جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس میں منعقد ہوا سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے حسب روایت اجلاس شروع ہوتے ہی قائد حزب اختلاف عمر ایوب کو بولنے کا موقع نہ دینے پر ہنگامہ آرائی شروع کردی اپوزیشن کے نعرے بازی میں وزیر اطلاعات عطاء نذیر تاررڑ نے سپیکر کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز صدر کے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران اپوزیشن کا کردار منفی رہااپوزیشن گزشتہ ادوار میں بھی احتجاج کرتی آئی ہیں لیکن گزشتہ روز کے اجلاس میں پارلیمنٹ کا تقدس پامال کیا گیا ایوان میں باجے بجائے گئے سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ مشترکہ اجلاس میں جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ کل کے واقعہ پر ایکشن لوں گا بعدازاں سپیکر قومی اسمبلی نے اپنی رولنگ میں قرار دیا کہ سنی اتحاد کونسل کے دو اراکین جمشید خان دستی اور اقبال احمد خان نے صدر کے خطاب کے دوران ایوان کی کاروائی میں خلل ڈالنے کی کوشش کی جس پر سپیکر نے ان رواں سیشن کے دوران ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت معطل کردی ہے اجلاس میں حکومتی بنچوں پر بیٹھی پاکستان پیپلزپارٹی نے اس وقت کاروائی کا علامتی بائیکاٹ کیا جب پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسبملی شرمیلا فاروقی کو سپیکر نے بولنے کا موقع نہ دیا پی پی کے اس علامتی واک آوٹ پر بلاول بھٹوبھی ایوان سے چلے گئے تاہم تھوڑی دیر بعد پیپلزپارٹی دوبارہ ایوان میں واپس آگئی وزیر قانون نے کہا کہ حکومت دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرے گی انہوں نے کہا کہ آئینی سربراہ کے خطاب کے دوران جو رویہ اختیا رکیا گیا وہ شرمناک تھا متحدہ قومی مومنٹ نے کراچی میں بگڑتی امن وامان کی صورتحال بارے ایوان کی توجہ مبذول کروائی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ چونکہ صدر آصف علی زرداری نے پارٹی صدارت سے تاحال استعفی نہیں دیا لہذا وہ یونیٹی آف ریپبلک کی نمائندگی نہیں کرسکتے ہم پھر بھی ان کے خطاب پر بات کرنا چاہتے ہیں سپیکر نے انہیں کہا کہ جب صدر کے خطاب پر ایوان بحث کرے گا تو آپ کو موقع دیا جائے گا ایوان کی کاروائی ابھی جاری تھی کہ سپیکر نے اجلاس پیر تک ملتوی کردیا