آئی ایم ایف نئے قرض  پروگرام میں امرا کیلئے رعایات ختم کرنے کا مطالبہ کرے گا

Apr 20, 2024

اسلام آباد (عترت جعفری)مئی میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان  نئے قرضہ  پروگرام پر بات چیت ہو گی تو آئی ایم ایف کی شرائط میں امیر طبقہ کو مختلف ناموں کے ساتھ ملنے والی رعایات جن کو عرف عام میںٹیکس اخراجات اور ٹیکس مراعات، کے بے ضرر الفاظ میں چھپا دیا جاتا ہے واپس کر انے کا ایجنڈ آئی ایم ایف کی مطالبات کی سر فہرست ہو گا، انرجی ریفارمز ان کا دوسرا  بڑا مطالبہ ہوگا، رواں سال 24 میں ان رعایات اور مراعات کی لاگت 6 ہزار 800 ارب روپے سے بھی تجاوز ہو جائے گی، پاکستان آٗی ایم ایف کو نئے پروگرام کی درخواست پہلے ہی کر چکا ہے، پاکستان کو پروگرام طے کرنے کے لیے سنجیدہ مذاکرات کے لیے ٹیبل پر بیٹھنا ہے،  29اپریل تک کے بورڈ کیلنڈر میں پاکستان کانام شامل نہیں،تاہم پاکستانی وفدنے واشنگٹن میں بات چیت سے نئے پروگرام پر سنجیدہ  مذاکرت کے آغاز کوطے کر لیا ہے، واشنگٹن میں موجود پاکستانی وفد، اور اسلام آباد میں موجود ایسے امور پر نظر رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے نئے پروگرام کے لئے اب اصلاحات کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں ہے، جی ڈی پی کے تین فیصد کے مساوی ٹیکس اخراجات اور دیگر مراعات پر گزشتہ مالی سال میں 5900  ارب روپے کی لاگت آٗی تھی اور اس سال یہ چھ ہزار800 ارب وپے سے تجاوز کر جائیں گے،  اصلاحات نہ کی اور ملکی قرض کی موجودہ سطح برقرار رہی تو آٗی ایم ایف ورلڈ بینک اے ڈی بی اسلامی ترقیاتی بینک یا دوست ممالک سے زر مبادلہ کے حصول سے بس دو چار سال مذید گزار ے جا سکیں گے۔ مالی سال 22 کے اعداد و شمار کی بنیاد پر تازہ ترین رپورٹ  کے مطابق وفاقی سطح پر ٹیکس رعایتوں کی وجہ سے 2.24 ٹریلین روپے کا نقصان ہوا۔ جو جی ڈی پی کے 3.4 فیصد کے برابر تھا۔ صوبوں کی طرف سے مراعات کو تخمینے لگانا بھی آئی ایم ایف کا مطالبہ ہو گا ،ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان مراعات کو چار سال پہلے ہٹا دیا جاتا تو ہمارا مجموعی عوامی قرضہ 74.8 فیصد سے 12 فیصد کم ہوتا۔  یو این ڈی پی کی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ امیروں کو وسائل کی منتقلی نہ صرف ٹیکس مراعات کی وجہ سے ہوتی ہے، بلکہ جان بوجھ کر سیاسی اور اقتصادی مراعات بھی ہوتی ہیں۔ رپورٹ ملک کے سات طاقتور گروہوں کی نشاندہی کرتی ہے جنہیں مراعات حاصل ہیں ۔ جو ہمارے ملک میں عدم مساوات پیدا کرتے ہیں بلکہ اقتصادی ترقی اور صلاحیت کو بھی روکتے ہیں جن میں جاگیردار، کارپوریٹ سیکٹر، برآمد کنندگان، بڑے تاجر، اعلیٰ مالیت والے افراد،اسٹیبلشمنٹ اور ایس او ایز  شامل ہیں۔ امریکہ میں وزیر خزانہ اور گورنر سٹیٹ بینک کو کم و بیش ہر میٹنگ میں انہی امور کو جواب دیا پڑ رہے ہیں۔ یقین دلانا پر رہا ہے کہ حکومت اصلا حات میں سنجیدہ ہے۔

مزیدخبریں