بھارت نواز دانشوروں اور صحافیوں کی تنظیم سیفما نے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے قائد میاں نوازشریف کو جال میں پھنسا کر انکی زبانی اکھنڈ بھارت کی وکالت کرتے ہوئے دام کھرے کرنےوالے اپنے مقاصد تو پورے کرلئے ہیں مگر اللہ میاں کی گائے ایسی پھنسی ہے کہ اس کیلئے اب رسی تڑوا کر بھاگ نکلنا بھی ممکن نہیں رہا۔ سیفما والی تقریر پر میاں نوازشریف کی وضاحت ”عذرِ گناہ بدتر از گناہ“ کا شاہکار تھی تو اب انکے مفاداتی مدح سراﺅں کے انکے بودے موقف کے حق میں دئیے جانیوالے دلائل انہیں قربانی کا بکرا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔
مجھے گندے جوہڑ میں کنکری پھینک کر خود کو نجس سے آلودہ کرانے کی تو قطعاً ضرورت نہیں مگر ایک دینی گھرانے کے خانوادے جو پیشہ صحافت اور کالم نگاری میں میرے لئے انتہائی محترم ہیں، کی جانب سے بھارتیوں یا سکھوں کے رب کو اپنے رب سے تعبیر کرنے اور قائداعظمؒ کی ایک تقریر کے حوالے سے پاکستان کو بھارت سے اچھے تعلقات استوار کرنے کا درس دینے سے متعلق میاں نوازشریف کے سیفما کی من مرضی والے دلائل کی توصیف و تائید کرنے پر مجھے دلی قلق ہوا ہے۔ کاش انکے قلم سے یہ الفاظ ادا نہ ہوئے ہوتے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر انہیں کوئی مجبوری لاحق نہ ہوتی تو وہ سیفما والی تقریر پر میاں نوازشریف کی تائید میں کبھی کالم نہ لکھتے۔ اب چونکہ انہوں نے بھی خلطِ مبحث میں اپنی کسی مجبوری کے تابع حصہ ڈال دیا ہے تو میرے پاس ردِّ دلیل کیلئے قلم اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔
میاں نوازشریف نے بھی اپنی وضاحت میں اور اس وضاحت کی تائید میں محترم کالم نگار نے بھی حضرت قائداعظمؒ کا حوالہ دیا کہ وہ ہمسایہ ملک کی حیثیت سے بھارت سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے متمنی تھے۔ کسی ہمسائے یا پڑوسی ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی خواہش رکھنے میں تو یقینا کوئی خرابی نہیں ہے اور محترم کالم نگار کو پاکستان کے سابق سفیر کی حیثیت سے یقینا پرامن بقائے باہمی کے فلسفے کا ادراک ہوگا جس کی بنیاد ہی بالخصوص ہمسایہ ممالک میں اچھے تعلقات کی استواری پر رکھی گئی ہے مگر اچھے تعلقات کی استواری یکطرفہ نہیں، دوطرفہ ہوتی ہے۔ جب ہمارے پڑوسی بھارت نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان کی بربادی کو اپنا ماٹو بنالیا ہے اور پھر اس پر دل و جان سے عمل پیرا بھی ہے تو اس سے اچھے تعلقات کی استواری کا خواب تو دیکھا جاسکتا ہے، میاں نوازشریف اور انکے رَطبُ اللسانوں کالم نگاروں، دانشوروں کی خواہش کے باوجود اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ قائداعظمؒ نے بھی یقینا پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت ہی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر تاریخ کا ریکارڈ گواہ ہے کہ انہیں عملی اقدام اس کے قطعی برعکس اٹھانا پڑا۔ مسلم لیگ کے قائد کی حیثیت سے میاں نوازشریف کو بھی اس تاریخی حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ جب 1948ءمیں بھارتی بنیاءلیڈرشپ نے اکھنڈ بھارت کے جنون کے تحت کشمیر میں فوجیں اتار کر اس پر غاصبانہ تسلط جمایا تو قائداعظمؒ نے پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل گریسی کو مقبوضہ کشمیر کی جانب افواج پاکستان کی پیشقدمی کے احکام جاری کئے تھے جن کی تعمیل سے جنرل گریسی نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ وہ اپنے برطانوی کمانڈر انچیف کی ہدایات کے بغیر پیش قدمی نہیں کرینگے۔ اگر اس وقت جنرل گریسی کی جگہ پاکستان کا اپنا آرمی چیف ہوتا تو وہ قائداعظمؒ کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے افواج پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوجوں کے مدمقابل لاکر انکے ارادے خاک میں ملا دیتا اور اسی وقت تنازعہ کشمیر بھی حل ہو جاتا ۔ قائداعظمؒ نے آزاد کشمیر کو سیاسی اور فوجی اعتبار سے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا تو اپنے اس قول کے مطابق کہ کوئی خوددار ملک اور قوم یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے حوالے کردے، انہوں نے شہ رگِ پاکستان کشمیر کو دشمن کے خونیں پنجے سے آزاد کرانے کیلئے پاکستان کے بدیسی آرمی چیف کو بھارتی افواج سے مڈبھیڑ کا حکم بھی دیدیا تھا۔ یہ حکم انہوں نے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی خواہش رکھنے کے باوجود صادر کیا تھا جو میاں نوازشریف اور انکے حامی دانشوروں کی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی منطق کا بذاتِ خود ٹھوس جواب ہے۔ انہیں بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں 11 مارچ 1948ءکو سوئٹزرلینڈ کے ایک صحافی کو دئیے گئے قائداعظمؒ کے انٹرویو کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے جب متذکرہ صحافی نے استفسار کیا کہ کیا امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کبھی اپنے اختلافات اور تنازعات پرامن طور پر حل کرسکیں گے، تو قائداعظمؒ نے برجستہ جواب دیا کہ ہاں، یقیناً، بشرطیکہ حکومت بھارت احساس برتری ختم کردے، پاکستان کو برابر کا سمجھے اور اصل حقائق کا سامنا کرے۔ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کیلئے کیا آج بھی قائد کے متعین کئے گئے یہ اصول کارآمد نہیں ہوسکتے۔ یقینا اچھے تعلقات کا سارا انحصار آج بھی بھارت پر ہی ہے جس کا قیام پاکستان سے اب تک کا طرزعمل کیا دوستی والا ہے؟ میاں نوازشریف کو واجپائی کے سحر سے نکل کر اس کا احساس کرنا چاہئے۔
جہاں تک دو قومی نظریہ کی حقیقت کا تعلق ہے اسکی وضاحت بھی تو خود قائداعظمؒ نے مسلم لیگ کے لاہور میں منعقدہ 23 مارچ 1940ءکے اجلاس میں اپنی تقریر میں واضح الفاظ میں کردی تھی۔ میں اس تقریر میں ادا ہونیوالے قائد کے اپنے الفاظ یہاں درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں ”اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہئے کہ ہندو اور مسلمان ملکر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکیں گے۔ یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ یہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ انکے تاریخی وسائل اور ماخذ بھی مختلف ہیں“۔ قائد کے ان ارشادات سے دو قومی نظریہ کی حقانیت ہی واضح نہیں ہوتی بلکہ میاں نوازشریف اور انکے رطب النسانوں کی اس کٹ حجتی کا بھی قائد کے یہی ارشادات واضح جواب ہیں کہ ہماری تہذیب، ثقافت، کھانا پینا، رہن سہن ایک جیسا ہے۔ نظریہ پاکستان کو کسی کی دکانداری سمجھنے والے مجہول کو علم ہونا چاہئے کہ اسلامیانِ ہند کیلئے یہ دکان تو خود قائداعظمؒ نے انکے بہترین فائدے کی خاطر سجائی، سنواری تھی اور کسی کی ذہنی کجی اس دکان کو ویران نہیں کرسکتی۔
میاں نوازشریف کے وضاحتی بیان کا یہ حصہ تو انتہائی تکلیف دہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے بیٹھے بھارتی سکھوں سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ الفاظ ادا کئے تھے کہ جس رب کو وہ پوجتے ہیں ہم بھی اسی رب کو پوجتے ہیں جبکہ روزنِ دیوار سے محترم کالم نگار نے بھی کسی مجبوری کی بنیاد پر اپنی علمیت کا سارا زور میاں نوازشریف کی اس بودی دلیل کو درست ثابت کرنے پر لگایا ہے جس کی مذہبی گھرانے کے خانوادے سے ہرگز توقع نہیں تھی۔ انکے دلائل سے آنکھیں نیچی کرکے مطمئن ہونیوالے انکے ساختہ مولوی عبدالودود سے زیادہ مجھے انکی اپنی ”سادگی“ پر ترس آرہا ہے۔ سکھوں کے انسانی ساختہ دین کو آفاقی دینِ اسلام کے ہم پلہ لانا اگر دانستہ شرارت نہیں تو پرلے درجے کی حماقت ضرور ہے۔
