خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف نے تیسری مرتبہ حکومت بنائی ہے۔ دیگر صوبوں میں ایسا موقع تسلسل کے ساتھ کسی کو کم ہی نصیب ہوا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو کسی حد تک یہ آزادی ضرور ملی لیکن وہاں مختلف معاملات میں اپوزیشن کا کردار بہت مختلف رہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کو طاقت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اسے صوبائی حکومت میں ہر لحاظ سے دیگر جماعتوں پر برتری رہی ہے۔ مسلسل حکومت بنانا بہت اچھی بات ہے اور تسلسل سے ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا بہت اچھا موقع ملتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ صوبے کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے اور ترقی کے سفر کو تیز تر کرنے میں بھی تسلسل کا عمل دخل بہت ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی نے ہمیشہ تعلیم، صحت اور ماحولیات کے شعبوں پر بہت بات کی ہے لیکن کیا اس حوالے سے عملی اقدامات بھی اٹھائے ہیں یا نہیں یہ وہ پہلو ہے جو آج بھی سوالیہ نشان ہے کیونکہ بلین ٹری منصوبہ بھی متنازع ہو چکا، صحت کے حوالے سے بھی اطلاعات بہت اچھی نہیں ہیں لیکن جو تباہی تعلیم کے شعبے میں ہوئی ہے۔ اسے دیکھ کر تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مطلب اگر بلڈنگز کی دیکھ بھال ہی نہیں کی گئی تو کیا تعلیم ہو گی کیا تعلیم کا نظام ہو گا۔ مطلب آپ بیانات دیتے رہے، اخبارات میں جگہ حاصل کریں، ٹیلیویژن میں ایئر ٹائم لیں اور لوگوں تک سہولیات پہنچائیں یا نہ پہنچائیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ خیبر پختونخوا میں سکولوں کی حالت کے اعدادوشمار پڑھ کر بہت رنج ہوا ۔ مطلب کوئی اس حد تک بے رحمی کیسے کر سکتا ہے۔ بالخصوص ضلع خیبر میں حالات تشویشناک حد تک خراب ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ضلع خیبر میں ابھی تک دہشت گردی کے دوران تباہ ہونے والے پچاس سکولوں کی تعمیر نو ممکن نہ ہوسکی۔ یاد رہے کہ ان سکولوں میں لڑکیوں کے سکولوں کی تعداد زیادہ بتائی جاتی ہے۔ یہ چار درجن سے زائد تباہ حال سکول تحریک انصاف کے تعلیمی شعبے میں انقلاب برپا کرنے کے دعوؤں کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ ضلع خیبر میں دو ہزار چھ سے لے کر دو ہزار تیرہ تک پچاس تعلیمی ادارے بارودی مواد سے اڑا کر تباہ کر دئیے گئے۔ پرویز خٹک کے بعد محمود خان اور اب یہ پچاس سکول علی امین گنڈا پور کے منتظر ہیں۔ اگر صوبے کو وزیر اعلیٰ کو سیاسی بیانات دینے اور وفاق کو برا بھلا کہنے سے فرصت ملے تو ضلع خیبر کے ان پچاس سکولوں کا دورہ ضرور کریں۔ یا ضلع خیبر کو صوبے سے الگ کریں یا ان سے لاتعلقی کا اعلان کریں یا وہاں جا کر کام کریں۔ یہ یاد رہے کہ 2016 میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب فوجی آپریشن کے بعد صوبے میں مکمل طور پر امن بھی قائم ہوا اس کے باوجود ضلع خیبر میں تباہ ہونے والے چار درجن سے زائد سکولوں کی تعمیر نو نہ ہو سکی ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پچاس سکولوں کی تعمیر نو چین کے تعاون سے ہونا تھی لیکن صوبے میں تیز تر کام کرنے دعویداروں نے اتنی تیزی سے کام کیا کہ بلڈنگ میٹریل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور کام شروع ہی نہیں ہو سکا۔ ویسے یہ عذر سرکاری ہے اس کا واضح مطلب نالائقی و نااہلی ہی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دوست ملک کے تعاون سے کوئی کام ہونا تھا اور اس ملک نے تعاون نہ کیا ہو یہ تو واضح طور پر اندرونی ناکامی ہے۔