رانا ظہیر احمد
پارٹیشن سے پہلے میری عمر دس سال تھی۔ جہاں بھی مسلم لیگ قائداعظم کا جلسہ ہوتا‘ ہم نعرے لگاتے پہنچ جاتے۔ الحمدللہ زندہ بھی بچ گئے اور مسلم لیگ کو لیکر قائداعظم کے ساتھ پاکستان بھی پہنچ گئے۔ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ جو ضلع کے ہیں وہ ضلع میں‘ جوتحصیل کے ہیں وہ تحصیل میں اور جو گاﺅں کے ہیں‘ وہ گاﺅں میں آباد کئے جائیں گے۔ بعد میںسیاستدانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں ایسے بکھیر دو جیسے کھیت میں دانے بکھیرے جاتے ہیں۔ باپ سے بیٹا جدا ہو گیا‘ بھائی سے بھائی جداہو گیا۔ ماں سے بیٹی جدا ہو گئی۔ وہ سیاستدان جو مخلص نہ تھے‘ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں لاوارثوں کی طرح پھینک دیا ۔ کئی برس گزرے گئے ہم اپنوں کو ڈھونڈتے رہے۔ ابھی ہم سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ لیاقت علی خان کو گولی مار دی گئی۔ ہم دوبارہ مہاجر ہو گئے۔ آج62 سال ہو گئے مگر ہمیں قائداعظم کے پاکستان میں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ہم نے ماضی کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کرکے محنت و دیانت اور ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنا ہے اور ملک کے روشن مستقبل کیلئے ایسی بنیاد رکھنا ہے جس پر آنے والی نسلیں ہم پر فخر کر سکیں۔
میں نے پاکستان بنتے دیکھا
Aug 20, 2014