آج تک پیپلز پارٹی کا عظیم ترین المیہ ہی یہی رہا ہے کہ یہ جونہی اقتدار میں آتی ہے، تونہی اس بدنصیب کا ہاسا نکل جاتا ہے، اس جماعت کا یہ خاصا ہے کہ اس کی ہر ہر حکومت کے پاس کائنات کے مخولیہ ترین وزیروں کی فوج ظفر موج ہمہ وقت موجود ہوتی ہے، اور پھر وہ شخص تو مخولیہ ہونے کے حوالے سے شرطیہ میٹھا نکلتا ہے جو الیکشن تو آزاد حیثیت میں جیتا ہو مگر پھر وزارت ’’ودیگر مراعات‘‘ کے عوض پیپلز پارٹی میں جا شامل ہوا ہو، اس سلسلہ مذاقیہ کی آخری کڑی ہمارے بزرگ دوست سابق وزیراعلی پنجاب میاں منظور احمد وٹو ہیں کہ جنہوں نے اوکاڑہ سے دو ڈھائی نشستیں جیت کر زرداری صاحب کی خدمت اقدس میں پیش کر دیں اور اس کے عوض ایک وزارت قبول کرکے نئے سیاسی سفر کا آغاز کر دیا۔ تقریباً دس سال کی غیر حاضری کے بعد موصوف نے پہلی مرتبہ اقتدار کی شکل دیکھی اور غالباً دیکھتے ہی رہ گئے۔
وزارت مذکورہ چونکہ صنعت میں ’’پیداوار‘‘ ہے اس لئے اسلام آباد کی اکثر دیو مالائوں کا موضوع آج کل منظور وٹو صاحب ہی ہیں۔ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وٹو صاحب نے یہ وزارت مانگی ہی اسی لئے تھی کہ اس میں ’’پیداوار‘‘ کے امکانات بے حد روشن رہتے ہیں، وٹو صاحب کی جملہ بدنصیبیوں میں سرفہرست یہی ہے کہ آپ چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل رہے ہوں یا سپیکر پنجاب اسمبلی، وزیراعلی رہے ہوں یا وفاقی وزیر، ’’پیداوار‘‘ کے الزامات نے آپ کا تعاقب سائے کی طرح کیا ہے۔ خدا کرے کہ موصوف پر لگنے والے حالیہ الزامات بے جان ثابت ہوں مگر کہنے والے تو کھاد کی امپورٹ بارے ہی بہت کچھ کہتے چلے جا رہے ہیں اور کراچی کی بجائے گوادر مال منگوانے والے فیصلے اور پانچ سو روپے فی بوری اضافی قیمت کے مسلسل تذکرے کی بے ہودہ بازگشت ابھی جاری و ساری تھی کہ اب چینی بحران نے سر اٹھا لیا ہے۔
گزشتہ روز شوگر ملز مالکان کے ساتھ نہایت پراسرار سے حکومتی مذاکرات کے بعد چینی کی ’’ایکس ملز‘‘ قیمت اڑتیس روپے کلو سے بڑھا کر پچاس روپے کر دی گئی جس سے حکومت کو بلکہ غریب عوام کو پورے تیس ارب روپے کی تازہ ’’تُھک‘‘ لگا دی گئی ہے، اس واردات کے بعد حکومت جس بھونڈے انداز میں میڈیا کے سامنے پیش ہوئی، وہ منظر بذات خود دیدنی تھا۔ حکومت کی نمائندگی ظاہر ہے وزیر پیداوار قبلہ منظور احمد وٹو نے ہی کرنی تھی چنانچہ کی مگر اس سے زیادہ ولایوڑ اور مخولیہ نمائندگی ہوتے ہم نے آج تک نہیں دیکھی، یعنی موصوف دور جدید کے انتہائی مؤثر اور ماہر میڈیا کے سامنے یوں آئیں بائیں شائیں کر رہے تھے جیسے بصیرپور یا حجرہ شاہ مقیم کی کسی یونین کونسل سے خطاب فرما رہے ہوں۔
وقت بہت بدل چکا ہے۔ محض ذاتی تعلقات‘ وفاداریاں اور جٹکا سا سادہ منش انداز اب کام نہیں کرتا۔ اب تو آپ جو کچھ سوچ بھی رہے ہوتے ہیں، کیمرہ، سیٹلائٹ کے ذریعے اسے کروڑوں لوگوں پر آ شکار کرتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ اب معمولی سے معمولی موضوع پر بھی آپ کو مکمل تیاری کے ساتھ جانا پڑے گا اور چینی کا بحران تو خیر ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ وٹو صاحب جسے ایک روٹین کی معمولی سی پریس کانفرنس سمجھ بیٹھے تھے وہ اس سے کہیں زیادہ اہم تھی اور یہی وجہ ہے کہ صحافیوں نے موصوف کے وہ لتے لئے کہ آپ کافی دیر تک یاد رکھیں گے۔ اور اگر آپ کی وزارت تبدیل نہ ہوئی اور آپ بدستور وزیر پیداوار ہی رہے تو آئندہ کبھی بغیر تیاری کئے، میڈیا کا سامنا نہیں کریں گے۔ ویسے ہمارا برادرانہ بلکہ برخوردارانہ مشورہ تو یہی ہے کہ آپ سیاحت یا کلچر جیسی کوئی سیدھی سادھی ہومیوپیتھک سی وزارت لے کر کوئی ایسا کام کر جائیں کہ لوگ یادرکھیں کہ کوئی باذوق شخص وزارت چلانے آیا تھا۔
