نماز عید الفطر مسجدِ نبوی میں

 اس بار روزے ساون کے مہینے میں آئے۔ حبس اور گرمی کے باوجو د اکثریت نے سعادت حاصل کی۔1995ءمیں مجھے پہلی مرتبہ رمضان المبارک میں عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی تو عیدالفطر مدینہ منورہ میں گزری۔ لاہور ہی سے میرے ہم سفر معروف نعت گو اور نعت خواں محمد علی ظہوری تھے۔گویا ظہور اور ظہوری کا ساتھ تھا۔رمضان المبارک میں مدینہ منور ہ میں افطار ی کے موقع پر خاص کیفیت ہوتی ہے۔ اس کیفیت کودیکھنے کا پہلی مرتبہ موقع ملا۔ اسلامی رواداری کے مناظر دیکھے۔
عرب امرا اور رﺅسا اپنے بچوں کو بھیجتے کہ وہ روزہ داروں سے درخواست کریں کہ آج افطاری ان کے دستر خوان پر کی جائے۔ عربی اور عجمی، کالے اور گورے ایک دستر خوان پر بیٹھ کر افطاری کرتے۔ یہ بھی ختمی مرتبت کی اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا منظر تھا جو رمضان المبارک میں نظر آیا۔
 افطاری کے وقت ہر دستر خوان پر انواع و اقسا م کی کھجوریں و افر مقدار میںپڑی ہوتی ہیں۔ایسی کھجوریں جو عام دنوں میں دکانوںپر بھی دکھائی نہیں دیتیں۔ جو کھجوریں بچ جاتیں،اکثر لوگ ڈبوں میں ڈال کر گھر لے جاتے۔میں نے سوچا کاش پاکستان میں کہیں تو اسلامی رواداری کا ایسا کوئی مظاہرہ دیکھنے کو مل جائے!
 یہاں ہر فرقے اور مسلک کے لوگ ایک امام کے پیچھے نماز کی ادائیگی کرتے ہیں مگر اپنے ملک میں آکر وہ فرقوں اور مسجدوں میں بٹ جاتے ہیں۔محمد علی ظہوری اور میںجب مسجدِ نبوی میں نماز عیدالفطر ادا کرنے گئے تو ممتاز نعت گو حفیظ تائب سے ملاقات ہوگئی۔کیا روح پرور منظر تھا۔روضہ¿ رسول کے قریب حفیظ تائب اور محمد علی ظہوری کی معیت میں نماز عیدالفطر ادا کی۔مدینہ منورہ میں ایک نظم کہی تھی۔ آخری تین شعر ملاحظہ کریں....
میں دُعا کیتی سی ربّا موت اودوں تک نہ دے
روضہ جد تک آوے نہ میری نظر دے سامنے
مسجد نبوی دے تھم نال بہہ کے لکھ لئی نعت میں
لے کے آیا نال اپنے نور دی سوغات میں
عید وی سرکار دے قدماں چ لنگھی ایس وار
 میریاں اکھاں نے ویکھی اے مدینے دی بہار
 نماز عید سے فارغ ہوئے تو حفیظ تائب نے عید کے حوالے سے یہ نظم سنائی ....
 سرکار! التفات کی عیدی ملے مجھے
پروانہ¿ نجات کی عیدی ملے مجھے
 رائج مرے وطن میں ہو دستور آپ کا
 آقا! نئی جہات کی عیدی ملے مجھے
 کشمیریوں کو تحفہ¿ آزادی¿ وطن
 ایمان کے ثبات کی عیدی ملے مجھے
 جن سے چمک چمک اٹھے بے نور کائنات
 ایسی تجلیات کی عیدی ملے مجھے
شہریتِ مدینہ سے تائب ہوسرفراز
ہردم تو جہات کی عیدی ملے مجھے
مدینہ منورہ کی گلیوں اور بازاروں میں چلتے ہوئے میں ان راہوں کو غور سے دیکھتا جن پر رسول اللہ کے قدموں کے لمس نے کہکشاں سے بھی زیادہ بلند مرتبہ بنادیا۔ ان گلیوں سے اس عظیم المرتبت شخصیت کا گزر ہوا جس کی بدولت دنیا میں ایک ایسا انقلاب آیا جو اس سے پہلے آیا نہ اس کے بعد کبھی آئے گا۔ اور بقول گبن
”جس نے اقوام عالم (کے قلب) پر ایک نرالا لیکن دائمی نقش ثبت کر دیا“۔

ای پیپر دی نیشن