محسن نقوی پی سی بی میں سیاسی تقرریوں کے مخالف ؟؟؟

اس وقت پاکستان کے دو شہروں میں انٹرنیشنل کرکٹ ہو رہی ہے۔ کراچی میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ویمن ٹیمیں آمنے سامنے ہیں جب کہ راولپنڈی میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کی مینز ٹیمیں مدمقابل ہیں۔ تین ٹونٹی ٹونٹی میچوں کے پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں لاہور میں دو ٹونٹی ٹونٹی میچز کھیلیں گی۔ اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ جہاں ایک طرف اس کرکٹ پر بات چیت ہو رہی ہے وہیں دوسری طرف پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی اپنے فیصلوں کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں۔ ایک طرف تو انہوں نے ایک ہی وقت میں کئی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں ان حالات میں کسی ایک دفتر کو بھی مکمل اور بھرپور وقت دینا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی سی بی میں ان کے فیصلوں کی وجہ سے کرکٹ کے حلقوں میں انہیں تنقید کا سامنا ہے۔ گذشتہ دنوں یہ بھی سنا گیا کہ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں سیاسی تقرریوں کے خلاف ہیں اور اس حوالے سے انہوں نے رپورٹ طلب کی ہے۔ یہ سوچ مضحکہ خیز ہے کیونکہ وہ خود ایک سیاسی پس منظر کی وجہ سے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے ہیں، وہ بیک وقت ایک سے زیادہ عہدوں پر موجود ہیں، ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کا تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، وہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے نگراں وزیر اعلٰی بھی رہے ہیں وہ اس وقت بھی ملک کے وزیر داخلہ ہیں۔ ان حالات میں محسن نقوی کو غیر سیاسی کیسے کہا جا سکتا ہے۔ ایسے اقدامات سے میڈیا میں جگہ مل سکتی ہے، سیاسی مخالفین کو بھڑکایا جا سکتا ہے، پہلے سے موجود افراد کو فارغ کر کے نئے سیاسی افراد کے لیے جگہ تو بنائی جا سکتی ہے لیکن ایسے فیصلوں سے کھیل کا کوئی فائدہ ہو یہ ذرا مشکل ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ ان کے سامنے سیاسی بھرتیوں کی رپورٹ پیش کرنے والے ایک الگ فائل میں الگے سے اپنے چیئرمین کا نام بھی لکھ کر ملک کے وزیر داخلہ کے سامنے پیش کریں کہ وہ اس سیاسی تقرری کے حوالے سے کوئی فیصلہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ محسن نقوی نے سربراہ کے بغیر سلیکشن کمیٹی قائم کی ہے۔ یہ بھی اپنی طرز کا انوکھا فیصلہ ہے۔ یعنی بورڈ میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ کسی کو سلیکشن کمیٹی کا سربراہ ہی مقرر کر سکے۔ ویسے تو کرکٹ کے حلقوں میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ غیر اعلانیہ طور پر وہاب ریاض ہی چیف سلیکٹر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں قوم ٹیم کا سینئر مینجر بھی مقرر کیا گیا ہے۔ یہ بھی سنا جاتا ہے کہ وہاب ریاض ٹیم ڈائریکٹر بننا چاہتے تھے لیکن انہیں یہ عہدہ دینے کے بجائے ٹیم کے سینئر مینجر کا عہدہ دے کر وہی کام لیا جائے گا جو ٹیم ڈائریکٹر کی حیثیت سے مکی آرتھر یا پھر محمد حفیظ کر رہے تھے۔ ویسے محمد حفیظ نے بھی شاہین آفریدی کی جگہ بابر اعظم کو ون ڈے اور ٹونٹی ٹونٹی کا کپتان بنانے کی مخالفت کر دی ہے۔

ای پیپر دی نیشن