اب جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں

Aug 20, 2014

نواز خان میرانی

 دھونس، دھاندلی، دھمکیوں اور دھرنوں کے نتائج تجزیہ نگار جانیں، یا سیاست دان پس منظر حکمرانوں کو پہچانیں، ہمارے نزدیک تو یہ سارا کھیل اور ڈرامہ اس ہدایت کار کا ہے، جس نے رنگیلا کی طرح فلمساز، بن کر گانے اور بجانے کے سارے کام اپنے دماغ اور ہاتھوں سے انجام دیئے۔ ہیرو نے بہت سے مہمان اداکار شامل کرکے گولڈن یا سلور جوبلی منانے کی کوشش کی، مختصر یہ کہ حکومت پہ شب خون مارنے کے عادی کی دوبارہ شب خون مارنے کی کوشش تھی، بھولے بھالے احمد رضا قصوری کی آزادی مارچ میں شمولیت کی تڑپ نے ہی سارا بھانڈہ نہیں پھوڑا، کڑیوں سے کڑیاں ملائیے گتھیاں سلجھتی جائینگی، جہاں تک لاکھوں روپوں ماہانہ پہ خدمات انجام دینے والے اینکر پرسن صاحبان کا تعلق ہے، تو ملک اور بیرون ملک کروڑوں ناظرین یہ دیکھ کر اور سن کر صرف حیران ہی نہیں پریشان ہو جاتے ہیں کہ کل تم تمام چینلز کے اینکرز جس موضوع کے حق میں دلائل کے انبار لگا کر دل فگار کر رہے تھے، آج تمام کے تمام اچھل اچھل کر اسکی مخالفت میں زمین آسمان کے قلابے ملانے میں مصروف ہیں، قارئین دم بخود ہو جاتے ہیں کہ یاالہی یہ کیا ماجرا ہے، تو پھر پتہ چلتا ہے کہ یہ تو وہ لوگ ہیں کہ جن سے قانون نافد کرنیوالے ادارے کے سربراہان بھی سجدہ تعظیمی کی بدعت ادا کرکے ملتے ہیں، اور کئی تو ایسے ہیں کہ پوری ٹیم کے ساتھ موقعہ واردات پہ اور واردات کرنے پہنچ جاتے ہیں اور مائیک پکڑ کر اور قانون کو ہاتھ میں لے کر ضابطہ اخلاق کا حلیہ بگاڑ دیتے ہیں۔ دراصل بیرونی سرمائے سے لاکھوں روپے مشاہیرہ دینے کی داغ بیل ڈالنے والے نے انکی عادت لگاڑ دی۔ اس قسم کی ناقابل برداشت عادات سے تنگ آ کر چونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔ اس کا توڑ روس جیسے کمیونسٹ اور دہرئیے ملک نے نکال لیا۔ مسلمان ممالک چونکہ اس نظرئیے پہ یقین رکھتے ہیں کہ دولت کو ذلیل کرکے ہی آدمی باعزت ہوتا ہے۔ معین اختر مرحوم کی محبوبہ اور دوسری بیوی چونکہ اردو نہیں جانتی تھی اور انگریزی میں بات کرتی تھی ڈراموں میں کام کرنے کی غرض سے اس نے اردو سیکھنی شروع کی، اور اسکی اردو میں نئی لفظی ایجاد کو میزبانوں سمیت سب پڑھے لکھے انسانوں نے بھی اپنانا شروع کر دیا ہے۔
سٹیج پر اگر وہ کسی کو بلاتی اور سٹیج پہ آنے کی دعوت دیتی تھی تو کہتی تھی، اب میں جس شخصیت کو بلانے ”جا رہی ہوں“ پہلے پہل تو ہم یہی سمجھتے رہے کہ شاید سٹیج چھوڑ کر وہ مہمان کو گھر سے بلانے جا رہی ہیں، مگر بعد میں پتہ چلا کہ یہ بلانے لگی ہوں کہ بلانے جا رہی ہوں کہہ رہی ہوں، مگر آہستہ آہستہ اس لفظ کو شیخ رشید (چونکہ یہ ہر چینل پر بیٹھے ہوتے، اور علم جفر، علم الاعداد، ستارہ و قیافہ شناسی، علم نجوم اور مستقبل کے علوم کے ماہر کے طور پر کہتے ہیں کہ اب جو میں آپکو بتانے جا رہوں) سمیت ہر سیاست دان نے اس دوشیزہ کے غلط فقرے کو دل و جان سے لگا رکھا ہے۔ وطن کی محبت اور ملکی زبان سے وفا نے ہمیں دکھی کیا ہے۔ ورنہ بقول شاعر....
فراز سنگ ملامت سے زخم زخم سہی
ہمیں عزیز ہے خانہ خراب جیسا ہے !
ہمارے اس دکھ کا مداوا روس نے اس طرح سے کیا ہے کہ اب روبوٹ انسانوں کے انٹرویو کرتے نظر آئینگے اور روس نے پہلی روبوٹک ٹی وی میزبان بھی متعارف کرا دی ہے۔ ٹیوما ارمن نامی پریزنٹر کی روبوٹک کاپی نہ صرف اپنا سر مکمل طور پر ہلانے جلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بلکہ بھنوئیں بھی اچکاتی اور نظریں بھی گھماتی ہے، ہمیں صرف یہ فکر کھائے جا رہی ہے، اگر ایسی اینکر پاکستان میں آ گئی، تو پھر انجیلا جولی کو سابقہ دور کے وزیر، مشیر جو بصد احترام بھاگ بھاگ کر اپنے وزیٹنگ کارڈ پکڑاتے تھے ان حسن پرستوں کا کیا بنے گا اور جمشید دستی جیسے کنوارے کب سہاگ کے سہرے باندھیں گے اور شیخ رشید کو شادی کی کچھ آس باقی تھی، اس پر تو ایسی اوس پڑیگی کہ لال کپڑوں والی دلہن کو دیکھنے کی بجائے لال حویلی کو ہی تکتے رہ جائینگے، جہاں تک قمرالزمان کائرہ کا تعلق ہے۔ حوصلہ رکھیں پاکستان میں ایسی اینکر اتنی جلدی نہیں آ سکتی، ویسے بھی کوئی ایک چینل تو ایسا ہو گا جو ان کو اور وہ ان کو کبھی مایوس نہیں کریگا۔ پچھلے دنوں بیرون ملک کی ایک اینکر نے دوسرے ملک کے حکمران کو شٹ اپ کہہ دیا اور دوسری اینکر نے نجانے کیوں سامنے بیٹھے ہوئے سیاست دان کو سر پر پیپر ویٹ مار دیا، کبھی موقعہ ملا تو میں رانا ثنااللہ یا دوست محمد کھوسہ سے پوچھ کر یہ راز ضرور فاش کروںگا کہ آخر کیا وجہ ہوئی جو خاتون نے دنیا کے سامنے ایسی حرکت کی۔ شاید اسی لئے ہمارے وطن کے ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ کراس کر یا برداشت کر اور اوپر مسرت شاہین کی یا پھر شیر کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ آخر میں عرض ہے کہ ہماری تو محض اتنی سی گزارش ہے کہ اگر ملک کو بدامنی، انارکی اور دہشت گردی سے بچانا ہے تو چین یا جاپان کو آرڈر دے کر سیاست دان بھی روبوٹ بنوا لیں، ملک میں امن و امان ہو جائے گا۔ ورنہ تو....
زمیں پہ ڈھائے تھے کس نے عذاب لکھ نہ سکا
میں اپنے عہد پہ سچی کتاب لکھ نہ سکا !

مزیدخبریں