لندن مےں گذشتہ دنوں خوب رونقےں لگی رہی ہےں ”گرمی عشق“ سے لے کر اولمپک مقابلوں تک مختلف نوعےت کے نظارے اہل برطانےہ کے سالہا سال سے سردی اور برف سے ٹھٹھرے دلوں کو گرماتے رہے۔
دُنےا بھر سے آئے اولمپک کھےلوں سے لطف اندوز ہونے والے وہ شائقےن جنہوں نے لندن کی حسےن گرمی کا کبھی مزہ نہےں لےا تھا....اس گرمی سے پےدا ہونے والے نظاروں کو آنکھےں پھاڑ پھاڑ کر اس طرح دےکھتے رہے....جےسے انہوں نے کوئی شے دےکھ لی ہو ....جو عام گرمی مےں بھی نہےں دےکھی جاسکتی ؟ بہرحال ”آنکھ چونکہ چھوٹی سی چےز ہے اس لئے اولمپکس گےمز مےں اس چھوٹی سی شے نے بڑے بڑے عالم فاضلوں کو ”لاحول“ اور استغفراللہ پڑھنے پر مجبور کردےا۔
لندن 2012ءکی اولمپک گےمز اب بخےروعافےت اختتام پذےر ہوچکی ہےں جبکہ اولمپک کی دوسری گےمز کا اب آغاز ہونے کو ہے دوسری گےمز معذور افراد کی کھےلےں ہےں جنہےں Para Olympicsکے نام سے پکارا جاتا ہے اولمپکس گیمز کے دورانOLYMPIC VILLAGE کو میلے کا ماحول دیا گیا۔دنیا بھر سے آئے لاکھوں شائقین کو یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا گیا کہ ” کھیلوں کی سیکورٹی“ کیلئے فوج،ائر فورس،پولیس اور خفیہ ایجنسیاں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں....کھیلوں کے دوران تماشائیوں پر نہ تو ڈنڈے برسائے گئے.... نہ ہی اُن پر آنسو گیس پھینکی گئی.... نہ ہی پولیس اور فوجی دستوں نے لاٹھی چارج کیا.... اور نہ ہی پولیس کی گولی کا خوف اور ڈر تمام تماشائیوں کو بے چینی میں مبتلا کر سکا....؟
میں سوچ رہا تھا کہ کاش پاکستان کے وزارت داخلہ کے حکام اور بالخصوص اپنے رحمان ملک کچھ دن ” اولمپکس گیمز“ کے سیکورٹی انتظامات کے حوالے سے یہاں گزار لیتے زیادہ نہیں تو شائقین اور سیکورٹی فورسز کے مابین قائم خوشگوار تعلقات کا ہی اندازہ کر لیتے.... اگر یہ بھی ممکن نہیں تھا تو کم از کم نظم و ضبط اور کھیلوںکی تنظیموںکی شاندار منصوبہ بندی سے ہی استفادہ کرلیتے....؟ مگر افسوس! رحمان ملک لندن آئے ضرور لیکن وہ بھی ایک نئے محسوس شناختی کارڈ کے تعارف کیلئے ! جو برطانوی پاکستانیوں کو مستقبل قریب میں دئیے جانے کا امکان ہے....؟ میں سوچ رہا تھا کہ ” ہم تو کرکٹ میچ“ کروانے میں تاہنوز کامیاب نہیں ہوپارہے تو عوام کی حفاظت کا معاملہ تو ابھی بہت دور ہے....؟ میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ” پاکستان“ ”انگلستان“ نہیں .... جہاں سہولتوں اور سوسائٹی کے احترام کو ترجیح دی جاتی ہے ....مگر! میری سوچ یہ تھی کہ بحیثیت مسلمان ہم اگر اپنی اصلاح بھی نہیں کرسکتے تو پھر ہماری قومی شناخت کس طرح بحال ہوگی....؟ ان سوچوں سے ذہن جب واپس لوٹا! تو اپنی قومی ہاکی ٹیم کی انتہائی مایوس کن کارکردگی نے اپنی گرفت میں جکڑ لیا....اولمپکس میں ایک ہی تو امیدتھی.... جوبر نہیں آسکی....؟ یہ مت پوچھیں کہ ہماری ہاکی ٹیم کے ” سپر سٹارز“ کس طرح کھیلے ....بس مت پوچھیں! میں خود چونکہ پنجاب لیول پرباسکٹ بال کا کھلاڑی اور کالج ڈویژن سطح پر کپتان رہ چکا ہوں اس لئے کھیل کس طرح کھیلی جاتی ہے .... کھیل میں حریف پر کس طرح دباﺅ ڈالاجاتا ہے .... ہر پوزیشن پر مامور کھلاڑی کی ” شارٹس“ کا دورانیہ کیا ہوتا ہے .... بہت اچھی طرح جانتا ہوں.... شہر اقبالؒ کے جس کالج میں میں باسکٹ بال کھیلتا تھا اسی دور میں منظور جونیئر سابق اولمپئن شہناز شیخ اور زاہد شیخ ہاکی کھیلتے اور ” کھلاتے“ تھے ....اس لئے ” ہاکی“ کی ”تکنیکی شاٹس“ کو ہم بھی سمجھا کرتے تھے لیکن اولمپکس میں اپنی ہاکی ٹیم کے ” ستاروں“ کو جن تھکاوٹ، ” نان پریکٹس“ میں کھیلتے اب دیکھا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ قربان جائیں اختر رسول کی سوچ پر جنہوں نے فرمایا کہ ہمیں اب ” آگے سفر کرنا ہے “ شکست سے مراد یہ نہیں لینی چاہئے کہ ” ہاکی“ زوال کا شکار ہورہی ہے ....؟ بلکہ مزید محنت کرنی چاہئے اور جہاں تک میرے منیجر اور چیف کوچ کا معاملہ ہے تو اس بارے میں اس لئے بھی ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اپنی تمام تر توجہ اس رپورٹ مرتب کرنے پر مرکوز کی ہوئی ہے جس میں اولمپکس میں ٹیم کے شکست کے ” اسباب“ کا کھوج لگانا ہے ....؟ سبحان اللہ !کیا سوچ ہے....؟ بہرحال جرمنی نے اولمپک گولڈ میڈل جیت لیا ہے .... امریکہ سب سے زیادہ طلائی میڈل حاصل کرنے والا سرفہرست ملک جبکہ چائنہ دوسرے اور برطانیہ تیسرے نمبر پر ہے....معذوروں کی اولمپکس گیمز کے نتائج کیا ہونگے ....انتظار کریں۔