ووٹ کی طاقت پر عوام کے اعتماد کو دھچکا لگا ہے

Aug 20, 2013

کنور دلشاد....شاہراہ دستور سے

عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے سپریم کورٹ اس معاملہ کو آئین کے آرٹیکل 225کے تحت براہِ راست نہیں اُٹھا سکتی جیسا کہ عمران خان چاہتے ہےں کہ الیکشن کمیشن میں دھاندلی کے معاملہ کو سپریم کورٹ میں سنا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت جب تک وہ عدالت عظمیٰ کو مکمل طور پر یقین نہ دلا دیں۔ آئین کی مذکورہ شق کے تحت اگر سپریم کورٹ سمجھے کہ معاملہ مفاد عامہ کا ہے اور بنیادی حقوق کے متاثر ہونے کا جواز موجود ہے تو اس صورت میں سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ حکم جاری کر سکتی ہے۔ دوسرا آئینی راستہ ےہ ہے کہ سپریم کورٹ کسی بھی معاملہ کو از خود نوٹس لینے کا اختیار رکھتی ہے۔ تیسرا طریقہ اس صورت میںنکلتا ہے کہ اگر معاملہ کے لئے کوئی اپیل دائر کرے تو سپریم کورٹ کو اس میں مداخلت کرنے کا اختیار ہے۔ اب جب کہ تحریکِ انصاف نے اپنے کیس کو الےکشن ٹریبینولز کے پاس لے جاکر سپریم کورٹ آف پاکستان کی مداخلت کا امکان ختم کر دیا ہے۔ پاکستان کے سیاسی قائدین کو عوامی نمائندگی اےکٹ 76کی دفعہ 52سے 60تک کا مطالعہ کرنا چاہےے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے الزامات کی تفصیلی انکوائری سامنے نہیں لاسکے۔ اس وقت تک تمام معاملات کے سامنے نہ ہونے کے باعث سپریم کورٹ بھی اس کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ الےکشن قوانین میں اس قدر ابہام ہے، ےہ طے کرنا ناممکن ہے کہ کس امیدوار نے الےکشن کے دوران بوگس ووٹ ڈلوائے کیونکہ ےہ پیچیدہ طریقہ ہو گا کیونکہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 52کے تحت اگر امیدوار پولنگ سے متعلق اپنے تحفظات ظاہر کرے اور پٹیشن دائر کرے تو اسی صورت میں دوبارہ الےکشن کروائے جائیں گے۔ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کےلئے الےکشن ٹریبونلز سے رجوع کرنا ہی مناسب فورم تھا جیسا کہ انہوں نے کیا۔ لےکن وہ متعلقہ الےکشن ٹریبونلز کے فیصلوں پر رضامندی کےلئے تیار نہیں ہےں۔ چنانچہ ان حالات میں اس فیصلے سے اختیار بھی الےکشن ٹربیونلز کو ہی ہو گا کہ بیلٹ پیپرز نادرا کے ذرےعے ووٹرز کے انگوٹھے کے نشان کو چیک کیا جائے۔ الےکشن کمیشن آف پاکستان کے حوالہ کے مطابق تحریکِ انصاف نے انگوٹھوں کے نشان چیک کرنے کے حوالہ سے الےکشن ٹربیونلز کو جوابی عذر داریاں دائر کی ہےں ، بالخصوص عمران خان کے اپنے چار انتخابی حلقوں میں بائیو میٹرک سسٹم کے تحت چیکنگ کا جو مطالبہ کیا ہے۔ الےکشن ٹربیونلز کے لئے ان معاملات پر فیصلہ کرنا زیادہ مشکل طلب کام نہیں ہے۔ اگر روزمرہ کی بنیاد پر بھی کاروائی کی جائے تو چار ماہ میں اس پر فیصلہ کرنا ہو گا کیونکہ عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 55کے مطابق تمام عذرداریوں کے فیصلے 120دنوں میں کرنے لازمی ہےں۔ اگر ٹربیونلز تحریکِ انصاف کی درخواست کو درست قرار دے دیتی ہے تو بیلٹ پیپرز پر انگوٹھے کے نشان کی تصدیق کا حکم جاری کر سکتے ہےں۔ دوسری صورت میں تحریکِ انصاف آرٹیکل 67(3)کے تحت اس حکم کے 30دن کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل کر سکتی ہے جس کے بعد عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ حتمی ہو گا۔ جب کہ عمران خان تمام تر قانونی باریکیوں اور اہم نکات کو پسِ پشت رکھ کر معاملہ کو سپریم کورٹ میں لانا چاہتے ہےں۔ چیف الےکشن کمشنر کے مقرر کردہ الےکشن ٹربیونلز میں ہر ٹربیونل میں شامل افراد ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچے ہوئے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہوتے ہےں۔ ٹربیونلز کے پاس بے شمار اختیارات ہوتے ہےں۔ وہ منتخب ایسے امیدوار کو نا اہل بھی قرار دے سکتے ہےں جس کے بارے میں معلوم ہو کہ قرض نادہندہ ہے۔ ٹیکس ادا نہیں کئے اور ادائیگیوں کی غلط تفصیل جمع کرائی ہو۔ اثاثوں میں ہیر پھیر کر کے غلط ظاہر کیا ہو۔ الےکشن ٹربیونلز کے پاس ےہ اختیار بھی ہوتا ہے کہ اگر اسے کسی امیدوار کے بارے میں معلوم ہو کہ مذکورہ امیدوار جس کے لئے کاغذاتِ نامزدگی منظور کئے گئے ہےں قرض نادہندہ ہے یا حکومت سے قرض لیکر معاف کروا چکا ہے تو اےسے امیدوار کو شو کاز نوٹس بھی جاری کر سکتا ہے اور اگر ٹربیونلز کو ےہ یقین ہے کہ مذکورہ امیدوار نادہندہ ہے تو وہ اس کے کاغذات مسترد کرنے کا بھی اختیار رکھتے ہےں اور اگر ٹربینولز کے علم میں ےہ بات آتی ہے یا کسی بھی ذرےعے سے اسے ےہ معلوم ہو جائے کہ جیتنے والا امیدوار نادہندہ پایا گیا ہے۔ ٹیکس ادا نہیں کئے۔ حکومتی واجبات دبا کر بیٹھا ہے۔ اپنے اثاثے ظاہر نہیں کئے تو اس بات کا ٹربیونل کو اختیار ہو گا کہ وہ اس الےکشن کو منسوخ قرار دے دے اور اگر ٹربیونل کو اس بات کا یقین ہے کہ مذکورہ امیدوار جرم میں ملوث ہے تو مقابلے میں موجود دوسرا امیدوار منتخب قرار دے سکتا ہے۔
نیب کے نئے چےئرمین کے تقرر کے بعد سپریم کورٹ کے مقررہ کردہ جسٹس جمشید کمیشن کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے گا جس کے مطابق پاکستان کی صفِ اول کی قیادت نے اربوں روپے کے قرضے مختلف ادوار میں معاف کرائے اور بعض اہم سیاسی شخصیات سٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ کی روشنی میں نادہندہ ہےں اور مئی 2013کے انتخابات میں الےکشن کمیشن آف پاکستان کے تقرر کردہ ریٹرنگ آفیسران نے آئین کے آرٹیکل 62اور 63کی روح کے مطابق کاغذاتِ نامزدگی کے موقع پر جانچ پڑتال نہیں کی اور الےکشن ایلیٹ ٹربیونلز نے بھی نرم پالیسی اختیار کرتے ہوئے کم و بیش 24ہزار کے لگ بھگ امیدواروں کو انتخابی عمل سے گزار دیا۔ پاکستان کی جس شخصیت کو بھی چےئرمین مقرر کیا گےا وہ انتہائی ایمانداری سے ، غیر جانبداری سے اور سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ کیونکہ اس وقت پورے ملک میں جو کرپشن کی آگ لگی ہوئی ہے اس کو ایندھن ہمارے پارلیمان کے وہ گروہ فراہم کر رہے ہےں جو ریٹرنگ آفیسران کی کوتاہی اور نظر اندازی سے ملک کے انتخابات میں حصہ لینے کےلئے اہل ہو گئے تھے اور جانچ پڑتال کے عمل نے پوری قوم کو مایوس کر دیا مسئلہ ام المسائل کی صورت اختیار کر گیا جس سے مجھے پورے پاکستان کا وجود خطرے میں نظر آرہا ہے ۔ کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد میاں نواز شریف کی ترجیحات بدل گئی ہےں۔ ےہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ آرمی چیف اور صدر زرداری خاموشی سے منظر عام سے ہٹ رہے ہےں۔ 11مئی 2013ءکے عام انتخابات اور 30جولائی 2013کے صدارتی انتخابات کے بعد پاکستان بحرانوں سے نکل نہیں پایا۔ زمینی حقائق ےہ ہےں کہ ووٹ کی طاقت پر لوگوں کے اعتماد کو بہت دھچکا لگا ہے اور جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم پر عوام نے بے پناہ اعتماد کیا تھا لےکن حقیقی جمہوری اور عوامی سیاست کرنے والے اپنی جانیں بچاتے پھر رہے ہےں ان کےلئے آخری موقع ہے کہ وہ قوم کو سب کچھ بتا دیں ، ورنہ معاملہ تاریخ کے سپرد ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ اگر آئین کو بچانا ہے تو ریاست ٹوٹتی تھی اور جب ریاست کو بچایا تو آئین ٹوٹ گیا۔ آج پاکستان جس بحران سے گزر رہا ہے تو آئین اور ریاست دونوں پُر خطر راستے پر تیزی کے ساتھ گامزن ہےں۔

مزیدخبریں