دوسری التجا یہ ہے کہ وزارت پیداوار رہے یا نہ رہے، آپ پہلی فرصت میں ہی ایک نئی پریس کانفرنس پھڑکائیے اور بھرپور تیاری کے ساتھ میڈیا کو مطمئن کرنے اور یقین دلانے کی سعی کیجئے کہ ’’معاملہ کھاد کا ہو یا چینی کا، دونوں میں ہی سرکاری بدنظمی اور بدانتظامی کا دخل تو رہا ہے، بدعنوانی اور بدنیتی کا ہرگز نہیں‘‘ تاہم یہ راستہ نہایت پرخار اور پیچیدہ ہے اس لئے میڈیا جلدی مطمئن نہیں ہو گا کیونکہ اگر آپ بذات خود پاک صاف ہوں بھی، تب بھی بیورو کریسی میں کسی نہ کسی جگہ کرپشن ضرور ہوئی ہے اور اگر آپ اس کی نشاندہی نہیں کرتے اور تمام متعلقہ احباب کی گوشمالی نہیں ہوتی تو پھر میڈیا کی طرف سے خیر کی توقع مت کریں۔ تاہم جو بھی کریں بھرپور تیاری کے بغیر مت کریں۔
ہماری ذاتی اطلاعات کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے وٹو صاحب کی وزارت بارے وزیراعظم گیلانی پر زبردست پریشر ڈالنا شروع کر دیا ہے، نواز لیگ کی طرف سے بھی ’’اندرو اندری‘‘ دبائو بہت زیادہ ہے اور عین ممکن ہے گیلانی صاحب اس پریشر کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکیں۔
آخر میں ان تمام خواتین و حضرات سے اپیل ہے کہ جنہیں پچھلی عمرے وزیر بننے کا شوق چراتا ہے، خدارا، اس کام سے اجتناب ہی برتیں تو بہتر ہے کہ آپ لوگ نہ تو مناسب محنت کر سکتے ہیں اور نہ ہی میڈیا کا مقابلہ۔ دور جدید کے جملہ تقاضوں سے صریحاً نابلد ہونے کے سبب نہ تو آپ کو ماڈرن طریقے سے حکومت کرنی آتی ہے اور نہ ہی کرپشن۔ میڈیا کے ٹن ٹن کرتے کیمرے دیکھ کر آپ ہکلانے لگتے ہیں اور اگر کوئی آڑا ترچھا سوال پوچھ لیا جائے تو آپ کا ’’ہاسا‘‘ نکل جاتا ہے۔ آپ کو تو بس اسی پر ہی اکتفا کرنا چاہئے کہ…؎
اس شوخ پہ مرنا تو بڑی بات ہے لیکن
کہتے ہیں کہ اس عمر میں اچھا نہیں لگتا !
وزارت مذکورہ چونکہ صنعت میں ’’پیداوار‘‘ ہے اس لئے اسلام آباد کی اکثر دیو مالائوں کا موضوع آج کل منظور وٹو صاحب ہی ہیں۔ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وٹو صاحب نے یہ وزارت مانگی ہی اسی لئے تھی کہ اس میں ’’پیداوار‘‘ کے امکانات بے حد روشن رہتے ہیں، وٹو صاحب کی جملہ بدنصیبیوں میں سرفہرست یہی ہے کہ آپ چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل رہے ہوں یا سپیکر پنجاب اسمبلی، وزیراعلی رہے ہوں یا وفاقی وزیر، ’’پیداوار‘‘ کے الزامات نے آپ کا تعاقب سائے کی طرح کیا ہے۔ خدا کرے کہ موصوف پر لگنے والے حالیہ الزامات بے جان ثابت ہوں مگر کہنے والے تو کھاد کی امپورٹ بارے ہی بہت کچھ کہتے چلے جا رہے ہیں اور کراچی کی بجائے گوادر مال منگوانے والے فیصلے اور پانچ سو روپے فی بوری اضافی قیمت کے مسلسل تذکرے کی بے ہودہ بازگشت ابھی جاری و ساری تھی کہ اب چینی بحران نے سر اٹھا لیا ہے۔
