پہلے کھولو نا ذرا، اپنے ماضی کی کتاب
ہر کسی سے مانگنا پھر، گذرے سالوں کا حساب
کچھ بھی تبدیلی نہیں، دِکھتی تمھارے آس پاس
نوکِ زباں ہر وقت ہے، انقلاب انقلاب
آنکھ کو جب دیکھنا تھی سبز پرچم کی بہار
ناچتی دن بھر رہی، راہوں پہ وحشت بے حجاب
قوم نہ بخشے گی تم کو، آج آزادی کے دن
کیوں کیا برپا بھلا، اِنتشارِ بے حساب
ہم کو آزادی ملے، ہو چکے سڑسٹھ برس
بازی گر لے آئے پھر، آزادیئِ نو کا سُراب
لازم ہے اے ارضِ وطن، تزئین و آرائش تیری
کرتا ہوں تیری نذر آج، اشک ہائے خون و آب
اب نہ دھوکہ مظہری، کھائے گی خلقِ خدا
قائد و اقبال کی روحوں کو دینا ہے جواب
سرابِ نو .... (ڈاکٹر ضیاءالمظہری)
Aug 20, 2014