پانی اور ہوا اس کرہ ارض کے ہر جاندار کے لئے ضروری ہے کہ اس کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور آنے والے دور کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ آئندہ دنیا میں جنگیں پانی کے مسئلے پر ہی لڑی جائیں گی۔ برصغیر میں پانی کی اہمیت ہمیشہ رہی ہے خاص طور پر پاکستان کی آزادی کے بعد پاکستان کی زراعت کا انحصار بھی دریائی پانی پر تھا اور دریاﺅں کا منبع بھارت کے زیر کنٹرول تھا اور اس نے آہستہ آہستہ دریاﺅں پر ڈیم بنانے کا آغاز کر دیا اور پاکستان کو بنجر بنانے کے لئے کمر بستہ ہو گیا۔گزشتہ دنوں ایک برطانوی اخبار نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستان سمیت چار ایشیائی ممالک چار سو سے زائد ڈیمز بنائیں گے جن میں بھارت 292 چین ایک سو، نیپال 13 اور پاکستان نو سے زائد ہائیڈرو الیکٹرک منصوبے بنا رہے ہیں۔ اخبارگارجین نے اپنی رپورٹ میں بتایا دیا کہ دنیا کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلے میں ان ڈیموں کی تعمیر خطے اور ماحول کےلئے تباہی لا سکتی ہے۔ ایشیاءمیں آبی وسائل پر قبضے کی خطرناک علاقائی دوڑ جاری ہے ہمالیہ کا مستقبل وسیع ڈیموں کے تعمیری منصوبے کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہے۔ بھارت نیپال بھوٹان اور پاکستان ہمالیہ کے آبی وسائل کو حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔
اگر چار سو سے زائد ڈیمز مکمل ہو گئے تو مجموعی طور پر ان سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکے جو برطانوی استعمال سے تین گنا ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 2050ءتک گلیشیئر کے بہاﺅ میں بیس فیصدی کمی ہو جائے گی اس سے پانی کی کمی کے ساتھ خطے میں کشیدگی میں بھی اضافہ ہو گا۔ آئندہ بیس برس میں ہمالیہ دنیا کا خطرناک حصہ بن جائے گا۔ چین پاکستان کی میگا ڈیمز بنانے میں مالی مدد کر رہا ہے۔ بھارتی ڈیمز منصوبوں سے بنگلہ دیش بھی خوفزدہ ہے بنگلہ دیشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی اقدام سے دریاﺅں میں پانی دس فیصد کم ہو جائے گا اور وہ بنگلہ دیش کو بنجر بنائے گا جبکہ صورت حال یہ ہے کہ بھارتی ڈیمز سے بنگلہ دیش بنجر ہو نہ ہو بھارت پاکستان کو بنجر بنانے پر تلا ہوا ہے اس کے مکروہ عزائم اس بات سے بھی عیاں ہوتے ہیں کہ اس نے دریائے چنا ب پر مزید پانچ ڈیمز بنانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ان ڈیمز کا افتتاح حال ہی میں بھارتی صدر نے کیا تھا ان ڈیمز کی تعمیر سے دریائے چناب پر بیس فیصد پانی کی کمی متوقع ہے جبکہ ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ ایوب خاں کے بعد ڈیموں کی تعمیر پر بحث و مباحث تو زور و شور سے ہوئے مگر عملی طور پر کوئی کام نہ کیا گیا۔ کالاباغ ڈیم جیسا اہم منصوبہ گزشتہ دور حکومت میں ختم ہی کر دیا گیا۔
اگر دیکھا جائے تو آج کالا باغ ڈیم کی جتنی ضرورت پاکستان کو ہے اس سے پہلے نہ تھی اگر یہ ڈیم بن جاتا تو بجلی کے بحران کے ساتھ آج سیلابی پانی سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ ہر سال پانی سمندر میں گر رہا ہے مگر ہم نے اس حوالے سے کوئی قدم نہ اٹھایا۔
اب موجودہ حکومت مسلم لیگ (ن) کی ہے اور تیسری بار منتخب ہونے والے وزیراعظم میاں نواز شریف اس دور سے مثبت اقدام کریں گے کیونکہ دیگر ڈیمز کے ساتھ کالا باغ ڈیم ہی وقت کی ضرورت ہے اب بھی اس پر عملی اقدام شروع کر کے پاکستان کو حقیقی معنوں میں سرسبز پاکستان بنایا جا سکتا ہے ورنہ بھارت نے پاکستان کو بنجر بنانے کے لئے عملی اقدامات کا آغاز کر دیا ہے اسے روکنے کے بھی عالمی سطح پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک آواز ہو کر تمام عالمی دباﺅ کو نظر انداز کرتے ہوئے کالا باغ ڈیم کی فوری تعمیر کا فیصلہ کریں تاکہ آنے والے وقت روشن پاکستان کی حقیقی شکل میں سامنے آئے اگرچہ بھارتی خواہش پر بکنے والے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کرتے رہیں گے مگر حکمرانوں کو تمام باتوں کو نظر انداز کرکے کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر فوری توجہ دینی ہو گی اگر اس پر ریفرنڈم بھی کروا لیا جائے تو یہ معلوم ہو جائے گا کہ تمام صوبوں کے عوام کالا باغ ڈیم کی تعیمر چاہتے ہیں۔