میرا تو یہ راسخ عقیدہ ہے کہ مذہب وہی ہے جو کسی الہامی کتاب کے ساتھ منسوب ہو، باقی سب انسانی ذہن کی اختراع اور شرارت بلکہ فتنہ ہے۔ محترم کالم نگار کو بھلا یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ورودِ اسلام سے سورج پرستی، آتش پرستی اور بت پرستی سمیت تمام الا بلا انسانی عبادتوں کا استرداد ہوگیا تھا جبکہ حضرت نبی آخر الزمان کی شمع¿ رسالت کی روشنی پھیلا کر خالقِ کائنات نے حضور کے نام پر ختم نبوت کا بھی اعلان کردیا۔ اس طرح دینِ اسلام سے پہلے کی پرستشیں، عبادتیں بھی کالعدم اور ورودِ اسلام کے ساتھ ہی مزید انبیاءکرام اور الہامی کتب کے نزول کا سلسلہ بھی ختم۔ اب مردود مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح کوئی دعویٰ نبوت کے خناس کا شکار ہوگا تو اسی کی طرح تحقیر و نفرین کا حقدار ٹھہرے گا۔ بابا گورونانک سے منسوب مذہب کی حقیقت کیا ہے، محترم کالم نگار کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اس کیلئے سید افضل حیدر کی کتاب ”بابا نانک“ کا مطالعہ فرمالیں۔ اگر یہ کتاب انکی ذاتی لائبریری یا پنجاب آرٹس کونسل کی لائبریری (اگر کوئی ہے) میں موجود نہ ہو تو مجھ سے مستعار لے سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ کتاب بابا گورونانک کے فلسفہ¿ تکریم انسانیت کے حق میں لکھی گئی ہے مگر اس کتاب میں بابا گورونانک کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ بابا گورونانک ایک کھتری ہندو تھے جو کھتریوں اور اچھوتوں پر برہمن ہندوﺅں کے مظالم سے عاجز آکر ردعمل کے اظہار کے راستے ڈھونڈ رہے تھے۔ پھرگنگا جل میں اشنان کرتے، اور ایک لمبی ڈبکی لگاتے ہوئے ان پر کشف ہوا اور دینِ اکبری اور ملعون مرزا قادیانی کی طرح انکے دل میں بھی اپنے ساختہ دین کی شناخت و ترویج کا سودا سما گیا، مگر وہ مرتے دم تک شش و پنج میں ہی رہے کہ وہ ہندو دھرم میں ہی رہیں یا دینِ اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں۔ ان کے کسی قول و فعل سے ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ہندو دھرم سے تائب ہو گئے تھے۔کالم نگار موصوف نے تو اپنے دلائل کو وزنی بنانے کیلئے انکے دو حج کرنے کا تذکرہ بھی ضروری سمجھا ہے مگر کیا کسی غیر مسلم کے حرمین شریف کے وزٹ کو حج کہا جاسکتا ہے، جبکہ سید افضل حیدر نے تو بابا گورونانک کا وہ سبز چولا بھی دریافت کرلیا جس پر کلمہ¿ طیبہ، چاروں قل شریف اور دوسری قرآنی آیات کندہ ہیں مگر اس سب کے باوجود بابا گورونانک اس حقیقت کو نہ پاسکے کہ مذاہب کے درمیان وہ خود کہاں کھڑے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات سے آشنائی حاصل کرنے کے باوجود ہندو دھرم سے انکی وابستگی ترک نہ ہوسکی۔ محض توحید پر یقین کے اظہار سے تو کسی کو قربِ اسلام کے اعزاز سے نہیں نوازا جاسکتا۔ اگر بابا گورو نانک دینِ اسلام کو دینِ برحق سمجھتے تھے جیسا کہ انہوں نے اپنے ایک شعر میں پانچ نمازیں اور قرآن پڑھنے کی تلقین بھی کی تو وہ سیدھا سیدھا کلمہ پڑھ کر حلقہ¿ اسلام میں داخل ہوجاتے، انہیں کسی دینِ الٰہی کا سوانگ رچانے کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ درحقیقت انکا دور بھی اکبر بادشاہ اور مردود قادیانی کی طرح مسلمانوں کو گمراہ کرنے والا انگریز کے شرارتی ذہن کا دور تھا چنانچہ انکے ہاتھوں سکھ مذہب کی ایجاد بھی اسی شرارتی ذہن کی کارفرمائی نظر آتی ہے اس لئے سکھوں سے راہ و رسم بڑھانے کے خوش فہم حامیوں سے معذرت کے ساتھ، میں سکھ مذہب کو بھی فتنہ¿ قادیانیت جیسا ہی سمجھتا ہوں۔ اگر آج سکھ گوردواروں میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو ان سے پوچھ لیجئے کہ وہ خدائے وحدہُ لاشریک کی پوجا کرتے ہیں یا واہے گورو بابا گورونانک کی؟ اگر بابا گورو نانک ان کے خدا ہیں تو یہ خدائے وحدہُ لاشریک کے ساتھ سیدھا سیدھا شرک ہے۔ کیا کوئی مسلمان اس شرک کو قبول اور تسلیم کر سکتا ہے اور اگر گورو نانک سکھوں کے نبی یا پیغمبر ہیں تو ختم نبوت کے بعد ان کی پیغمبری یا نبوت کا اعلان کیا انہیں مرزا قادیانی کے ساتھ نہیں کھڑا کرے گا۔ سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کے انسانی ساختہ ہونے کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس کا ایک تہائی حصہ ہمارے بزرگ صوفی شاعر بابا فرید گنج شکرؒ کی شاعری پر مشتمل ہے جسے اشلوک بابا فرید کہا جاتا ہے۔ اگر گرنتھ صاحب الہامی کتاب نہیں اور بابا گورو نانک کا بطور نبی یا رسول نزول نہیں ہوا تو پھر ان کے سکھ مذہب کی کیا حیثیت ہے۔ اور اگر میاں نواز شریف اور محترم کالم نگار کے بقول سکھ بھی توحید پرست ہیں تو کیا ان کی عملی زندگی میں اس کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ کیا وہ خدائے وحدہ لا شریک کی بتائی گئی مکروہات و ممانعات کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرتے ہیں۔ وہ گوردواروں میں خدا کے آگے متھا ٹیکتے ہیں یا واہے گورو کے آگے؟ اگر وہ عبادت گروگرنتھ کے مطابق گورونانک کی کرتے ہیں تو وہ توحید پرست کیسے ہو گئے؟محترم کالم نگار نے بانگ درا سے علامہ اقبالؒ کے بابا گورو نانک کے بارے میں ایک شعر کا سہارا لے کر انہیں مسلمانوں کے لئے قابلِ قبول بنانے کی کوشش کی ہے تو حضور والا! غالب کا یہ شعر بھی بابا گورونانک کی شش و پنج میں پڑی کیفیت ہی کی عکاسی کرتا ہے کہ
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسہ مرے آگے
علامہ اقبالؒ تو دینِ اسلام کے بارے میں اتنے راسخ العقیدہ تھے کہ شریعت سے منحرف مسلمانوں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ ان کا یہ شعر اس کی واضح دلیل ہے کہ
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
اگر کوئی دینِ اسلام کا مطالعہ کر کے علم و فضل کا ٹوکرا اٹھائے پھر رہا ہو مگر اس کی نیت میں فتور ہو تو اس کی حالت ایسی ہی ہو گی جیسے
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویوں، منوں نہ گئی پلیتی
جیہی نیتی تے جیہی نہ نیتی
محترم کالم نگار سے میرا سوال ہے کہ آیا شریعت ہمیں اس کی اجازت دے سکتی ہے کہ کسی کافر کو بادی النظر میں اس کی دین اسلام کے ساتھ محض رغبت کی بنیاد پر کلمہ گو مسلمان کا درجہ دے دیا جائے۔ حضرت نبی آخرالزمانﷺ کو اپنے چچا ابوطالب سے زیادہ اور کون عزیز ہو سکتا ہے کہ وہ کفار مکہ کی ہر سازش کے خلاف آپ نبی کریمﷺ کی ڈھال بنے رہے مگر اپنے قبیلہ کے تفاخر کے احساس میں مرتے وقت بھی انہوں نے کلمہ پڑھنے سے گریز کیا۔ آپ حضور نے ان کی نزع کی حالت میں ان کے کان میں فرمایا تھا کہ اب بھی کلمہ پڑھ لیں۔ آپ جنت میں میرے ہمراہی ہونگے۔ ابوطالب کی روح خطا ہو گئی مگر زبان سے کلمہ ادا نہ ہو پایا ۔ حضرت نبی کریم کی پرورش و حفاظت کرنے والی یہ ہستی اگر مسلمان کے مقام و مرتبہ سے محروم رہی تو محترم کالم نگار! بابا گورو نانک کس کھاتے شمار میں آتے ہیں۔ اور جناب یہ بھی جان رکھئے کہ سکھوں میں مسلمانوں یا پاکستان کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ اس وقت پیدا ہوا جب متعصب جنونی ہندوﺅں نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ:
کنگھا، کچھا، کڑا، کرپان
بھیج دیاں گے پاکستان
کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں کہ تقسیم ہند کے وقت سکھ مسلمانوں کی تحریک آزادی کا ساتھ دیتے تو گریٹر پنجاب کبھی تقسیم نہ ہوتا اور پاکستان بھارت کے درمیان سرحدوں کی کھینچی جانے والی لکیر کبھی واہگہ والی لکیر نہ بنتی۔ اسکے برعکس سکھوں نے تو اپنے مذہبی پیشوا بابا گورونانک کے گوردوارے سمیت ننکانہ کا پاکستان جانا قبول کر لیا اور لاہور میں موجود اپنے متبرک مقامات کی بھی قربانی دے دی مگر ہندو کا ساتھ نہ چھوڑا اور تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کے قتل عام میں جنونی ہندوﺅں کو بھی مات دے دی۔ خدارا۔ بھارت نوازی اور سکھ نوازی کے شوق میں ان مسلمان خاندانوں کے زخم ہرے نہ کریں جو انہی سکھوں کے ڈسے ہوئے ہیں ۔ سکھّوںکا مشرقی پنجاب میں بالخصوص اور باقی ہندوستان میں تقسیم کے وقت ریکارڈ کیسا تھا؟ ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمان خواتین مردوں اور بچوں کو قتل کیا ، خواتین کی بے حرمتی کی ،بے شمار مسلمان خواتین آج بھی ان کے بچوں کی ماں یا دادی نانی بن کر اپنی زندگی گزار رہی ہیں لاکھوں مندر میں کیس رکھ کر سکھ بنے۔ سیفما نے تو میاں نوازشریف کو گھیر گھار کر اپنے مالی فائدے وصول لئے ہیں، محترم کالم نگار جیسے میاں نوازشریف کے دانشمند عقیدت مند، ان کے علم ناآشنا موقف کی تائید کر کے اپنا ایمان کیوں خراب کر رہے ہیں۔ اب ذرا اپنے مولوی عبدالودود سے پوچھئے کہ وہ میاں نوازشریف کی اور آپ کی تاویلوں سے مطمئن ہے یا نہیں؟
