انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں کو مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں : نوازشریف

Aug 20, 2013

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ مذکرات ہوں یا طاقت کا استعمال ہم دہشت گردی کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں، دہشت گردی کو مذاکرات یا طاقت کے ذریعے خاتمے پر تمام ادارے اور پوری قوم یکسو ہے۔ انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں کو مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں، قوم کی دعاؤں سے 5 سال میں لوڈ شیڈنگ کے بحران پر قابو پا لیں گے، ٹی وی ریڈیو پر 14 سال بعد قوم سے پہلے خطاب میں وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ایک سے زیادہ آپشنز موجود ہیں، مگر دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ایسا راستہ اختیار کیا جائے جس سے خون خرابہ نہ ہو۔ وزیراعظم کی حیثیت سے ملک کے عوام میرے بچوں کی طرح ہیں۔ آگ و خون کا دریا بند ہونا چاہئے میں روز روز بچوں کے جنازے نہیں اٹھا سکتا۔ ملک کی خارجہ پالیسی نظرثانی کا تقاضا کرتی ہے، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کا حل ہر پاکستانی کی طرح مجھے بھی عزیز ہے، پاکستان اور بھارت کو خطے میں غربت، جہلات اور پسماندگی سے نجات دلانے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا، جنگوں نے ہمیں پیچھے دھکیل دیا ہے، ہم بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک کو احساس ہونا چاہئے کہ اپنی توانائیاں بے کار جنگوں کی بجائے غربت اور بیماریوں کے خاتمے پر صرف کر دیں۔ ماضی کی جنگوں نے ہمیں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ پاکستانی قوم ملکی دفاع کے لئے اپنی بہادر فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ ڈرون حملے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کو ڈرون حملے روکنے کا کہا ہے، انہوں نے کہا کہ افغانستان کے امن کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔ بلوچستان کی دھرتی آگ اور خون کے کھیل کا حساب مانگتی ہے۔ بلوچستان کو نظرانداز کرنے کے دن گزر چکے۔ ملک کو درپیش چیلنجوں کے حل کیلئے مشکل اور اہم فیصلے کرنے پڑیں گے، قوم کو یقین دلاتاہوں کہ معاشی پالیسیوں، دہشت گردی کے تدارک اور توانائی کے بحران کو حل کرنے کے معاملات پر کوئی سیاست نہیں کریں گے، مادروطن کا روشن مستقبل اور عوام کی خوشحالی ایک مضبوط اور مستحکم معیشت کے بغیر ممکن نہیں۔ وزیراعظم نیتقریباً ایک گھنٹہ تک قوم سے خطاب میں دہشت گردی، توانائی کے بحران، خارجہ امور، بلوچستان کی صورتحال، سیلاب، صحت، تعلیم، رہائش سمیت ملک و قوم کو درپیش مختلف امور پر کھل کر اظہارخیال کیا۔ انہوں نے کہا آج قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے میرا دل اللہ تعالیٰ کے حضور بے پایاں شکر کے جذبات سے لبریز ہے۔ میں دل کی گہرائیوں سے قوم کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اور میری جماعت کو اپنے اعتماد سے نوازا ۔ میرے نزدیک یہ اعتماد ایک عظیم ذمہ داری بھی ہے اور مقدس امانت بھی۔ جون میں حلف اُٹھانے کے فوری بعد قوم سے خطاب کرنا چاہتا تھا تاکہ وطن عزیز کی تعمیرو ترقی کے لئے اپنے ارادوں سے آگاہ کرسکوں لیکن حکومت سنبھالنے کے بعد معاملات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ حالات میرے اندازوں سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا تقاضا یہ تھا کہ تقریروں کی بجائے گزشتہ چودہ برسوں کے دوران پاکستان کو لگائے جانے والے زخموں کی وُسعت اور گہرائی کے جائزے اوران زخموں کے علاج کے لئے مؤثر تدابیر کو اولین ترجیح بنایا جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اڑھائی ماہ کی اس مدت میںایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جب ہم نے پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے بارے میں نہ سوچا ہو۔ کوئی دن ایسا نہ تھاجب ہم اپنے پیارے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے، لوڈ شیڈنگ سے نجات اور دیگر مسائل کے حل کی حکمت عملی کے لئے سر جوڑ کر نہ بیٹھے ہوں۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرانی چاہیئںکہ پاکستان کو اس وقت سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے ہمارے قومی وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے تو دوسر ی طرف بد ترین لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ہماری معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ گذشتہ چودہ برسوں کے دوران شدید بد انتظامی، ہر شعبہ میں پھیلی کرپشن، نااہلی، اقربا پروری اور ناقص فیصلوں نے ملک کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ پی آئی اے ہو یا پاکستان ریلوے، پاکستان سٹیل ہو یا واپڈا، کسی بھی ادارے پر نظر ڈالیں سب کے سب بدحالی اور تباہی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔یہ وہ ادارے ہیں جن پر کبھی ہمیں ناز ہوا کرتا تھا۔کبھی قومی خزانے میں حصہ ڈالنے والے یہ ادارے آ ج ملک کوسالانہ قریباً 500 ارب روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔یعنی صرف گذشہ پانچ برس کے دوران یہ ادارے 2500 ارب روپے ہڑپ کر چکے ہیں۔ یہ سارا پیسہ عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے۔ اگر یہ پیسہ ضائع نہ کیا جاتا تو اس رقم سے ایک نئی پی آئی اے اور ایک نئی ریلوے کھڑی ہو سکتی تھی۔ کراچی سے لاہور تک ایک نئی موٹروے تعمیر کی جاسکتی تھی۔ عوام کے لئے 20 لاکھ سے زائد گھر بنائے جاسکتے تھے ۔ پاکستان بھر کے دیہات کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جاسکتا تھا۔ بیسیوں شاندار یونیورسٹیاں اور ہسپتال بنائے جاسکتے تھے۔ یہی نہیں اتنی رقم سے بجلی کے بحران پر ہمیشہ کے لیے مکمل قابو پایا جاسکتا تھا۔ 1999ء میں ہماری حکومت کے خاتمہ تک پاکستان کے مجموعی قرضے صرف 3 ہزار ارب روپے تھے جو گزشتہ چودہ برس میں یہ قرضے بڑھ کر تقریباً چودہ ہزار پانچ سو ارب ہو چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس قرض کی بھاری قسطیں ادا کرنے کیلئے ہم مزید قرض لینے پر مجبور ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ملک خدانخواستہ دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ میں گذشتہ برسوں کی کرپشن کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔ وزیراعظم نے بد عنوانی ، بے حسی اور لوٹ مار پر مبنی دو مثالیںقوم کے سامنے پیش کیں جن کا تعلق براہ راست بجلی کی پیدا وار اور لوڈ شیڈنگ سے ہے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ نندی پور میں 2007ء میںچین کی ایک کمپنی کے تعاون سے بجلی گھر لگانے کے منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ اس منصوبے کی تنصیبات اور مشینری کی درآمد پر اربوں روپے صرف کیے گئے ۔ یہ وہ وقت تھا جب عوام شدید لوڈ شیڈنگ کے سنگین عذاب سے دوچار تھے اور بجلی کے ایک ایک یونٹ کو ترس رہے تھے لیکن چند افراد کی حرص و ہوس نے اس منصوبے کا راستہ روک لیا ۔ اربوں روپے کی مشینری کراچی پورٹ پر پڑی تباہ ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ اُس کی کیبل کا تانبا تک چور ی کرلیا گیا۔ یوںچار سو پچیس میگا واٹ کا یہ پراجیکٹ تباہی وبربادی کا شکار ہوگیا۔ ہم نے حکومت میں آنے کے بعد بغیر کوئی وقت ضائع کئے اس منصوبے پر کام کا دوبارہ آغاز کیا۔ لیکن اس عرصہ میںمنصوبے کی لاگت تئیس ارب روپے سے بڑھ کر اُنسٹھ ار ب روپے تک پہنچ چکی ہے۔یعنی اب پاکستان کو اس پراجیکٹ پر نہ صرف چھتیس ارب روپے زائد صرف کرنا پڑ رہے ہیںبلکہ منصوبے کی تکمیل میں بھی تقریباََ چھ سال کی تاخیر ہو جائے گی۔ نیلم جہلم منصوبے کی داستان بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ کئی برس پہلے شروع کیے جانے والے نو سو ستر میگاواٹ کے اس منصوبے کوچھ برس میں مکمل ہونا تھا لیکن قومی اہمیت کے اس پراجیکٹ کو بھی جس طرح بدانتظامی، بے حسی اور نااہلی کی بھٹی میں جھونک دیا گیا اسکی تفصیلات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ پچاسی ارب روپے کے اس منصوبے پراب دو سو چوہتر ارب روپے صرف کرنا پڑیں گے۔ انہوں نے کہاکہ انہوں نے یہ منصوبہ 2016ء تک مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عوام کے لئے شاید اس بات پر یقین کرنا مشکل ہو کہ نیلم جہلم کے اِ س منصوبے میں بجلی کی ترسیل یعنی ٹرانسمیشن کے نظام کو شامل ہی نہیں کیا گیا تھا۔ جب میں نے پراجیکٹ کادورہ کیاتو متعلقہ افرادکے پاس اِ س سوال کا کوئی جواب نہیں تھا کہ منصوبے سے پیدا ہونے والی بجلی کو عوام کے گھروں تک کیسے پہنچایا جائے گا؟ ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے منصوبے کے لئے بھی کم از کم تین برس درکار ہیں۔ میں نے اس منصوبے کو فوری طور پر پراجیکٹ کا حصہ بنانے اور اس پر کام شروع کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیںکہ یہ قدم نہ اٹھایا جاتا تو نیلم جہلم پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد بھی ٹرانسمیشن لائنز نہ ہونے کے باعث بجلی، گھروں اور کارخانوں تک نہ پہنچتی اور اربوں روپے کا سرمایہ برباد ہو جاتا۔ وزیراعظم نے بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ گردشی قرضے کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے اپنی پوری پیدا وار مہیا کرنے سے قاصر تھے۔ہم نے ملکی خزانے کی ابتر صورتِ حال کے باوجود ان اداروںکو چار سو اسی ارب روپے کی بھاری رقم کی ادائیگی کی۔اس ادائیگی کے نتیجے میں بجلی کی پیداوار میں تقریباََ ستر ہ سو میگا واٹ کا اضافہ ہوا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کی ایک وجہ بجلی اور گیس کی چوری بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق اِس چوری کا حجم 150 سے 250 ارب روپے سالانہ تک ہے جو قومی وسائل پر کُھلا ڈاکہ ہے۔ بجلی اور گیس چوروں کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز کر دیاگیا ہے۔ یہ مہم پورے عزم کے ساتھ جاری رہے گی۔ انشاء اللہ حکومت پوری سختی کے ساتھ ایسے افراد سے نمٹے گی۔ لُوٹ مار کے اس کلچر کا دور اب ختم ہوگیا ہے۔ اسی مدت کے دوران انتہائی محنت ومشقت سے تمام صوبوں کے ساتھ مل کر متفقہ انرجی پالیسی تشکیل دی جاچکی ہے۔ اس متفقہ انرجی پالیسی کی منظوری، بجلی کے بحران پر قابوپانے کی کوششوں میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ الحمدللہ! وفاقی حکومت اور پاکستان کے تمام صوبے بجلی کے بحران کے حل کیلئے یکسو اور ہم آہنگ ہیں۔ میں قوم کو اس حقیقت سے بھی بے خبر نہیں رکھنا چاہتا کہ سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی ، بجلی چوری کے سدِباب اور دیگر انتظامی اقدامات کے باوجود بحران کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ اس منزل کو پانے کے لئے ہمیں بجلی کے پیداواری ذرائع میں اضافہ کرنا ہو گا۔ مشکل یہ ہے کہ بجلی کے نئے پیداواری وسائل کا حصول فوری طور پر ممکن نہیں۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر کے قیام کیلئے کم از کم تین سے چارسال اور پانی سے بجلی پیدا کرنے والے بجلی گھر کیلئے آٹھ سے دس سال درکار ہوتے ہیں۔ ہم نے اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت ضائع کئے بغیر کئی بنیادی فیصلے کرلئے ہیں۔ میں انشاء اللہ آپ کو جلد ہی گڈانی کے مقام پرچھ ہزار چھ سو میگا واٹ بجلی کے منصوبوں کے افتتاح کی خوشخبری دوں گا۔ اسی طرح تھر کے مقام پر بھی بجلی کی پیداوار کے منصوبوں پر عملدرآمد کا آغاز کیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے اس رفتار سے کام کرتے ہوئے بجلی بحران کی سنگینی میں مسلسل کمی آتی رہے گی اور ہم انشاء اللہ اپنی حکومت کی آئینی میعاد کے دوران بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر مکمل قابو پالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کوششوں کا خلاصہ ہے جو ہم نے بجلی کے بحران سے نمٹنے کیلئے گذشتہ نو ہفتوں کے دوران کی ہیں۔ ان کوششوں ہی کا نتیجہ ہے کہ جزوی طور پر ہی سہی لیکن صورتحال میںکچھ بہتری دکھائی دینے لگی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر میں اور میری ٹیم اِس محاذ پر دن رات کام نہ کرتے اور اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہوتا تویہ سب کچھ اتنی جلدی ممکن نہ تھا۔ وزیراعظم نے ملک کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لوڈ شیڈنگ کی طرح دہشت گردی کی موجودہ افسوسناک صورتحال بھی ناقص پالیسیوں اور مخصوص مفادات کا نتیجہ ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج پاک فوج، سکیورٹی اداروں اور پولیس اہلکاروں سمیت چالیس ہزارسے زیادہ پاکستانی اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ملک کے کئی علاقوں میں ہماری بیٹیاں تعلیمی اداروں کا رُخ نہیں کر سکتیں۔ ہمارے بچوں کو پولیو کے قطروں سے محروم کر کے ہماری آئندہ نسلوں کو فالج زدہ بنانے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ ہمارے کھیل کے میدان غیر ملکی ٹیموں کیلئے ترس رہے ہیں۔ ہمارے فلک بوس خوبصورت پہاڑوں کے دامن کوہ پیمائوں سے محروم کئے جارہے ہیں۔ زیارت میں ہمارے قائدؒ کی یادگار کو بموں سے اُڑا دیا جاتا ہے۔ ہماری درسگاہیں اور عبادت گاہیں خون میں نہلا دی جاتی ہیں ان سب المیوں سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے اندر اتنی طاقت نہیں پاتے کہ مجرموں کا ہاتھ روک سکیں، انہیں شناخت کر سکیں۔ اُن کی کمین گاہوں کی نشاندہی کرسکیں اور پھر اُنہیں قانون کی آہنی گرفت میں لاکر کیفر کردار تک پہنچا سکیں۔یہ سب کیا ہے؟ اِسے نااہلی کا نام دیا جائے یا بے حسی کا؟ جو کچھ بھی کہا جائے، پاکستان اِ س صورتحال کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیراعظم نوازشریف نے واضح کیا کہ وقت آگیا ہے کہ ہم سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ وقت آگیا ہے ہم یہ اعتراف کریں کہ ہمارے انتظامی اداروں، ہماری ایجنسیوں اور ہمارے سزا اور جزا کے نظام نے خود کو دہشت گردی کے سنگین چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کا اہل ثابت نہیں کیا۔ اگر ایسا ہوتا تو آج چہارسُو آگ، بارود اور خون کا یہ کھیل نہ کھیلا جا رہا ہوتا۔ قوم یہ سوال کرنے میں یقینا حق بجانب ہے کہ ان برسوں کے دوران ملک کے طول وعرض میں جاری اس قتل وغارت کو روکنے کیلئے کوئی با معنی اور ٹھوس اقدامات کیوں نہ کئے گئے؟ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کارکردگی کو وقت کے تقاضو ں کے مطابق بنانے کیلئے نہ تو ان کی تربیت کی گئی نہ ہی انہیں جدید سازو سامان سے آراستہ کیا گیا نہ ہی ان کے درمیان رابطوں کو مضبوط بنایاگیا۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے کہ متعلقہ اداروں پر طاری جمود کی کیفیت ختم کئے بغیر بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر قابو پانا ممکن نہیں۔ آج اِ س حقیقت سے کون بے خبر ہے کہ دہشت گردوں کے گروہ پُر رونق شاہراہوں پر معصوم انسانی جانوں سے ہاتھ رنگنے کے بعد باآسانی فرار ہونے اور اپنی پناہ گاہوں میں پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اگر ان وارداتوں میں ملوث مجر م پکڑے بھی جاتے ہیں تو انہیں گرفت میں لانے والے خوف کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ گرفتاری کے بعد تفتیش کے مرحلہ میں مطلوبہ پیشہ وارانہ مہارت، لگن اور ذاتی دلچسپی کو بروئے کار نہیں لایا جاتا۔ پھر جب معاملہ قانون کے سامنے پیش ہوتا ہے تو عدالتی افسر ایسے مقدمات سننے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ گواہوں کا حال بھی اِس سے مختلف نہیں ہوتا۔ وہ بھی خوف زدہ اور گھبرائے ہوئے پھرتے ہیں۔ دوسری طرف جیلیں ٹوٹتی ہیں اور دہشت گرد اپنے سینکڑوں ساتھیوں کو بھگالے جانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ میں نے الیکشن کے بعد کھلے دل کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو پاکستان کی تعمیروترقی اور اسے درپیش مسائل کے حل کیلئے حکومت کے ساتھ بیٹھ کر کام کرنیکی دعوت دی تھی۔ مصالحت اور افہام وتفہیم کی میری یہ پیشکش صرف سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کیلئے نہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ میں ایک قدم آگے بڑھ کر اُ ن عناصر کو بھی مذاکرات کی دعوت دیتاہوں جو بد قسمتی سے انتہا پسندی کی راہ اپناچکے ہیں۔ حکومت کے پاس دہشتگردی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے ایک سے زیادہ آپشنز موجود ہیں مگر دانش مندی اور سلامت روی کا تقاضا یہ ہے کہ ایسا راستہ اختیار کیا جائے جس میں مزید معصوم انسانی جانیں ضائع نہ ہوں۔ پاکستان کا وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے پاکستان کا ہر شہری میری اولاد کی طرح ہے ۔ میں ہر روز اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کے جنازے نہیں اُٹھا سکتا ۔ میں ہر پاکستانی کی طرح آگ اور خون کے اس کھیل کا جلد سے جلد خاتمہ چاہتا ہوں۔ چاہے یہ خاتمہ افہام وتفہیم کی میز پر بیٹھ کر ہو یا بھر پور ریاستی قوت کے استعمال سے۔ پاکستان کے تمام ادارے کسی تفریق اور تقسیم کے بغیر اس قومی مقصد پر یکسُو ہیں۔ انہوں نے کہا انہیں بخوبی احساس ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات اور ہمارے دوسرے قومی مسائل، ہماری خارجہ حکمت عملی سے کسی نہ کسی طرح منسلک ہیں۔ ہمیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اس امر پر بھی غور کرنا ہو گاکہ ہم نے اب تک اپنی خارجہ پالیسی سے کیا کھویا کیا پایا؟ بلاشبہ ہماری خارجہ پالیسی جر۱ٔت مندانہ نظر ثانی کا تقاضاکرتی ہے۔ اس نظر ثانی کے بغیر ہم اپنے قومی وسائل پاکستان کے غریب عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے وقف نہیں کر سکتے۔ وزیراعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ اور قومی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کا حل ہر پاکستانی کی طرح مجھے بھی بے حد عزیز ہے ۔ ہمیں اس حقیقت کو ہر لمحہ پیش نظر رکھنا ہوگا کہ پاکستان کو معاشی اور اقتصادی طور پر مستحکم کئے بغیر ہم اپنا کوئی بھی ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ وزیراعظم نے اس بات پر زوردیا کہ بھارت اور پاکستان کے عوام کو غربت، جہالت اور پسماندگی سے نجات دلانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا دونوں ملکوں کی قیادت کی ذمہ داری ہے۔ ماضی کی جنگوں نے ہمیں برسوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ دنیا بھر کی تاریخ نے اس حقیقت کو ثابت کر دیا ہے کہ قوموں کی ترقی اور خوشحالی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ پر امن تعلقات میں مضمر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہی سبب ہے کہ ہم بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ وزیراعظم نے خطے کی صورتحال کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے خطے میں پائیدار امن کے لئے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کو ہمیشہ اہمیت دی ہے، قوم نے حالیہ انتخابا ت میں میر ے اس موقف کی بھر پور تائید کی ہے۔ دونوں ممالک کو احساس ہونا چاہئے کہ ہمیں اب اپنی توانائیاں بے ثمر جنگوں کے بجائے غربت، جہالت اور امراض کے خلاف بامقصد جنگ میں صرف کرنی چاہئیں۔ میں یہ بھی واضح کر دوں کہ پاکستانی قوم اپنی بہادرمسلح فواج کے شانہ بشانہ دفاع وطن کے لئے ہر آن سینہ سپر ہے۔ ہمیں ایسی حکمت عملی بنانا ہوگی جس سے دنیا بھر میں پاکستان نئے تابناک چہرے کے ساتھ پہچانا جائے۔ وزیراعظم نے دوٹوک مؤقف کا اعادہ کیا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور حاکمیت ِ اعلیٰ کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ یہ حملے بین الاقوامی قوانین اور انسانی ضابطوںکی بھی نفی کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ان حملو ں میں پر امن شہریوں کی ہلاکت کی مذمت کی اور غیر مبہم الفاظ میں انہیں عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ وزیراعظم نے بلوچستان کی موجودہ صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ ہر پاکستانی کے لیے انتہائی تشویش اور پریشانی کا باعث ہے۔ انسانی خون سے ہاتھ رنگنے والے سفاک قاتل جوبھی ہوں یہ امر طے ہے کہ ان قاتلوںکا نشانہ بننے والے معصوم اور بے گنا ہ پاکستانی ہیں ۔ مجھے یہ سوچ چین سے سونے نہیں دیتی کہ بلوچستان اس حالت تک کیسے پہنچا؟یہ کیسے ہوا کہ بلوچستان کے طول و عرض میںآگ اور خون کاکھیل کھیلا جاتا رہا اور ہم دیکھتے رہے؟بلوچستان کی دھرتی ہم سے ان سوالات کے جواب مانگتی ہے لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بے حسی اور لاتعلقی کا دور اب ختم ہو چکا۔ بلوچستان کو نظر انداز کیے جانے کے دن گزر گئے۔ وزیراعظم نے اس موقع پر واضح اعلان کیا کہ وفاقی حکومت بلوچستان میں جاری کُشت وخون کو روکنے اور تعمیر وترقی کے لیے صوبے کی منتخب سیاسی حکومت کو وہ تمام وسائل اور تعاون مہیا کرے گی جو اس مقصد کیلئے ضروری ہیں۔ انہوں نے کہاکہ کراچی کی صورت حال بھی ہر پاکستانی کے لیئے باعث تشویش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ صوبے کی حکومت لاقانونیت اور قتل و غارت گری کو مستقل طور پر ختم کرنے کے لئے موثر اور نتیجہ خیز اقدامات کرے گی۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کو لاقانونیت کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ کراچی امن اور روشنوں کا شہر رہا ہے۔ اس کا یہ تشخص بحال ہونا چاہئے۔ وفاقی حکومت اس مقصد کے لیے صوبائی حکومت کی ہر ممکن مدد کے لئے کمر بستہ ہے۔ پاکستان کا روشن مستقبل اور عوام کی خوشحالی، مضبوط اور مستحکم معیشت کے بغیر ممکن نہیں۔ بجلی بحران کے خاتمے اور دہشت گردی سے نجات کی کے بغیر پاکستان کی تباہ حال معیشت کی بحالی ممکن نہیں۔ اس مقصد کیلئے اندورنی اور بیرونی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ نا گزیز ہے۔ حکومت میںآنے کے فوراً بعد میرے دورہ چین کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا۔ وزیراعظم نے قوم کو یقین دلایا کہ کاشغر، گوادر اقتصادی راہداری کا منصوبہ صرف پاکستان ہی نہیں اس پورے خطے کے عوام کی تقدیر بدل دے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ انتظامی مشینری کی کارکردگی اورکام کے انداز سے مطمئن نہیں۔ توانائی کا بحران ہو یا قومی زندگی کا کوئی شعبہ ، پاکستان کرپشن اور نااہلی کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا ۔ وہ بے عملی کو بھی کرپشن کی طرح کا ایک ناسور خیال کرتے ہیں۔ اب وہی افسر، لائقِ اعزاز و احترام ہوں گے جو عوام کی خدمت کرنے اور خلقِ خدا کو انصاف مہیا کرنے کو اپنے ایمان کا جزو خیال کریں گے۔ ملک کی انتظامی مشینری میں اب بد عنوان ہی نہیں بے عملی اور جمود کے شکار افسروں اور اہلکاروں کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ایک عظیم پاکستان کی تعمیر کیلئے یہ زنگ آلود مشینری میرے لئے قابلِ قبول نہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہاکہ انہوں نے اپنا دل کھول کر قوم کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ہم ایک قوم ہیں ایک خاندان کا حصہ ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ جب کسی خاندان پر کوئی مشکل وقت آتاہے تو سب مل کر اس کا سامنا کرتے ہیں۔ آ ج پاکستان انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ مشکلات کے حل کے لئے ہمیں مشکل اور اہم فیصلے کرنے پڑیں گے۔ ترقی اور عوام کی خوشحالی کی کوششیںکرنا ہوں گی۔ وزیراعظم نے قوم کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت معاشی پالیسیوں، دہشت گردی کے تدارک اور توانائی کے بحران کو حل کرنے کے معاملات پر کوئی سیاست نہیں کرے گی۔ آج قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ پاکستان کا سرمایہ ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران میں نے آپ میںجو جوش و جذبہ دیکھا اور آپ نے میرے لئے جس محبت کا اظہار کیا میں اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ میری خواہش ہے کہ نوجوانوں کو پاکستان کی تعمیر و ترقی میں مؤثر کردار ادا کرنے کے بھر پور مواقع ملیں۔ ہم نے ایسی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے کہ نوجوان خود اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں ۔ وہ اپنا روزگار خود پیدا کرسکیں۔ وہ انشاء اللہ جلد نوجوانوں کیلئے تشکیل دیئے گئے اس پروگرام کی تفصیلات کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اپنے عوام کو غربت اور پسماندگی کے شکنجے سے نکالنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ پاکستان کے ہر خاندان میں ایک سے زیادہ افراد کمانے والے بن جائیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ میں اس موقع پر آپ کو ایک اوراچھی خبر بھی دینا چاہتا ہوں۔ ہم نے کم آمدنی والے خاندانوں کیلئے سستے گھروں کی سکیم تیار کی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اپنے اوراپنے اہل خانہ کے سروں پر چھت مہیا کرنا ہر آدمی کاخواب ہوتا ہے۔ ہم نے اس خواب کو تعبیر سے آشنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نہایت مسرت کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ اس سکیم پر عملدرآمد سے آئندہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان کے تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں بے گھر اور کم وسیلہ افراد زندگی کی جدیدسہولتوں سے آراستہ اپنے گھروں کے مالک بن جائیں گے ۔ میں انشاء اللہ اس سال اکتوبر میں اس سکیم کی تفصیلات کا اعلان کروں گا۔ انہوں نے کہاکہ قومی امور میں ہماری فکر اور تگ و دو صرف د ہشت گردی اورلوڈ شیڈنگ تک محدود نہیں۔ میں اور میر ی ٹیم پاکستان کو درپیش تمام مسائل سے نجات کی راہیں تلاش کرنے میں تندہی سے مصروف ہے۔ ان امور میں اقلیتوں کے مسائل بھی شامل ہیں اور خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق معاملات بھی۔ مجھے صحت، تعلیم ،پینے کے پانی اور روزمرہ زندگی کے دیگر مسائل کا بھی اندازہ ہے جو آپ کو درپیش ہیں۔اگرچہ اِن میں سے بیشتر مسائل کا تعلق صوبائی حکومتوں سے ہے لیکن میں وفاقی حکومت کی طرف سے ان مسائل کے حل کیلئے کی جانے والی منصوبہ بندی اور پیش رفت سے آپ کو باخبر رکھوں گا۔ مجھے اِن مسائل کے حل کیلئے آپ کی ٹھوس تجاویز اور مشورے بھی درکار ہوں گے۔ وزیراعظم نے خاص طور پر سیلاب کا شکار ہونے والے اہل وطن کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ وفاقی حکومت اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی ہر ممکن مدد کیلئے ہمہ وقت تیار ہے۔ صوبائی حکومتوں سے توقع ہے کہ وہ سیلاب زدہ لوگوں کی رہائش، خوراک، علاج معالجے اور دیگر ضروریات پوری کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گی۔ انہوں نے پوری قوم سے اپیل کی کہ وہ اپنی عظیم اسلامی اور قومی روایات کے مطابق اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لئے اُٹھ کھڑی ہو۔آزمائش کی اس گھڑی میں ہمیں بھر پور قومی جذبے اور ملی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ میں نے جو کچھ کہا، دل کی گہرائیوں سے کہا۔ آخر میں، صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ صرف خواب دیکھنے سے صحراؤں میں پھول نہیں کھلا کرتے۔ صرف آرزو کرنے سے دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہا کرتیں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہاکہ ترقی و خوشحالی کی منزلوں کو جانے والے راستے قربانی اور ایثار مانگتے ہیں، میرا دل گواہی دیتا ہے کہ بے پناہ مشکلات اور مصائب کے باوجود ہم وہ پاکستان تعمیر کرسکتے ہیں جو ہمارے دلوں میں بستا ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں کمرِ ہمت باندھنا ہوگی۔ اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں پر قابو پانا ہوگا اور ایک شاندار مستقبل کے لیے قربانیاں بھی دینا ہوں گی۔ مسائل بے شک بڑے ہیں لیکن ہمارے جذبۂ ایمانی سے بڑے نہیں۔ راستہ بے شک کٹھن ہے لیکن ہمارے عزم و ارادہ سے زیادہ کٹھن نہیں، منزل بے شک دور سہی لیکن ہم ہمت، حوصلے اور پختہ ارادے کا سامانِ سفر بھی رکھتے ہیں۔ مجھے اپنے یقینِ کامل ، آپ کے جذبہ عمل اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر پورا پورا ایمان ہے۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کا پاکستان ایک نئے روشن دور میں داخل ہونے والا ہے۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ پسماندگی کے اندھیرے چھٹ جانے کو ہیں۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ ترقی و خوشحالی کا تابناک سورج طلوع ہونے کو ہے۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ پاکستان کے لئے جانیں قربان کردینے والے شہیدوں کا خون رنگ لانے کو ہے۔ انہوں نے قوم پر زوردیا کہ آئیے ہم مشکلات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے نئی روشن منزلوں کی طرف بڑھیں۔ اللہ کی نصرت و حمایت اور نبی پاکؐ کی رحمتوں کا سایہ ہم پہ ہے۔ انشاء اللہ آنے والا ہر دن ہمارے لئے خیروبرکت کی نوید لے کر آئے گا۔ 

مزیدخبریں