ڈیلی ٹیلیگراف کے مطابق دونوں ممالک میں جلد ایک معاہدہ پر دستخط ہورہے ہیں جس کے تحت امریکی افواج کے نہ صرف تربیت دینے والےبلکہ فضائیہ سے تعلق رکھنے والے فوجی دستے بھی افغانستان میں رہیں گے۔ حامد کرزئی کی امن کونسل کے ایک رکن کے مطابق اس قسم کا معاہدہ طالبان کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اگرچہ امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا شروع ہوگیا ہے، تاہم افغانستان چاہتا ہے کہ امریکہ دوہزارچودہ کے بعد بھی خطے میں موجود رہے۔اخبار کے مطابق دونوں ممالک کے اہلکاروں کے مطابق مذکورہ معاہدے پر دستخط رواں برس جرمنی میں دسمبرکے مہینے میں ہونے والی کانفرنس سے پہلے کرلئے جائیں گے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ اور حامد کرزئی کے درمیان گذشتہ ماہ اس معاملے پر مذاکرات کوجلد مکمل کرنے پر اتفاق ہواتھا اوراس سلسلے میں دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان آئندہ ماہ واشنگٹن میں ملاقات بھی ہوگی۔ افغان صدرحامد کرزئی کے سکیورٹی کے اہم مشیررنگین دادفر کے مطابق اس سلسلے میں غیرمعمولی پیش رفت ہوئی ہے۔ رنگین دادفر کا کہنا تھا کہ افغان فورسزکو ابھی امریکی تربیت دینے والے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ امریکی فضائیہ کی مدد بھی درکار ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ امریکی افواج کے دوہزارچودہ کے بعد قیام کے دورانئے پربات چیت جاری ہے۔ دوسری طرف افغان امن کونسل کے ڈپٹی لیڈر عبدالحکیم مجاہد نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ ممکنہ معاہدے کی وجہ سے طالبان کی طرف سے کارروائیوں میں شدت آگئی ہے اوروہ انٹرنیشنل کمیونٹی اور افغان حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