طاہر خان آفریدی کے مطابق تباہ ہونے والے تعلیمی اداروں کو 5 سال قبل صوبائی حکومت نے چین کے تعاون سے تعمیر نو کی منظوری دی تاہم تعمیراتی کام بروقت شروع نہ کرنے سے مٹیریل کی قیمتیں بڑھ گئیں اور یوں تعمیرنو کا یہ عمل شروع نہ ہوسکا۔ یوں تعلیم دشمن عناصر کے ہاتھوں اور حکمرانوں کی غفلت کے باعث ضلع خیبر میں گذرے آٹھ دس برسوں میں ہزاروں طلبا تعلیم کے زیور سے محروم ہو رہے ہیں۔ بچے خیموں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، کتنے ہی بچے ہیں جو بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہوئے ہیں۔ ان ہزاروں بچوں کے تعلیمی مستقبل کو تباہ کرنے کا ذمہ دار کون ہے، کیا کوئی آگے بڑھ کر یہ ذمہ داری قبول کرے گا، کیا اس مجرمانہ غفلت پر کوئی عدالتی کمیشن نہیں بننا چاہیے، کیا قوم کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے محروم رکھنے والے سیاست دانوں اور سرکاری افسران کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ جو ہر روز پی ٹی آئی کی قیادت مختلف سیاسی معاملات میں عدالتی کمیشن کی رٹ لگاتی ہے اگر ان کی نظر اس طرف جائے تو اپنے دو وزرائے اعلی اور اس دور کے وزرائے تعلیم اور سرکاری افسران کا بھی احتساب کریں۔ اس معاملے میں بھی عدالتی کمیشن کا مطالبہ کریں۔
ایک خبر یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد سے کئی نمازیوں کے جوتے چوری ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد میں نماز جمعہ کیلئے ارکان اورا علیٰ افسران موجود تھے، اس دوران مسجد سے صحافیوں، ارکان اسمبلی اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے افسران کے بیس سے زائد جوتے غائب ہوئے ہیں۔ یہ خبر ہماری اخلاقی گراوٹ کی بدترین مثال ہے۔ یہ واقعہ نہیں سانحہ ہے اور فیصلہ سازوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ مطلب حالت یہ ہے کہ جوتا چور پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد تک پہنچ گئے ہیں۔ پارلیمنٹ کی مسجد تک چوروں کا جانا یا وہاں سے جوتے چوری ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ قوم کے منتخب نمائندے ملک و قوم کے اثاثوں کے محافظ ہیں اور ان کے اپنے جوتے ہی مسجد سے چوری ہو گئے ہیں۔ اس پر کیا لکھا جائے، کیا کہا جائے ، مطلب یہ خبر سننے کے بعد پہلے آپ ہنستے ہیں، پھر سنجیدہ ہوتے ہیں، پھر آپ مزید سوچتے ہیں اور پھر سر پیٹتے ہیں کہ آخر ملک میں کیا ہو رہا ہے، ہم کس حد تک گر گئے ہیں۔ بینک تو بینک سونے کی دکانیں بھی نہ چھوڑی ہم نے پارلیمنٹ کی مسجد سے جوتے چرا لیے ہم نے ایسے سانحات پارلیمنٹ میں بیٹھے افراد کے لیے ایک دھچکا ہے، یہ انہیں سوچنے کے لیے ایک موقع ہے، انہیں اپنی زندگیوں پر نظر ثانی کا موقع ہے۔ ایسے سانحات ہمیں جگانے کے لیے ہوتے ہیں کہ جاگ جائیں آنکھیں کھول لیں کہ جوتا چور پارلیمنٹ ہاؤس کی مسجد تک پہنچ چکے ہیں۔
آخر میں قتیل شفائی کا کلام
پریشاں رات ساری ہے ستارو تم تو سو جائو
سکوت مرگ طاری ہے ستارو تم تو سو جائو
ہنسو اور ہنستے ہنستے ڈوبتے جائو خلاؤں میں
ہمیں پہ رات بھاری ہے ستارو تم تو سو جائو
ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا
یہی قسمت ہماری ہے ستارو تم تو سو جائو
تمہیں کیا آج بھی کوئی اگر ملنے نہیں آیا
یہ بازی ہم نے ہاری ہے ستارو تم تو سو جائو
کہے جاتے ہو رو رو کر ہمارا حال دنیا سے
یہ کیسی رازداری ہے ستارو تم تو سو جائو
ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے
ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جائو
خیبر پختونخوا کے تباہ حال سکول اور جوتے چور پارلیمنٹ کی مسجد تک!!!!
Apr 20, 2024