(ن) لیگ کہاں ہے؟

Aug 20, 2014

اسرا ر بخاری

حکمران ہو یا سیاسی قائد اس کا سب سے مضبوط قلعہ اسکی سیاسی جماعت ہوتی ہے اس قلعہ کی ناقابل تسخیر فصیل اسکے مختلف سطح کے قائدین ہوتے ہیں اور اس کا جانثار لشکر اسکے کارکن ہوتے ہیں اگر اس معیار پر مسلم لیگ ن کا جائزہ لیا جائے تو ایک مایوس کن صور تحال سامنے آتی ہے 2013ءکے انتخابات میں برسر اقتدار آنے کے بعد مسلم لیگ ن کو پہلی بار عمران خان اور طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنوں کی شکل میں سخت چیلنج کا سامنا ہے لیکن قیادت کیلئے اس سخت آزمائش کے موقع پر مضبوط قلعہ ناقابل تسخیر فصیل اور جانثاروں کا لشکر کہیں نظر نہیں آ رہا۔ یہ اس سیاسی جماعت کے حوالے سے حد درجہ حیرت انگیز ہے جس نے صرف چودہ ماہ پیشتر پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں صحافیوں کی محفل میں سوال اٹھایا گیا کہ کراچی سے پشاور تک جڑیں رکھنے والی مسلم لےگ (ن) موجودہ بحرانی صورتحال میں کہاں ہے یہ بلاشبہ ایک غور طلب سوال ہے اس سوال کا جواب میاں نواز شریف کے اس طرز عمل میں تلاش کیا جا سکتا ہے جو اقتدار حاصل کرنے کے بعد انہوں نے پارٹی کو چلانے کیلئے اختیار کیا۔لگتا یوں ہے ہر سیاسی واقتصادی اور بین الاقوامی معاملے میں پارٹی سے وسیع تر مشاورت کو شاید تضیح اوقات سمجھا گیا اور فوری فیصلوں کیلئے قابل اعتماد افراد کی ایک کور کمیٹی بنائی گئی جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، خواجہ آصف، پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال اور سب سے بڑھ کر اسحاق ڈار شامل ہیں جہاں تک جناب شہباز شریف کا تعلق ہے وہ ایک نہایت متحرک اور فعال شخصیت ضرور ہیں مگر سیاسی داﺅ پیچ میں زیادہ مہارت نہیں رکھتے اسحق ڈار مالیات کے امور میں ضرور یدطولیٰ رکھتے ہونگے مگر سیاست کے کوچہ میں اپنے افعال و اقوال کے حوالے سے اجنبی نظر آتے ہیں۔ خواجہ آصف ایک بہت نامور سیاستدان خواجہ صفدر کے صاجزادے ہیں مگر وہ معاملات کو سیاسی انداز سے سلجھانے کی اہلیت کی بجائے جذباتیت کا مظاہرہ زیادہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل مشرف دور کی بہت ممتاز خاتون کشمالہ طارق ان پر خاصا اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ احسن اقبال لکھائی پڑھائی والے انسان ہیں پرویز رشید ایک مدت بائیں بازو کی سیاست میں راجہ انور کے ساتھی رہے۔ اب انہیں ن لےگ کی حکومت کے مرکزی ترجمان کی حیثیت سے دائیں بازو کی سیاست کرنی پڑ رہی ہے سیاست میں فریق مخالف کو سیاسی انداز سے بے دست و پا کرنے کے ہنر سے ناآشنا نظر آتے ہیں۔ انکے بیانات اشتعال کے پھیلاﺅ کا ذریعہ بنتے ہیں طنز و تضحیک کے پتھر لئے بیانات کو فریق مخالف ہی نہیں سننے والے غیر جانبدار اور غیر متعلقہ افراد کیلئے بھی متاثر کن نہیں ہوتے اس ساری پارٹی میں خواجہ سعد رفیق بلاشبہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے رہنما ہیں مگر نہ جانے وہ اپنی سیاسی مہارت اور سوجھ بوجھ کا کھل کر مظاہرہ کیوں نہیں کر رہے یہ تمام حضرات ذاتی طور پر میرے لئے قابل احترام ہیں اور مجھے ان سے سیاسی پرخاش اس لئے نہیں ہے کہ میرا نہ تو ن لےگ کے نظم سے تعلق ہے نہ ہی سیاست کے میدان کا باعمل کھلاڑی ہوں کہ انکی جگہ لے سکوں ان حضرات کے حوالے سے میرے ذاتی محسوسات ہیں جن کے لازمی طور پر درست ہونے پر مجھے اصرار نہیں ہے خود ن لےگ کے اندر بھی یہ احساس پایا جاتا ہے کہ ان حضرات کے باعث جنہیں ن لیگ کے اندرونی حلقوں میں نواز شریف کے ”نورتن“ کہا جاتا ہے پارٹی اور میاں نواز شریف کے مابین فاصلے پیدا ہو گئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کافی حد تک ذمہ داری خود میاں نواز شریف کی ہے۔ مشرف آمریت کے دور میں مار کھانے والے آج عضو معطل کیوں ہیں۔ اقبال ظفر جھگڑا، صابر شاہ، یعقوب ناصر، سرانجام خان، سردار ذوالفقار کھوسہ، بیگم تہمینہ دولتانہ، راجہ ظفر الحق، چودھری عبدالغفور اورایسے ہی دیگر پچھلی صفوں میں کیوں ہیں۔ بحران کے وقت بھی ان کے سیاسی کردار میں گرمجوشی نظر نہیں آتی یہ دخل در معقولات ہر شہری اور بالخصوص ایک اخبار نویس کا استحقاق ہے۔ میاں نواز شریف کے حوالے سے مخالفین کے کیمپوں سے ایک آواز یہ اٹھائی جاتی ہے کہ جلا وطنی انکی سیاست کو جلا نہیں بخش سکی اگر وہ سیاست میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو پھر خود کو اس ”کور کمیٹی“ کے حصار سے نکال کر انہیں پارٹی رہنماﺅں سے وسیع تر مشاورت کے سیاسی انداز کو اپنانا ہو گا اور اپنی جماعت کو مضبوط قلعہ ہر سطح کے رہنماﺅں کو اس قلعے کی مضبوط فصیل اور کارکنوں کو حقیقی جانثاروں کے لشکر میں تبدیلی کرنا ہو گا تاہم سیاسی جماعتوں میں کور کمیٹی کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے لیکن یہ چند مخصوص افراد کی بجائے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت، بلتستان بلکہ فاٹا کے اہم رہنماﺅں پر مشتمل ہونی چاہئے۔ مالیاتی و اقتصادی معاملات میں اسحق ڈار کا انتخاب بالکل درست ہو سکتا ہے۔ سیاسی معاملات میں مثلاً اپوزیشن کی کسی جماعت کے رہنما یا اتحادی پارٹی کے لیڈر سے مذاکرات کی ذمہ داری دیگر رہنماﺅں کے سپرد کی جائے اس حوالے سے تشکیل کردہ کمیٹی میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ان کیلئے زیادہ سودمند ہو سکتی ہے۔

مزیدخبریں