ایک ایسے قومی منظرنامے اور بیرونی چیلنجز کے پس منظر میں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد کے مطابق ”مہنگائی‘ بیروزگاری‘ بدامنی اور لوڈشیڈنگ کے باعث عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے“ میاں محمد نواز شریف نے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ موجودہ اسمبلیاں توڑ دیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ چند ماہ پہلے بھی وہ صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کو نئے الیکشن کا مشورہ دے چکے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ لانگ مارچ کی نوبت آئے لیکن گزشتہ روز لاہور میں غریبوں کیلئے نئے گھر بنانے کی تقریب ”آشیانہ“ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ کراچی سے لیکر اسلام آباد تک لانگ مارچ میں عوام کے شانہ بشانہ جدوجہد سے گریز نہیں کریں گے۔ اب اپنے تازہ ترین بیان میں میاں نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ ملکی مسائل کا واحد حل فوری انتخابات ہیں۔ پاکستان کے اندر اور بیرون ملک تجزیہ نگاروں اور میڈیا کے مبصرین کے مطابق میاں صاحب کی طرف سے حکومت ہٹانے کیلئے عوامی طاقت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ کے اندر In House Change کا طریقہ کار یعنی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے مایوس ہو کر سڑکوں پر عوامی طاقت کے ذریعے حکومت گرانے کا طریقہ کار استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلے وفاقی سطح پر نظر ڈالی جائے تو موجودہ حکومت اگرچہ آئینی اور جمہوری طور پر 2008ءکے انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمران پیپلز پارٹی ایک دن بھی اپنے اتحادیوں مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے بغیر قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت قائم نہیں رکھ سکتی اسی لئے دن رات ایم کیو ایم کو رام کرنے کیلئے اس حد تک جا چکی ہے کہ صوبہ سندھ میں کراچی اور حیدر آباد کے دونوں بڑے ڈویژن میں بلدیاتی نظام اور باقی ماندہ سندھ میں انگریز کے دور کا بوسیدہ کمشنر سسٹم اور 19ویں صدی کا پولیس ایکٹ لاگو کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس پس منظر میں جبکہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اپنے آپ کو ایم کیو ایم کے رحم و کرم پر اس حد تک مجبور ہے کہ اسے سندھ اور وفاقی حکومت میں دوبارہ شامل کرنے کیلئے ہر شرط قبول کرنے کو تیار ہے تو وہاں سندھ کے عوام کی عوامی طاقت نئے انتخابات کی مہم میں مسلم لیگ (ن) کا کہاں تک ساتھ دے گی۔ کچھ ایسا ہی حال بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ کا ہے جہاں فی الحال مسلم لیگ (ن) ان صوبوں میں فیصلہ کن سیاسی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں صوبائی اور ضلعی سطح پر کوئی مضبوط پارٹی ڈھانچہ یا تنظیم نہیں رکھتی جو فوری نئے انتخابات کیلئے گراس روٹ سطح پر عوام کو منظم اور متحد کر کے سڑکوں پر لا سکے۔ اب باقی رہ گیا مسلم لیگ (ن) کی اصل سیاسی طاقت کا سرچشمہ صوبہ پنجاب اب اس کی موجودہ حالت سب پر عیاں ہے اور سرائیکی صوبہ کے علاوہ بہاولپور صوبہ محض ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ٹھوس ایسی سیاسی مہم کا حصہ بن چکی ہیں جس کے پیچھے بہت سی طاقتیں سر گرم ہیں۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کو بھی نئے صوبوں کے قیام کے بارے میں تائید کرنی پڑی ہے۔ بیشک ایسی تقسیم انتظامی سطح پر ہو اور اس کا لسانی یا فرقہ وارانہ یا دیگر کوئی بہانہ یا بنیاد نہ ہو لیکن صوبہ پنجاب کی تقسیم سے کیا مسلم لیگ (ن) مضبوط ہو گی یا کمزور اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ لیکن ایک بات ابھی سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہر نئے صوبے میں گورنر اور وزیر اعلیٰ کے علاوہ مجوزہ نئے وزیروں کی فہرستیں ابھی سے مختلف گروپ اپنے ڈرائنگ روموں میں تیار کر رہے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ایسے تمام امیدوار مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی سرپرستی کیلئے بیتاب ہوں۔ حصول طاقت کا جذبہ ایک بڑا اندھا اور بے رحم ایسا جذبہ ہے جو محض خود غرضی‘ خود پرستی اور خود نمائی پر مبنی ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف سے بہتر کون جانتا ہے کہ تخت کے حصول کیلئے بڑے بڑے پارسا حکمرانوں نے اپنے بھائیوں بلکہ باپ جیسی محسن شخصیت کو بھی نہیں بخشا۔ اس لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے کہ سڑکوں کی طاقت اگر ایک کرشمہ ساز قیادت کے تحت ہم آہنگ اور متحد نہ ہو جیسے تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ خیز عظیم قیادت کے نیچے ہندو اور انگریز کی شدید مخالفت اور سازشوں کے باوجود حصول پاکستان میں کامیاب و کامران ہو گئی تھی وگرنہ اگر ہر شعبے کے عوام اپنے اپنے مفاد کے حصول کیلئے وفاقی حکومت کو گرانے کی بجائے کہیں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا باعث نہ بن جائیں۔ میں ذاتی طور پر میاں محمد نواز شریف کے فوری نئے انتخابات کے مطالبے کا اصولی طور پر حامی ہوں لیکن مجھے ڈر صرف یہ ہے کہ ع
