آئی جی پنجاب بھکر سے لاپتہ 2 بھائی‘ ایف سی پشاور سے گرفتار مصطفی کو پیش کرے: سپریم کورٹ

Aug 20, 2013

اسلام آباد (وقائع نگار) سپریم کورٹ نے لاپتہ شخص غلام سجاد احمد کی ملتان کینٹ کے مبینہ انٹرٹینمنٹ سینٹر میں عدم موجودگی سے متعلق فوج کے کسی ذمہ دار افسر کا بیان حلفی طلب کر لیا ہے۔ آئی جی پنجاب کو حکم دیا ہے کہ وہ بھکر سے لاپتہ کئے گئے دو بھائیوں کو بازیاب کراکر پیش کریں۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی نے کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ غلام سجاد کے بارے میں میں نے رپورٹ حاصل کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ قاسم بیلہ ملتان کینٹ میں نہ تو کوئی ایسا سینٹر ہے نہ ہی یہ شخص وہاں ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا اس کی وہاں موجودگی کے حوالے سے بیان حلفی جمع کرایا گیا تھا جس کا جواب تو بیان حلفی ہی ہو سکتا ہے بھکر سے لاپتہ کئے گئے دو بھائیوں ملازم حسین اور عبیداللہ کے حوالے سے طارق کھوکھر نے بتایا کہ سیشن جج کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزار نے کسی حساس ادارے پر شک کا اظہار نہیں کیا بلکہ ذمہ دار پولیس کو قرار دیا ہے اس پر عدالت نے آئی جی پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ وہ بازیاب کراکے عدالت میں پیش کریں۔ مزید سماعت 28 اگست تک ملتوی کر دی گئی۔ پشاور سے لاپتہ ہونے والے مصطفی اعظم کی بازیابی کے حوالے سے مقدمے کی سماعت 22 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے ایف سی کو مبینہ طور پر مصطفی اعظم قرار دیئے جانے والے نوجوان کو پیش کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ عدالت طویل عرصہ سے زیر التوا اس مقدمے کو جلد نمٹانا چاہتی ہے۔ ضرورت محسوس کی گئی تو عدالت نوجوان کی شناخت کا معاملہ کرنے کے لئے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی ہڈایت کرے گی لاپتہ ہونے والے نوجوان کے والد اعظم خان نے عدالت کو بتایا کہ 2007 میں پشاور میں بم دھماکے کے بعد ایف سی نے ان کے بیٹے مصطفی اعظم کو جائے حادثہ سے گرفتار کیا جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہے جس کی میں نے ایف آئی آر بھی درج کرائی تھی انہوں نے عدالت کو اپنے بیٹے کی گرفتاری کی تصاویر بھی پیش کیں اور بتایا کہ گرفتاری کے بعد بھی بعض ذرائع نے اس امر کی تصدیق کی کہ مصطفی ایف سی کے پاس ہے تاہم عدالت کے استفسار پر ایف سی ہیڈ کوارٹر کے میجر فرخ جاوید نے عدالت کو بتایا کہ مصطفی کو گرفتاری کے بعد رہا کیا گیا تھا جس نوجوان کی تصاویر عدالت کو دکھائی گئی ہیں یہ مصطفی نہیں ہے بلکہ حمزہ جاوید ہے جو ایک مقدمے میں زیر حراست ہے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیا معاملہ کیس کراچی میں رجسٹرڈ کیا گیا اور بندہ پشاور سے گرفتار کیا جا چکا ہے عدالت کو بتایا کہ اس وقت یہ نوجوان کس کی تحویل میں ہے اعظم خان کے وکیل نے کہا کہ بندہ ایف سی کی تحویل میں ہے تاہم اس کی شناخت کا معاملہ بن گیا تھا جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ شناخت کا مسئلہ کیوں بنایا گیا جب کہ فزانزک رپورٹ کے مطابق یہ نوجوان 80 فیصد مصطفی اعظم ہے چیف جسٹس نے ایف سی کے میجر سے کہا کہ نوجوان جو بھی ہے اسے عدالت کے روبرو پیش کرنا ان کی ذمہ داری ہے یہ فیصلہ عدالت کرے گی کہ وہ مصطفی اعظم ہے یا حمزہ جاوید ضرورت محسوس ہوئی تو اس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جا سکتا ہے والد اسے اپنا بیٹا قرار دے رہا آپ اسے حمزہ کہہ رہے ہیں یہ ہم دیکھیں گے کہ وہ کون ہے، عدالت کو بتایا گیا کہ نوجوان کے ساتھ دوسری تصویر انسپکٹر بشیر ڈار کی ہے جس پر عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر مبینہ طور پر مصطفی کو انسپکٹر سمیت پیش کیا جائے سپریم کورٹ ن۔ے اس حوالے سے آئی جی ایف سی کی رپورٹ مسترد کر دی۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ فوٹوگراف میں ایف سی کی حراست میں موجود نوجوان مصطفی اعظم ہے اسے اعظم خان بیٹا قرار دیتا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس 2007 سے زیر التوا ہے ہم چاہتے ہیں کہ اس کیس کو جلد از جلد نمٹایا جائے انہوں نے میجر فرخ اکرام کو ہدایت کی کہ وہ آئی جی ایف سی کو عدالتی احکامات سے آگاہ کریں اور نوجوان کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کریں۔ آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے مصطفی اعظم لاپتہ کیس میں آئی جی ایف سی کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے اسے 22 اگست کو پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بصورت دیگر عدالت اپنا فیصلہ جاری کرے گی جبکہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ایف سی افسروں کو عدالت میں پیش ہونے کا بھی سلیقہ نہیں، آدھی آستین والی شرٹ پہن کر وہ کس طرح عدالت میں پیش ہو سکتے ہیں ، نوجوان کا والد جب خود تسلیم کر رہا ہے کہ ایف سی نے اس کے بیٹے اعظم کو اٹھایا ہے حمزہ جاوید کا معاملہ اس سے مختلف ہے، انسپکٹر بشیر ڈار کو بھی عدالت میں پیش کیا جائے تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائیگا، ایف سی والے بغیر کسی بیان اور ضابطہ دہشت گردی میں گرفتار کسی بھی شخص کو کیسے رہا کر سکتے ہیں؟ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ تصاویر اور ویڈیوز میں جن میں مصطفی اعظم ایف سی کی تحویل میں ہے۔ ایف سی کے میجر نے بیان دیا کہ مصطفی اعظم کو پشاور میں بم دھماکے کے موقع پر پکڑا گیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایف سی کی تحویل میں موجود مصطفی اعظم کو پیش کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے یہ ہدایت بھی کی کہ ایف سی میجر نے فرح اکرام حکم سے آئی جی ایف سی کو آگاہ کریں۔

مزیدخبریں