اگر ریاست ہندوستان کے طرز حکومت اور طرز معاشرت کو قبول نہ کرتے ہوئے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ خطے کے حصول کی ضرورت محسوس کی گئی تو اس آزاد مملکت کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی عملداری کے تابع کرنا اس آزاد مملکت کے قیام کے مقاصد اور اصولوں کی نفی ہوتی کیونکہ جن قوانین، اصولوں اور طرز حکومت و معاشرت سے اختلاف کرتے ہوئے مسلمانانِ ہند کیلئے الگ ملک حاصل کیا گیا، انہی اصولوں اور اسی طرز معاشرت کو اپنے الگ ملک اور آزاد مملکت کیلئے کیسے قبول کیا جاسکتا تھا اس لئے یہ طے شدہ امر ہے کہ پاکستان کے تحریری آئین کے معرضِ وجود میں آنے تک پاکستان کے طرز حکومت و معاشرت کے بارے میں قائداعظمؒ جو بنیادی اصول اپنی تقاریر میں بتایا کرتے تھے، وہی پاکستان کا آئین تھا اور قائداعظمؒ کی کسی تقریر کے کسی ایک بھی لفظ یا فقرے میں ایسی کوئی بات موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ انہوں نے کسی مرحلے پر علاقائی یا لسانی بنیادوں پر پاکستان کے شہریوں کے حقوق کی وکالت کی ہے۔ انہوں نے 1948ءمیں کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے واضح کردیا تھا کہ آپ نے سندھی، پنجابی، بنگالی، بلوچی یا پٹھان کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس قوم کی حیثیت سے اپنی زندگیاں بسر کرنی ہیں جن کا درس ہمیں چودہ سو سال قبل دیدیا گیا تھا۔ اس میں مملکت خدادادِ پاکستان کے طرز حکومت و معاشرت کی مکمل تشریح موجود ہے جس کے مطابق پاکستان مسلمان قوم کیلئے حاصل کیا گیا ہے جس میں اقلیتوں کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو حضرت نبی آخر الزماں نے میثاق مدینہ میں خود وضع کئے تھے۔ اس اصول کے تحت پاکستان میں مسلمان قوم کی شناخت پنجابی، سندھی، پشتون، بلوچی یا بنگالی کی حیثیت سے نہیں بلکہ مسلمان کی حیثیت سے ہی ہونی ہے اور اس ناطے سے پاکستان میں علاقائی، نسلی یا لسانی تشخص کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان کے آئین یا قانون میں کوئی ایسی شق شامل کی جاسکتی ہے جس میں مملکت کے کسی حصے کی علاقائی، نسلی یا لسانی بنیادوں پر شناخت بنائی گئی ہو۔
اب اگر 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت ملک کے ایک حصے کا نام علاقائی، نسلی اور لسانی پس منظر میں ہی خیبر پی کے (پختونخوا) رکھا گیا ہے تو یہ سوال اٹھنا فطری امر ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین پاکستان میں ڈالی گئی یہ شق قائداعظمؒ کے متعین کردہ پاکستان کے بنیادی اصولوں سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ریفرنڈم کی بنیاد پر سرحدی علاقوں کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا تو سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان نے پختونستان کی تحریک شروع کردی جس پر قائداعظمؒ نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اس تحریک کو ایک فتنہ قرار دیا کیونکہ اس سے پاکستانی قوم کے تصور کی نفی ہوتی تھی چنانچہ سرحدی گاندھی کے وضع کردہ سرحدی علاقے کے جس تشخص کو خود قائداعظمؒ فتنہ قرار دے چکے ہیں وہ اب پارلیمنٹ کے ذریعے لاگو کی گئی 18 ویں آئینی ترمیم کی بنیاد پر پاکستان کے ایک حصے کا تشخص کیسے بن سکتا ہے اور پارلیمنٹ پاکستان کے بنیادی اصولوں کے منافی آئین یا قانون کی کوئی شق کیسے وضع کرسکتی ہے۔
یہ کسی کی ذاتی پسند ناپسند یا غیرت و انا کا نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے اس بنیادی ڈھانچے کے تصور کا سوال ہے جو خود بانی پاکستان نے وضع کیا تھا۔ اس لئے پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں اپنی مفاداتی سیاست کی بنیاد پر باہم گٹھ جوڑ کرکے ریاست پاکستان کے بنیادی ڈھانچے میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں کرسکتیں۔ چنانچہ 18 ویں آئینی ترمیم کے کیس میں سپریم کورٹ اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ آئین میں ترمیم کرتے ہوئے صوبہ سرحد کے نام کو خیبر پی کے میں تبدیل کرنا ریاست کے بنیادی ڈھانچے کے تصور کے منافی ہے تو سپریم کورٹ اس آئینی ترمیم کو نظرثانی کیلئے پارلیمنٹ کے پاس واپس بھجوانے کی پابند ہوگی جیسا کہ سابقہ دور حکومت میں سرحد حکومت کے وضع کردہ حسبہ ایکٹ کو نظرثانی کیلئے سرحد اسمبلی میں واپس بھیجا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کا یہ اختیار پارلیمنٹ کی بالادستی کے ہرگز تابع نہیں ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ ریاست کے بنیادی ڈھانچے کے کسی اصول کے منافی کوئی قانونی یا آئینی شق وضع کرسکتی ہے۔ یقیناً اسی بنیاد پر 18 ویں آئینی ترمیم کے کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ ساز ہوگا۔ موجودہ پارلیمنٹ نے 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت جوڈیشل کمیشن تشکیل دیکر آئین میں پہلے سے موجودہ عدلیہ کے بنیادی ڈھانچے کو چیلنج کیا ہے تو صوبہ سرحد کا نام خیبر پی کے (پختونخوا) میں تبدیل کرکے ریاست کے بنیادی ڈھانچے کو چیلنج کیا گیا ہے چنانچہ یہ دونوں معاملات عدالتی نظرثانی کے متقاضی ہیں۔ یہ کسی کی سیاست کا نہیں، ملک کی بقاءکا معاملہ ہے اور سپریم کورٹ ملک کی بقاءکے تحفظ کی آئینی طور پر پابند ہے اس لئے 18 ویں آئینی ترمیم کے کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ملک کی بقاءکی ضمانت تو بن سکتا ہے، اس کے منافی کسی صورت نہیں ہوسکتا۔ اس کڑے امتحان میں سپریم کورٹ کو ملکِ خدادادِ پاکستان کو سرخرو کرنا ہوگا ورنہ تو اسکی تشکیل کا مقصد ہی فوت ہوجائیگا۔