مجھے گندے جوہڑ میں کنکری پھینک کر خود کو نجس سے آلودہ کرانے کی تو قطعاً ضرورت نہیں مگر ایک دینی گھرانے کے خانوادے جو پیشہ صحافت اور کالم نگاری میں میرے لئے انتہائی محترم ہیں، کی جانب سے بھارتیوں یا سکھوں کے رب کو اپنے رب سے تعبیر کرنے اور قائداعظمؒ کی ایک تقریر کے حوالے سے پاکستان کو بھارت سے اچھے تعلقات استوار کرنے کا درس دینے سے متعلق میاں نوازشریف کے سیفما کی من مرضی والے دلائل کی توصیف و تائید کرنے پر مجھے دلی قلق ہوا ہے۔ کاش انکے قلم سے یہ الفاظ ادا نہ ہوئے ہوتے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر انہیں کوئی مجبوری لاحق نہ ہوتی تو وہ سیفما والی تقریر پر میاں نوازشریف کی تائید میں کبھی کالم نہ لکھتے۔ اب چونکہ انہوں نے بھی خلطِ مبحث میں اپنی کسی مجبوری کے تابع حصہ ڈال دیا ہے تو میرے پاس ردِّ دلیل کیلئے قلم اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔
میاں نوازشریف نے بھی اپنی وضاحت میں اور اس وضاحت کی تائید میں محترم کالم نگار نے بھی حضرت قائداعظمؒ کا حوالہ دیا کہ وہ ہمسایہ ملک کی حیثیت سے بھارت سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے متمنی تھے۔ کسی ہمسائے یا پڑوسی ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی خواہش رکھنے میں تو یقینا کوئی خرابی نہیں ہے اور محترم کالم نگار کو پاکستان کے سابق سفیر کی حیثیت سے یقینا پرامن بقائے باہمی کے فلسفے کا ادراک ہوگا جس کی بنیاد ہی بالخصوص ہمسایہ ممالک میں اچھے تعلقات کی استواری پر رکھی گئی ہے مگر اچھے تعلقات کی استواری یکطرفہ نہیں، دوطرفہ ہوتی ہے۔ جب ہمارے پڑوسی بھارت نے قیام پاکستان کے وقت سے ہی پاکستان کی بربادی کو اپنا ماٹو بنالیا ہے اور پھر اس پر دل و جان سے عمل پیرا بھی ہے تو اس سے اچھے تعلقات کی استواری کا خواب تو دیکھا جاسکتا ہے، میاں نوازشریف اور انکے رَطبُ اللسانوں کالم نگاروں، دانشوروں کی خواہش کے باوجود اسے عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ قائداعظمؒ نے بھی یقینا پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کے تحت ہی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا مگر تاریخ کا ریکارڈ گواہ ہے کہ انہیں عملی اقدام اس کے قطعی برعکس اٹھانا پڑا۔ مسلم لیگ کے قائد کی حیثیت سے میاں نوازشریف کو بھی اس تاریخی حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ جب 1948ءمیں بھارتی بنیاءلیڈرشپ نے اکھنڈ بھارت کے جنون کے تحت کشمیر میں فوجیں اتار کر اس پر غاصبانہ تسلط جمایا تو قائداعظمؒ نے پاکستان کے پہلے آرمی چیف جنرل گریسی کو مقبوضہ کشمیر کی جانب افواج پاکستان کی پیشقدمی کے احکام جاری کئے تھے جن کی تعمیل سے جنرل گریسی نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ وہ اپنے برطانوی کمانڈر انچیف کی ہدایات کے بغیر پیش قدمی نہیں کرینگے۔ اگر اس وقت جنرل گریسی کی جگہ پاکستان کا اپنا آرمی چیف ہوتا تو وہ قائداعظمؒ کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے افواج پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں غاصب بھارتی فوجوں کے مدمقابل لاکر انکے ارادے خاک میں ملا دیتا اور اسی وقت تنازعہ کشمیر بھی حل ہو جاتا ۔ قائداعظمؒ نے آزاد کشمیر کو سیاسی اور فوجی اعتبار سے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا تو اپنے اس قول کے مطابق کہ کوئی خوددار ملک اور قوم یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے حوالے کردے، انہوں نے شہ رگِ پاکستان کشمیر کو دشمن کے خونیں پنجے سے آزاد کرانے کیلئے پاکستان کے بدیسی آرمی چیف کو بھارتی افواج سے مڈبھیڑ کا حکم بھی دیدیا تھا۔ یہ حکم انہوں نے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی خواہش رکھنے کے باوجود صادر کیا تھا جو میاں نوازشریف اور انکے حامی دانشوروں کی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی منطق کا بذاتِ خود ٹھوس جواب ہے۔ انہیں بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں 11 مارچ 1948ءکو سوئٹزرلینڈ کے ایک صحافی کو دئیے گئے قائداعظمؒ کے انٹرویو کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے جب متذکرہ صحافی نے استفسار کیا کہ کیا امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کبھی اپنے اختلافات اور تنازعات پرامن طور پر حل کرسکیں گے، تو قائداعظمؒ نے برجستہ جواب دیا کہ ہاں، یقیناً، بشرطیکہ حکومت بھارت احساس برتری ختم کردے، پاکستان کو برابر کا سمجھے اور اصل حقائق کا سامنا کرے۔ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کیلئے کیا آج بھی قائد کے متعین کئے گئے یہ اصول کارآمد نہیں ہوسکتے۔ یقینا اچھے تعلقات کا سارا انحصار آج بھی بھارت پر ہی ہے جس کا قیام پاکستان سے اب تک کا طرزعمل کیا دوستی والا ہے؟ میاں نوازشریف کو واجپائی کے سحر سے نکل کر اس کا احساس کرنا چاہئے۔
جہاں تک دو قومی نظریہ کی حقیقت کا تعلق ہے اسکی وضاحت بھی تو خود قائداعظمؒ نے مسلم لیگ کے لاہور میں منعقدہ 23 مارچ 1940ءکے اجلاس میں اپنی تقریر میں واضح الفاظ میں کردی تھی۔ میں اس تقریر میں ادا ہونیوالے قائد کے اپنے الفاظ یہاں درج کرنا ضروری سمجھتا ہوں ”اس خواہش کو خواب و خیال ہی کہنا چاہئے کہ ہندو اور مسلمان ملکر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کرسکیں گے۔ یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ یہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ انکے تاریخی وسائل اور ماخذ بھی مختلف ہیں“۔ قائد کے ان ارشادات سے دو قومی نظریہ کی حقانیت ہی واضح نہیں ہوتی بلکہ میاں نوازشریف اور انکے رطب النسانوں کی اس کٹ حجتی کا بھی قائد کے یہی ارشادات واضح جواب ہیں کہ ہماری تہذیب، ثقافت، کھانا پینا، رہن سہن ایک جیسا ہے۔ نظریہ پاکستان کو کسی کی دکانداری سمجھنے والے مجہول کو علم ہونا چاہئے کہ اسلامیانِ ہند کیلئے یہ دکان تو خود قائداعظمؒ نے انکے بہترین فائدے کی خاطر سجائی، سنواری تھی اور کسی کی ذہنی کجی اس دکان کو ویران نہیں کرسکتی۔
میاں نوازشریف کے وضاحتی بیان کا یہ حصہ تو انتہائی تکلیف دہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے بیٹھے بھارتی سکھوں سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ الفاظ ادا کئے تھے کہ جس رب کو وہ پوجتے ہیں ہم بھی اسی رب کو پوجتے ہیں جبکہ روزنِ دیوار سے محترم کالم نگار نے بھی کسی مجبوری کی بنیاد پر اپنی علمیت کا سارا زور میاں نوازشریف کی اس بودی دلیل کو درست ثابت کرنے پر لگایا ہے جس کی مذہبی گھرانے کے خانوادے سے ہرگز توقع نہیں تھی۔ انکے دلائل سے آنکھیں نیچی کرکے مطمئن ہونیوالے انکے ساختہ مولوی عبدالودود سے زیادہ مجھے انکی اپنی ”سادگی“ پر ترس آرہا ہے۔ سکھوں کے انسانی ساختہ دین کو آفاقی دینِ اسلام کے ہم پلہ لانا اگر دانستہ شرارت نہیں تو پرلے درجے کی حماقت ضرور ہے۔
میرا تو یہ راسخ عقیدہ ہے کہ مذہب وہی ہے جو کسی الہامی کتاب کے ساتھ منسوب ہو، باقی سب انسانی ذہن کی اختراع اور شرارت بلکہ فتنہ ہے۔ محترم کالم نگار کو بھلا یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ورودِ اسلام سے سورج پرستی، آتش پرستی اور بت پرستی سمیت تمام الا بلا انسانی عبادتوں کا استرداد ہوگیا تھا جبکہ حضرت نبی آخر الزمان کی شمع¿ رسالت کی روشنی پھیلا کر خالقِ کائنات نے حضور کے نام پر ختم نبوت کا بھی اعلان کردیا۔ اس طرح دینِ اسلام سے پہلے کی پرستشیں، عبادتیں بھی کالعدم اور ورودِ اسلام کے ساتھ ہی مزید انبیاءکرام اور الہامی کتب کے نزول کا سلسلہ بھی ختم۔ اب مردود مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح کوئی دعویٰ نبوت کے خناس کا شکار ہوگا تو اسی کی طرح تحقیر و نفرین کا حقدار ٹھہرے گا۔ بابا گورونانک سے منسوب مذہب کی حقیقت کیا ہے، محترم کالم نگار کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اس کیلئے سید افضل حیدر کی کتاب ”بابا نانک“ کا مطالعہ فرمالیں۔ اگر یہ کتاب انکی ذاتی لائبریری یا پنجاب آرٹس کونسل کی لائبریری (اگر کوئی ہے) میں موجود نہ ہو تو مجھ سے مستعار لے سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ کتاب بابا گورونانک کے فلسفہ¿ تکریم انسانیت کے حق میں لکھی گئی ہے مگر اس کتاب میں بابا گورونانک کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ بابا گورونانک ایک کھتری ہندو تھے جو کھتریوں اور اچھوتوں پر برہمن ہندوﺅں کے مظالم سے عاجز آکر ردعمل کے اظہار کے راستے ڈھونڈ رہے تھے۔ پھرگنگا جل میں اشنان کرتے، اور ایک لمبی ڈبکی لگاتے ہوئے ان پر کشف ہوا اور دینِ اکبری اور ملعون مرزا قادیانی کی طرح انکے دل میں بھی اپنے ساختہ دین کی شناخت و ترویج کا سودا سما گیا، مگر وہ مرتے دم تک شش و پنج میں ہی رہے کہ وہ ہندو دھرم میں ہی رہیں یا دینِ اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں۔ ان کے کسی قول و فعل سے ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ہندو دھرم سے تائب ہو گئے تھے۔کالم نگار موصوف نے تو اپنے دلائل کو وزنی بنانے کیلئے انکے دو حج کرنے کا تذکرہ بھی ضروری سمجھا ہے مگر کیا کسی غیر مسلم کے حرمین شریف کے وزٹ کو حج کہا جاسکتا ہے، جبکہ سید افضل حیدر نے تو بابا گورونانک کا وہ سبز چولا بھی دریافت کرلیا جس پر کلمہ¿ طیبہ، چاروں قل شریف اور دوسری قرآنی آیات کندہ ہیں مگر اس سب کے باوجود بابا گورونانک اس حقیقت کو نہ پاسکے کہ مذاہب کے درمیان وہ خود کہاں کھڑے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات سے آشنائی حاصل کرنے کے باوجود ہندو دھرم سے انکی وابستگی ترک نہ ہوسکی۔ محض توحید پر یقین کے اظہار سے تو کسی کو قربِ اسلام کے اعزاز سے نہیں نوازا جاسکتا۔ اگر بابا گورو نانک دینِ اسلام کو دینِ برحق سمجھتے تھے جیسا کہ انہوں نے اپنے ایک شعر میں پانچ نمازیں اور قرآن پڑھنے کی تلقین بھی کی تو وہ سیدھا سیدھا کلمہ پڑھ کر حلقہ¿ اسلام میں داخل ہوجاتے، انہیں کسی دینِ الٰہی کا سوانگ رچانے کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ درحقیقت انکا دور بھی اکبر بادشاہ اور مردود قادیانی کی طرح مسلمانوں کو گمراہ کرنے والا انگریز کے شرارتی ذہن کا دور تھا چنانچہ انکے ہاتھوں سکھ مذہب کی ایجاد بھی اسی شرارتی ذہن کی کارفرمائی نظر آتی ہے اس لئے سکھوں سے راہ و رسم بڑھانے کے خوش فہم حامیوں سے معذرت کے ساتھ، میں سکھ مذہب کو بھی فتنہ¿ قادیانیت جیسا ہی سمجھتا ہوں۔ اگر آج سکھ گوردواروں میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو ان سے پوچھ لیجئے کہ وہ خدائے وحدہُ لاشریک کی پوجا کرتے ہیں یا واہے گورو بابا گورونانک کی؟ اگر بابا گورو نانک ان کے خدا ہیں تو یہ خدائے وحدہُ لاشریک کے ساتھ سیدھا سیدھا شرک ہے۔ کیا کوئی مسلمان اس شرک کو قبول اور تسلیم کر سکتا ہے اور اگر گورو نانک سکھوں کے نبی یا پیغمبر ہیں تو ختم نبوت کے بعد ان کی پیغمبری یا نبوت کا اعلان کیا انہیں مرزا قادیانی کے ساتھ نہیں کھڑا کرے گا۔ سکھوں کی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کے انسانی ساختہ ہونے کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ اس کا ایک تہائی حصہ ہمارے بزرگ صوفی شاعر بابا فرید گنج شکرؒ کی شاعری پر مشتمل ہے جسے اشلوک بابا فرید کہا جاتا ہے۔ اگر گرنتھ صاحب الہامی کتاب نہیں اور بابا گورو نانک کا بطور نبی یا رسول نزول نہیں ہوا تو پھر ان کے سکھ مذہب کی کیا حیثیت ہے۔ اور اگر میاں نواز شریف اور محترم کالم نگار کے بقول سکھ بھی توحید پرست ہیں تو کیا ان کی عملی زندگی میں اس کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ کیا وہ خدائے وحدہ لا شریک کی بتائی گئی مکروہات و ممانعات کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرتے ہیں۔ وہ گوردواروں میں خدا کے آگے متھا ٹیکتے ہیں یا واہے گورو کے آگے؟ اگر وہ عبادت گروگرنتھ کے مطابق گورونانک کی کرتے ہیں تو وہ توحید پرست کیسے ہو گئے؟محترم کالم نگار نے بانگ درا سے علامہ اقبالؒ کے بابا گورو نانک کے بارے میں ایک شعر کا سہارا لے کر انہیں مسلمانوں کے لئے قابلِ قبول بنانے کی کوشش کی ہے تو حضور والا! غالب کا یہ شعر بھی بابا گورونانک کی شش و پنج میں پڑی کیفیت ہی کی عکاسی کرتا ہے کہ
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسہ مرے آگے
علامہ اقبالؒ تو دینِ اسلام کے بارے میں اتنے راسخ العقیدہ تھے کہ شریعت سے منحرف مسلمانوں کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ ان کا یہ شعر اس کی واضح دلیل ہے کہ
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
اگر کوئی دینِ اسلام کا مطالعہ کر کے علم و فضل کا ٹوکرا اٹھائے پھر رہا ہو مگر اس کی نیت میں فتور ہو تو اس کی حالت ایسی ہی ہو گی جیسے
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویوں، منوں نہ گئی پلیتی
جیہی نیتی تے جیہی نہ نیتی
محترم کالم نگار سے میرا سوال ہے کہ آیا شریعت ہمیں اس کی اجازت دے سکتی ہے کہ کسی کافر کو بادی النظر میں اس کی دین اسلام کے ساتھ محض رغبت کی بنیاد پر کلمہ گو مسلمان کا درجہ دے دیا جائے۔ حضرت نبی آخرالزمانﷺ کو اپنے چچا ابوطالب سے زیادہ اور کون عزیز ہو سکتا ہے کہ وہ کفار مکہ کی ہر سازش کے خلاف آپ نبی کریمﷺ کی ڈھال بنے رہے مگر اپنے قبیلہ کے تفاخر کے احساس میں مرتے وقت بھی انہوں نے کلمہ پڑھنے سے گریز کیا۔ آپ حضور نے ان کی نزع کی حالت میں ان کے کان میں فرمایا تھا کہ اب بھی کلمہ پڑھ لیں۔ آپ جنت میں میرے ہمراہی ہونگے۔ ابوطالب کی روح خطا ہو گئی مگر زبان سے کلمہ ادا نہ ہو پایا ۔ حضرت نبی کریم کی پرورش و حفاظت کرنے والی یہ ہستی اگر مسلمان کے مقام و مرتبہ سے محروم رہی تو محترم کالم نگار! بابا گورو نانک کس کھاتے شمار میں آتے ہیں۔ اور جناب یہ بھی جان رکھئے کہ سکھوں میں مسلمانوں یا پاکستان کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ اس وقت پیدا ہوا جب متعصب جنونی ہندوﺅں نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ:
کنگھا، کچھا، کڑا، کرپان
بھیج دیاں گے پاکستان
کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں کہ تقسیم ہند کے وقت سکھ مسلمانوں کی تحریک آزادی کا ساتھ دیتے تو گریٹر پنجاب کبھی تقسیم نہ ہوتا اور پاکستان بھارت کے درمیان سرحدوں کی کھینچی جانے والی لکیر کبھی واہگہ والی لکیر نہ بنتی۔ اسکے برعکس سکھوں نے تو اپنے مذہبی پیشوا بابا گورونانک کے گوردوارے سمیت ننکانہ کا پاکستان جانا قبول کر لیا اور لاہور میں موجود اپنے متبرک مقامات کی بھی قربانی دے دی مگر ہندو کا ساتھ نہ چھوڑا اور تقسیم ہند کے وقت مسلمانوں کے قتل عام میں جنونی ہندوﺅں کو بھی مات دے دی۔ خدارا۔ بھارت نوازی اور سکھ نوازی کے شوق میں ان مسلمان خاندانوں کے زخم ہرے نہ کریں جو انہی سکھوں کے ڈسے ہوئے ہیں ۔ سکھّوںکا مشرقی پنجاب میں بالخصوص اور باقی ہندوستان میں تقسیم کے وقت ریکارڈ کیسا تھا؟ ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمان خواتین مردوں اور بچوں کو قتل کیا ، خواتین کی بے حرمتی کی ،بے شمار مسلمان خواتین آج بھی ان کے بچوں کی ماں یا دادی نانی بن کر اپنی زندگی گزار رہی ہیں لاکھوں مندر میں کیس رکھ کر سکھ بنے۔ سیفما نے تو میاں نوازشریف کو گھیر گھار کر اپنے مالی فائدے وصول لئے ہیں، محترم کالم نگار جیسے میاں نوازشریف کے دانشمند عقیدت مند، ان کے علم ناآشنا موقف کی تائید کر کے اپنا ایمان کیوں خراب کر رہے ہیں۔ اب ذرا اپنے مولوی عبدالودود سے پوچھئے کہ وہ میاں نوازشریف کی اور آپ کی تاویلوں سے مطمئن ہے یا نہیں؟