صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ تمام صوبوں کے ساتھ قانون کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ ہمیں اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے جامع ترقی کی راہیں کھولنا ہونگی۔ تفریق سے ہٹ کر عصر حاصر کی سیاست کی طرف بڑھنا ہوگا جو ملکی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے توقع کا اظہار کیا کہ ارکان پارلیمنٹ اختیارات کا دانشمندی سے استعمال کرینگے۔ انکے بقول ہمیں اس ایوان کے ذریعے قوم کی پائیدار اور بلاتعطل ترقی کی راہ ہموار کرنی ہے۔ ملک کو دانشمندی اور پختگی کی ضرورت ہے۔ صدر مملکت نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج ایک نئے باب کے آغاز کا وقت ہے۔ آج کے دن کو نئی شروعات کے طور پر دیکھیں۔ محاذآرائی سے ہٹ کر عصر حاصر کی سیاست کی طرف بڑھنا ملک کی ضرورت ہے۔ ہم حقیقی طور پر کوشش کریں تو سیاسی درجہ حرارت میں کمی لاسکتے ہیں۔ قائدین کے ویژن کے مطابق باہمی احترام اور سیاسی مفاہمت کی فضا کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ ملکی مسائل کے حل کیلئے بامعنی مذاکرات اور پارلیمانی اتفاق رائے درکار ہے۔ اس ایوان کو پارلیمانی عمل پر عوامی اعتماد بحال کرنے کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔
صدر مملکت کے بقول تعمیری اختلاف اور پھلتی پھلتی جمہوریت کے مفید شعور کو نفع نقصان کی سوچ کے ساتھ نہیں الجھانا چاہیے۔ ہمیں بنیادی مسائل کے حل کیلئے کڑی اصلاحات پر بروقت عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔ ملک کو 21ویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ شہریوں کے بنیادی سماجی حقوق اور گڈگورننس کیلئے اصلاحات کو فروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا ک ہمیں اپنی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر فخر ہے۔ دہشت گرد عناصر کے خاتمے کیلئے وہ قوم کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ملک اور خطے کو درپیش مالی‘ اقتصادی‘ موسمیاتی‘ ماحولیاتی اور دہشت گردی کے چیلنجز کا بھی مفصل احاطہ کیا اور کشمیر و فلسطین کے حل طلب دیرینہ مسائل کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کے قتل عام پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ان دیرینہ مسائل کا حل ہی جنوبی ایشیاءمیں پائیدار امن کی کلید ہے۔ انہوں نے مشکل وقت میں ساتھ دینے پر دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ چین‘ ترکیہ اور قطر کا شکریہ ادا کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تکمیل سمیت مشترکہ اہداف کے فروغ کیلئے چین کے ساتھ کام کرتے رہیں گے۔
بے شک آئین پاکستان میں صدر مملکت کو وفاق کی علامت قرار دیا گیا ہے اور اسکی بنیاد پر صدر مملکت کو سیاسی ترجیحات اور کسی رغبت و رعایت سے بالاتر ہو کر وفاق اور اسکی اکائیوں کے باہمی ربط کو مضبوط بنانے کا آئینی کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں صدر مملکت پر کسی سیاسی وابستگی کا لیبل نہ لگنے دینے کی پابندی ہے چنانچہ اس منصب پر فائز ہونے سے پہلے صدر مملکت کو اپنی سیاسی جماعت کی رکنیت اور اسی طرح پارلیمنٹ کی رکنیت سمیت ہر منفعت بخش عہدے کو خیرباد کہنا ہوتا ہے۔ صدر مملکت کی حیثیت بنیادی طور پر مصلح کی ہوتی ہے جسے سسٹم اور حکومتی گورننس میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرکے وفاقی‘ صوبائی حکومتوں، ریاستی اداروں اور انتظامی مشینری کو اصلاح احوال کی جانب راغب کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح وفاق کے نمائندہ کے طور پر صدر مملکت نے آئین کے تقاضوں کے مطابق سسٹم کے فروغ و استحکام کیلئے اپنا تعمیری کردار ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے صدر مملکت نے ملک کی سلامتی و دفاع کیلئے مسلح افواج اور دوسرے سکیورٹی اداروں میں باہمی ربط برقرار رکھنے اور افواج پاکستان پر قوم کا اعتماد قائم رکھنے کی ذمہ داری سے بھی عہدہ برا ہونا ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کا منظور کردہ کوئی بھی قانون یا آئینی ترمیم صدر مملکت کے دستخطوں کے ساتھ ہی نافذالعمل ہوتی ہے جبکہ صدر مملکت نے اہم مناصب پر تقرر اور قومی اسمبلی کی تحلیل سمیت اپنی آئینی ذمہ داریاں وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی مشاورت سے ادا کرنا ہوتی ہیں۔ اگر یہ ذمہ داریاں بعینہ سرانجام پائیں تو وفاق اور اسکی اکائیوں کے مابین بھی باہمی ربط برقرار رہے اور کسی قسم کے سیاسی عدم استحکام کا راستہ کھولنے کی بھی کبھی گنجائش پیدا نہ ہو۔
اس تناظر میں اگر گزشتہ ساڑھے پانچ سال تک کے صدر مملکت کے منصب پر سرانجام پانے والے فرائض کا جائزہ لیا جائے تو بدقسمتی سے اس پورے عرصہ میں صدر مملکت کے منصب کی بے توقیری کی فضا استوار ہوئی ہی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے صدر مملکت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد اگرچہ اپنی قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑنے اور اپنی پارٹی ٹی پی آئی کے منصب سے الگ ہونے کا اعلان کیا مگر وہ اپنے پورے عرصہ صدارت میں عملاً نہ صرف خود پارٹی کے ٹائیگر کا کردار ادا کرتے رہے بلکہ انہوں نے ایوان صدر کو بھی پارٹی آفس میں تبدیل کردیا جہاں پارٹی کے اجلاس ہوتے اور قومی سیاست میں ہلچل مچائے رکھنے اور اسی طرح حکومتی مخالفین کو دیوار سے لگانے کے فیصلے بھی کئے جاتے رہے۔ اسی طرح ملک میں متعدد ایشوز پر آئینی بحران پیدا کرنے میں بھی صدر علوی کا کردار رہا جو ایوان صدر سے نکل کر اپنے پارٹی قائد کی نجی اقامت گاہ پر جا کر انکے ساتھ سیاسی مشاورت کے عمل میں شریک ہوتے رہے۔ اس طرح وفاق کی علامت اس منصب کو سیاسی بازار میں بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی اور ایوان صدر میں سسٹم کے خلاف سازشوں کا یہ سلسلہ ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے صدر مملکت کا منصب چھوڑنے تک جاری رہا۔ اس بنیاد پر ہماری سیاسی تاریخ میں ایوان صدر کا ساڑھے پانچ سال کا یہ دور یقیناً سیاہ باب کا حصہ بنا رہے گا۔
موجودہ صدر مملکت آصف علی زرداری بلاشبہ ایک زیرک اور مدبر سیاست دان بھی ہیں جو ملک کی ایک بڑی پارٹی کے پارلیمانی ونگ کے چیئرمین اور سیاسی ونگ کے شریک چیئرمین رہے ہیں۔ انہیں صدر مملکت کے منصب کے آئینی تقاضوں اور ذمہ داریوں کا بخوبی احساس و ادراک ہے چنانچہ اس منصب پر دوسری بار منتخب ہونے کے بعد وہ ماضی کے تجربات بھی شامل حال رکھیں گے۔ اسی تناظر میں انہوں نے پارلیمنٹ سے اپنے پہلے خطاب میں منافرت کی فضا میں الجھی قومی سیاست میں قومی تفکر‘ معاملہ فہمی‘ قومی ڈائیلاگ اور قومی مفاہمت کو بروئے کار لانے پر زور دیا اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم ظاہر کیا۔ قومی افہام و تفہیم کا یہ جذبہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں عنقا رہا بلکہ اس پارٹی کی قیادت سیاسی ٹکراﺅ‘ بلیم گیم‘ انتشار و افراتفری اور اپنے سیاسی یا ذاتی مخالفین کو کسی صورت قبول نہ کرنے کی پالیسی پر آج بھی کاربند ہے اور اسے مزید آگے بڑھا رہی ہے جس کا عملی نمونہ اس پارٹی کی حمایت کے ساتھ منتخب ہونیوالے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے گزشتہ روز صدر مملکت کے خطاب کے دوران ایوان کے اندر بدترین ہلڑبازی‘ ہنگامہ آرائی اور عامیانہ الزام تراشی کی فضا گرما کر پیش کیا گیا۔ اگر اپوزیشن کی جانب سے یہی چلن اختیار کیا جاتا رہا تو اس کا ملبہ سسٹم پر ہی گرے گا اس لئے صدر ممکت کے خطاب میں دیئے گئے مشورے کے مطابق قومی سیاست میں قومی ڈائیلاگ اور قومی افہام و تفہیم کے راستے کھول کر ہی سسٹم کو عوام کیلئے قابل قبول بنایا جا سکتا ہے۔