قافلہ حجاز میں ایک بھی حسینؓ نہیں
انہوں نے کہا ہے کہ چند ماہ پہلے بھی وہ صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کو نئے الیکشن کا مشورہ دے چکے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ لانگ مارچ کی نوبت آئے لیکن گزشتہ روز لاہور میں غریبوں کیلئے نئے گھر بنانے کی تقریب ”آشیانہ“ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے عوام کو یہ یقین دلایا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ کراچی سے لیکر اسلام آباد تک لانگ مارچ میں عوام کے شانہ بشانہ جدوجہد سے گریز نہیں کریں گے۔ اب اپنے تازہ ترین بیان میں میاں نواز شریف نے اعلان کیا ہے کہ ملکی مسائل کا واحد حل فوری انتخابات ہیں۔ پاکستان کے اندر اور بیرون ملک تجزیہ نگاروں اور میڈیا کے مبصرین کے مطابق میاں صاحب کی طرف سے حکومت ہٹانے کیلئے عوامی طاقت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ کے اندر In House Change کا طریقہ کار یعنی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے سے مایوس ہو کر سڑکوں پر عوامی طاقت کے ذریعے حکومت گرانے کا طریقہ کار استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلے وفاقی سطح پر نظر ڈالی جائے تو موجودہ حکومت اگرچہ آئینی اور جمہوری طور پر 2008ءکے انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمران پیپلز پارٹی ایک دن بھی اپنے اتحادیوں مسلم لیگ (ق) اور اے این پی کے بغیر قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت قائم نہیں رکھ سکتی اسی لئے دن رات ایم کیو ایم کو رام کرنے کیلئے اس حد تک جا چکی ہے کہ صوبہ سندھ میں کراچی اور حیدر آباد کے دونوں بڑے ڈویژن میں بلدیاتی نظام اور باقی ماندہ سندھ میں انگریز کے دور کا بوسیدہ کمشنر سسٹم اور 19ویں صدی کا پولیس ایکٹ لاگو کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ چنانچہ اس پس منظر میں جبکہ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی اپنے آپ کو ایم کیو ایم کے رحم و کرم پر اس حد تک مجبور ہے کہ اسے سندھ اور وفاقی حکومت میں دوبارہ شامل کرنے کیلئے ہر شرط قبول کرنے کو تیار ہے تو وہاں سندھ کے عوام کی عوامی طاقت نئے انتخابات کی مہم میں مسلم لیگ (ن) کا کہاں تک ساتھ دے گی۔ کچھ ایسا ہی حال بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ کا ہے جہاں فی الحال مسلم لیگ (ن) ان صوبوں میں فیصلہ کن سیاسی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں صوبائی اور ضلعی سطح پر کوئی مضبوط پارٹی ڈھانچہ یا تنظیم نہیں رکھتی جو فوری نئے انتخابات کیلئے گراس روٹ سطح پر عوام کو منظم اور متحد کر کے سڑکوں پر لا سکے۔ اب باقی رہ گیا مسلم لیگ (ن) کی اصل سیاسی طاقت کا سرچشمہ صوبہ پنجاب اب اس کی موجودہ حالت سب پر عیاں ہے اور سرائیکی صوبہ کے علاوہ بہاولپور صوبہ محض ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ٹھوس ایسی سیاسی مہم کا حصہ بن چکی ہیں جس کے پیچھے بہت سی طاقتیں سر گرم ہیں۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کو بھی نئے صوبوں کے قیام کے بارے میں تائید کرنی پڑی ہے۔ بیشک ایسی تقسیم انتظامی سطح پر ہو اور اس کا لسانی یا فرقہ وارانہ یا دیگر کوئی بہانہ یا بنیاد نہ ہو لیکن صوبہ پنجاب کی تقسیم سے کیا مسلم لیگ (ن) مضبوط ہو گی یا کمزور اس کا فیصلہ آنے والا وقت ہی کرے گا۔ لیکن ایک بات ابھی سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہر نئے صوبے میں گورنر اور وزیر اعلیٰ کے علاوہ مجوزہ نئے وزیروں کی فہرستیں ابھی سے مختلف گروپ اپنے ڈرائنگ روموں میں تیار کر رہے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ایسے تمام امیدوار مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی سرپرستی کیلئے بیتاب ہوں۔ حصول طاقت کا جذبہ ایک بڑا اندھا اور بے رحم ایسا جذبہ ہے جو محض خود غرضی‘ خود پرستی اور خود نمائی پر مبنی ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف سے بہتر کون جانتا ہے کہ تخت کے حصول کیلئے بڑے بڑے پارسا حکمرانوں نے اپنے بھائیوں بلکہ باپ جیسی محسن شخصیت کو بھی نہیں بخشا۔ اس لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے کہ سڑکوں کی طاقت اگر ایک کرشمہ ساز قیادت کے تحت ہم آہنگ اور متحد نہ ہو جیسے تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ خیز عظیم قیادت کے نیچے ہندو اور انگریز کی شدید مخالفت اور سازشوں کے باوجود حصول پاکستان میں کامیاب و کامران ہو گئی تھی وگرنہ اگر ہر شعبے کے عوام اپنے اپنے مفاد کے حصول کیلئے وفاقی حکومت کو گرانے کی بجائے کہیں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا باعث نہ بن جائیں۔ میں ذاتی طور پر میاں محمد نواز شریف کے فوری نئے انتخابات کے مطالبے کا اصولی طور پر حامی ہوں لیکن مجھے ڈر صرف یہ ہے کہ ع
قافلہ حجاز میں ایک بھی حسینؓ نہیں