خفیہ دورے پر انڈین ایئر فورس کی بالا کوٹ میں کارروائی کے ردعمل میں پاکستان کی طرف سے اپنی مرضی کے مطابق وقت اور اہداف کا تعین کرنے کے حوالے سے دیئے گئے جواب کے بعد مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج کی تیاریوں کا جائزہ لینے کیلئے وہاں فوج کے دیگر اعلیٰ افسران کے ساتھ میٹنگ میں مصروف تھا۔ پاکستان کے اس حیران کردینے والے جواب نے بھارت اور بھارتی افواج کی دھاک جھاگ کی طرح بٹھا دی۔انڈین ایئرفورس کی پریشانی کا یہ عالم تھاکہ پٹھان کوٹ ایئر بیس سے انڈین ایئر فورس کے 6 افسران اور ملٹری انٹیلی جنس کے ایک بریگیڈیئر کو لے کرسری نگر کی طرف پرواز کرنے والے انڈین آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹر کو انڈین ایئر فورس نے ریڈار پر پاکستانی طیارہ سمجھتے ہوئے مار گرایااور بھارتی میڈیا سے چھپا لیاگیا کہ ہیلی کاپٹر میں سوار مارے گئے مسافر کون تھے یا ان کی شناخت کیا تھی۔
اب آتے ہیں ایران کی طرف سے اسرائیل کے خلاف کی گئی حالیہ جوابی کارروائی کی طرف جس پر مختلف طرز کے تبصرے جاری ہیں اور بعض تبصروں میں مسلکی اختلافات کا غیر مناسب رنگ بھی شامل ہے۔اسرائیل کیخلاف ایران کے جوابی حملے کو ایران ، اسرائیل اور امریکہ کے مابین گٹھ جوڑ قراردینے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ ایران نے Strategy اور Tactics کو ملاکر استعمال کرتے ہوئے امریکہ و اسرائیل کے اس پورے دفاعی ٹیکنالوجی پرمبنی جدیدنظام کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ غور کیجئے کہ شام میں اپنے قونصل خانے پراسرائیلی حملے اور اس میں پاسداران انقلاب کے ڈپٹی کمانڈر سمیت 8فوجی افسران کی شہادت کے بعد جب ایران نے جلد اسرائیل کو جواب دینے کا اعلان کیا اور امریکہ کو بھی باور کرادیا کہ اگر وہ اسرائیل کی مدد کو آیا تو نتائج کا خود ذمہ دار ہوگا۔ اس وقت سے واشنگٹن سے لندن اور وہاں سے تل ابیب تک دوڑیں لگی ہوئی تھیں۔ 7اکتوبر سے غزہ میں35 ہزار سے زیادہ معصوم اور نہتے فلسطینیوں کو تسلسل کے ساتھ شہید کرنے کے بعد دنیا بھر سے ملنے والی لعنتوں اور نفرتوں کو دیکھتے ہوئے اسرائیل نے شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ ہی اس لیے کیا تھا کہ ایران اپنے جدید ہتھیاروں کے ساتھ جوابی کارروائی کر ے تاکہ وہ امریکہ کو اس جنگ میں کھینچ سکے۔ لیکن کمال مہارت سے ایران نے ہر صورت جوابی حملہ کرنے کے دوٹوک پیغام کے بعد اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی اس وقت تک نیندیں حرام کیئے رکھیں جب تک کہ حملہ کرنہیں دیا گیا۔ اسرائیل پر حملے کیلئے ایران نے وہی ڈرون طیارے اور میزائل استعمال کیے، اسرائیل اور امریکہ جن کی بارے میں مکمل معلومات رکھتے تھے۔
ایران جوابی کارروائی کیلئے ایسا ماحول بناچکا تھا کہ جس کے زیراثرجب حملے کا وقت آیا تو امریکہ و برطانیہ اور فرانس اسرائیل کو بچانے کیلئے اپنے جدید خفیہ دفاعی نظام کے ساتھ خطے میں موجود تھے۔ اسرائیل کا مکمل دفاعی نظام کہاں کہاں نصب تھا اس کے علاوہ اسرائیل کے گرد دیگر علاقوں میں امریکہ و برطانیہ کس طرح کے دفاعی نظام کو ایرانی ڈرون طیاروں اور میزائلوں کو گرانے کیلئے بروئے کار لارہے تھے یہ سارا کچھ ایران کے ان انجینئر وں اور سائنسدانوں کے سامنے آگیا جو دنیا بھر میں Reverse Enginering کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ بڑی طاقتیں اس طرح کے جدید خفیہ دفاعی نظام کو اپنی انتہائی نوعیت کی جنگوں کیلئے چھپا کررکھتے ہیں تاکہ جب وہ استعمال میں آئیں تو دشمن کے پاس اس کا توڑ تیار کرنے کیلئے وقت نہ ہو۔جبکہ ایران کی اسرائیل کے خلاف کارروائی طویل جنگ کیلئے ہرگز نہ تھی۔ ایران اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھا کہ اگر جنگ طویل ہوئی تو یہ روس و یوکرائن کے مابین جنگ سے مختلف اور انتہائی تباہ کن ہوگی جو بڑی عالمی جنگ میں تبدیل ہوکر بہت سے ملکوں کی تباہی کا سبب بن سکتی تھی۔
 ایران اپنی کمال جنگی حکمت عملی کے ذریعے اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکہ و برطانیہ کوجھانسہ دینے میں کامیاب رہا کہ ایران اپنے جدید ہتھیاروں کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ براہ راست ایسی جنگ میں کودنے جارہا ہے جو جلد ختم ہونے والی نہیں۔ انہیں بعد میں سمجھ آئی ہوگی کہ ایران نے اپنے وہی پرانے ڈرون اور میزائل استعمال کرتے ہوئے اسرائیل و امریکہ اور برطانیہ کے اس پورے جنگی نظام کی قلعی کھول دی، روس و چین عرصہ دراز سے جس کی تاک میں تھے۔اب یہ کہناکہ ایران کی طرف سے کئے گئے حملے میں اسرائیل کا کسی طرح جانی و مالی نقصان نہیں ہوا تو کچھ وقت گزرنے کے بعد بہت سے حقائق سامنے آجائیں گے تب اسرائیل کواحساس ہوگا کہ اس نے شام میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کی کتنی بھاری قیمت ادا کی ہے۔

ای پیپر دی نیشن