گزشتہ روز شوگر ملز مالکان کے ساتھ نہایت پراسرار سے حکومتی مذاکرات کے بعد چینی کی ’’ایکس ملز‘‘ قیمت اڑتیس روپے کلو سے بڑھا کر پچاس روپے کر دی گئی جس سے حکومت کو بلکہ غریب عوام کو پورے تیس ارب روپے کی تازہ ’’تُھک‘‘ لگا دی گئی ہے، اس واردات کے بعد حکومت جس بھونڈے انداز میں میڈیا کے سامنے پیش ہوئی، وہ منظر بذات خود دیدنی تھا۔ حکومت کی نمائندگی ظاہر ہے وزیر پیداوار قبلہ منظور احمد وٹو نے ہی کرنی تھی چنانچہ کی مگر اس سے زیادہ ولایوڑ اور مخولیہ نمائندگی ہوتے ہم نے آج تک نہیں دیکھی، یعنی موصوف دور جدید کے انتہائی مؤثر اور ماہر میڈیا کے سامنے یوں آئیں بائیں شائیں کر رہے تھے جیسے بصیرپور یا حجرہ شاہ مقیم کی کسی یونین کونسل سے خطاب فرما رہے ہوں۔
وقت بہت بدل چکا ہے۔ محض ذاتی تعلقات‘ وفاداریاں اور جٹکا سا سادہ منش انداز اب کام نہیں کرتا۔ اب تو آپ جو کچھ سوچ بھی رہے ہوتے ہیں، کیمرہ، سیٹلائٹ کے ذریعے اسے کروڑوں لوگوں پر آ شکار کرتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ اب معمولی سے معمولی موضوع پر بھی آپ کو مکمل تیاری کے ساتھ جانا پڑے گا اور چینی کا بحران تو خیر ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ وٹو صاحب جسے ایک روٹین کی معمولی سی پریس کانفرنس سمجھ بیٹھے تھے وہ اس سے کہیں زیادہ اہم تھی اور یہی وجہ ہے کہ صحافیوں نے موصوف کے وہ لتے لئے کہ آپ کافی دیر تک یاد رکھیں گے۔ اور اگر آپ کی وزارت تبدیل نہ ہوئی اور آپ بدستور وزیر پیداوار ہی رہے تو آئندہ کبھی بغیر تیاری کئے، میڈیا کا سامنا نہیں کریں گے۔ ویسے ہمارا برادرانہ بلکہ برخوردارانہ مشورہ تو یہی ہے کہ آپ سیاحت یا کلچر جیسی کوئی سیدھی سادھی ہومیوپیتھک سی وزارت لے کر کوئی ایسا کام کر جائیں کہ لوگ یادرکھیں کہ کوئی باذوق شخص وزارت چلانے آیا تھا۔
دوسری التجا یہ ہے کہ وزارت پیداوار رہے یا نہ رہے، آپ پہلی فرصت میں ہی ایک نئی پریس کانفرنس پھڑکائیے اور بھرپور تیاری کے ساتھ میڈیا کو مطمئن کرنے اور یقین دلانے کی سعی کیجئے کہ ’’معاملہ کھاد کا ہو یا چینی کا، دونوں میں ہی سرکاری بدنظمی اور بدانتظامی کا دخل تو رہا ہے، بدعنوانی اور بدنیتی کا ہرگز نہیں‘‘ تاہم یہ راستہ نہایت پرخار اور پیچیدہ ہے اس لئے میڈیا جلدی مطمئن نہیں ہو گا کیونکہ اگر آپ بذات خود پاک صاف ہوں بھی، تب بھی بیورو کریسی میں کسی نہ کسی جگہ کرپشن ضرور ہوئی ہے اور اگر آپ اس کی نشاندہی نہیں کرتے اور تمام متعلقہ احباب کی گوشمالی نہیں ہوتی تو پھر میڈیا کی طرف سے خیر کی توقع مت کریں۔ تاہم جو بھی کریں بھرپور تیاری کے بغیر مت کریں۔
ہماری ذاتی اطلاعات کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے وٹو صاحب کی وزارت بارے وزیراعظم گیلانی پر زبردست پریشر ڈالنا شروع کر دیا ہے، نواز لیگ کی طرف سے بھی ’’اندرو اندری‘‘ دبائو بہت زیادہ ہے اور عین ممکن ہے گیلانی صاحب اس پریشر کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکیں۔
آخر میں ان تمام خواتین و حضرات سے اپیل ہے کہ جنہیں پچھلی عمرے وزیر بننے کا شوق چراتا ہے، خدارا، اس کام سے اجتناب ہی برتیں تو بہتر ہے کہ آپ لوگ نہ تو مناسب محنت کر سکتے ہیں اور نہ ہی میڈیا کا مقابلہ۔ دور جدید کے جملہ تقاضوں سے صریحاً نابلد ہونے کے سبب نہ تو آپ کو ماڈرن طریقے سے حکومت کرنی آتی ہے اور نہ ہی کرپشن۔ میڈیا کے ٹن ٹن کرتے کیمرے دیکھ کر آپ ہکلانے لگتے ہیں اور اگر کوئی آڑا ترچھا سوال پوچھ لیا جائے تو آپ کا ’’ہاسا‘‘ نکل جاتا ہے۔ آپ کو تو بس اسی پر ہی اکتفا کرنا چاہئے کہ…؎
اس شوخ پہ مرنا تو بڑی بات ہے لیکن
کہتے ہیں کہ اس عمر میں اچھا نہیں لگتا !