کہتے ہیں کہ انسانی زندگی ناقابل فہم ہے جسے کچھ دانشور مذہبی فکر سے ہٹ کر دیکھتے ہیں تو اُن کیلئے زندگی کا مقصدبے معنی بن جاتا ہے۔ کچھ شعرأ کرام اور دانشور اِسے دیوانے کے خواب سے بھی تعبیر کرتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ذات خداوندی نے انسان کو رحمانی اور شیطانی طاقتوں کے درمیان جاری کشمکش میں جزا و سزا کے ایک وجدانی امتحان میں ڈال کر انسانی زندگی کے مقصد حیات کو متبرک الہامی کتابوں میں بخوبی بیان کر دیا ہے ۔الہامی ہدایات انسانی زندگی کو عام ڈگر سے ہٹ کر نمایاں کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے چنانچہ دنیا میں ایسے بہت سے لوگ سامنے آتے ہیں جو اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر اپنی ذات ، اپنے خاندان یا اپنے شہر میںنام پیدا کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داری کو نبھا کر واپس چلے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ایسے بہت کم لوگ ہیں جو قومی فکری میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں اور قوم کی سربلندی کیلئے عزت و احترام کا نشان بن کر تاریخ میں اپنا نام رقم کرجاتے ہیں۔ انسانی زندگی کی بے ثباتی کو دیکھتے ہوئے اِس بنیادی حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ رب العالمین نے انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے میں فائزکیا ہے اور اُسے کچھ ایسی باکمال صلاحیتوں سے نوازا ہے جنہیں نابغہ روزگار شخصیتیں اپنے شعوری وجدان کو بروئے کار لاتے ہوئے بے مثال تخلیقی عمل کے ذریعے نہ صرف قوموں کی زندگی میں درست راستوں اور صحیح سمت کا تعین کرتے ہوئے رہنمائی کا کردار ادا کرتی ہیں بلکہ اپنی بے لوث مثالی جدوجہد کے تسلسل سے دنیا کی معاشرتی زندگی میں بیش بہا تبدیلیاں لانے کا پیش خیمہ بھی بن جاتی ہیں ۔ ایک ایسی ہی شخصیت کا تذکرہ جنرل حمید گل کے نام سے بھی کیا جاتا ہے جن کا افغانستان میں روسی فوجوں کے داخل ہونے کے بعد جہادِ افغانستان کو گوریلا جنگ کے خطوط پر منظم کرنے میں متحرک کردار تھا اور جسے وہ پاکستان کی بقا کی جنگ سے تعبیر کرتے تھے ، اور اِسی افغان جہاد کے توسط سے دراصل روسی فوجوں کو افغانستان کی سرزمین چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ جنرل حمید گل آج ہمارے درمیان تو نہیں ہیں لیکن قومی سلامتی کے حوالے سے اُن کی کاوشوں کو ہمیشہ ہی ایک روشن قندیل کی مانند یاد کیا جاتا رہیگا ۔ بقول مرزا غالب .......؎
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں
لیفٹیننٹ جنرل حمید گل اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے سبب پاکستان آرمی میں اہم پوزیشنوں پر فائز رہے ہیں جہاں اُنہیں افغانستان میںسابق سوویت یونین اور بھارت کے خفیہ عزائم کو سمجھنے اور اُنہیں بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کا موقع ملا ۔ سوویت یونین کیخلاف افغان جہاد کے اِس پُر آشوب دور میں اُنہیں بالترتیب ملٹری انٹیلی جنس اور پاکستان کی ایلیٹ ایجنسی آئی ایس آئی کے چیف کے منصب پر فائز رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔ یوں تو قیام پاکستان سے لیکر آج تک ایجنسیوں کی قیادت بے شمار افسران کرتے رہے ہیں لیکن جنرل حمید گل کی جدوجہد کا تذکرہ آج بھی قومی فکر و عمل کے حوالے سے ہی کیا جاتا ہے۔ وہ خود بھی یہی کہتے تھے کہ اُنہوں نے پاکستان آرمی میں شامل ہو کر دراصل اپنی زندگی کو اسلام اور پاکستان کی بقاکے مشن کیلئے وقف کیا تھا ۔ وہ اِس اَمر کو اچھی طرح جانتے تھے کہ افغان جہاد کے آخری مرحلے میں افغانستان میں جہادیوں کی مربوط و مضبوط حکومت قائم نہ ہونے میں جتنا ہاتھ بیرونی طاقتوں کا تھا اُتنا ہی ہاتھ پاکستان کے چند بے حکمت حکمرانوں کا بھی تھا۔ وہ تواتر سے کہتے رہے ہیں کہ اُنہوں نے پاکستانی حکمرانوں بالخصوص جونیجو حکومت کو بار بار اِس اَمر کی تلقین کی تھی کہ وہ جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے افغانستان میں نجیب حکومت کے مستقبل کے اور مجاہدین کی حکومت کے قیام کے معاملات کو بھی زیر بحث لائیں تاکہ افغانستان میں اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے خانہ جنگی کی کیفیت نہ طاری ہو جائے جس کے باعث نہ صرف مجاہدین کی قربانیاں رائیگاں جا سکتی ہیں بلکہ خانہ جنگی کی ایسی کوئی بھی منفی صورتحال پاکستان کی سلامتی کیلئے ایک نئے خطرے کے طور پر جنم لے سکتی ہے ۔ یہی فکر جنرل حمید گل کی ذات پر فوج سے ریٹائرمنٹ کے وقت بھی حاوی رہی جب اُنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد دنیاوی گورکھ دھندوں میں روپوش ہونے کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی وجدانی فکر و عمل کی صلاحیت سے مملکت خداداد کی سلامتی کو درپیش خطرات و خدشات سے عوام الناس اور اربابِ اختیار کو بروقت آگاہ کرنے کیلئے ہردم متحرک رہیں گے حتیٰ کہ اپنی وفات سے چند روز قبل تک یہی فکر اُنکی ذات پر حاوی رہی چنانچہ وہ پاکستان کی سلامتی کے پس منظر میں قومی میڈیا اور نجی ٹیلی ویژن کے ذریعے عوام الناس کو اندرونی و بیرونی خطرات سے بدستور آگاہ کرتے رہے ۔ جنرل حمید گل کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اُنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قومی فکر و عمل کے حوالے سے وردی کو اپنے جسم سے جدا نہیں کیا تھا بلکہ قومی دھارے میں وہ بخوبی اپنا بے لوث کردار ادا کرتے رہے ۔
جنرل حمید گل کے بارے میں اُنکے ناقد جہاں اُن کی صلاحیتوں کے معترف ہیں وہاں وہ شد و مد سے افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کے بعد اُنہیں جلال آباد آپریشن میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جسکے پس منظر پر ابھی تک پردہ پڑا ہوا ہے ۔ افغان جنگ سے متعلقہ غیر جانبدار دانشوروں کی رائے میں دراصل جلال آباد آپریشن مبینہ طور پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی منظوری سے افغانستان میں دھڑے بند جنگجو گروپوں کی خانہ جنگی کو ختم کراکے ایک قومی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے کیا گیا تھا لیکن پاکستان حمایت یافتہ اہم جہادی گروپ جس کی قیادت گلبدین حکمت یار کر رہے تھے کی عین موقع پر اِس آپریشن میں شمولیت سے انکار پر جلال آباد آپریشن کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے ۔ کیا جلال آباد آپریشن کی ناکامی میں اُس وقت کی وزیراعظم کے ارد گرد متحرک اہم شخصیتوں کی پس پردہ سازشیں کام کر رہی تھیں اِسکے بارے میں ابھی وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن کہنے والے اِس اَمر پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ افغان جہادسے قبل بھی حکمت یار نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا جب افغان حکومت نے پاکستان افغان سرحد جسے برٹش زمانے سے ڈیورنڈ لائین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کو متنازعہ بنانے کی کوشش میں پاکستان کے سرحدی علاقوں میںتخریب کاری کی کوشش کی تو بھٹو صاحب نے اُس وقت کے گورنر صوبہ پختون خواہ جنرل نصیر اللہ بابر کی مدد سے وادی پنج شیر میں جوابی دھماکے کرانے کیلئے حکمت یار کی خدمات ہی حاصل کی تھیں ۔ حیرت ہے کی محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں جب 1989 میں اِس آپریشن کی منظوری دی گئی تو اُس وقت بھی جنرل نصیراللہ بابر ہی وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خصوصی معاون کے طور پر کام کر رہے تھے ۔ قرائن یہی کہتے ہیں کہ پہلی بے نظیر حکومت میں پیپلز پارٹی کے کچھ گروپ پس پردہ رہتے ہوئے جنرل حمید گل کو آئی ایس آئی سے ہٹانے کیلئے کام کر رہے تھے چنانچہ جلال آباد آپریشن سے حکمت یار گروپ کی علیحدگی اِس سلسلے کی کڑی بن گئی اورجنرل حمید گل کی جگہ اِسی بے حکمت گروپ کی مشاورت پر ریٹائرڈ جنرل شمس الرحمان کلو کو آئی ایس آئی کا چیف بنا دیا گیا چنانچہ یہی بے حکمت محلاتی سازشیں اور ناقابل فہم حکمت عملی بالآخر پہلی بے نظیر حکومت کے خاتمے کا سبب بن گئی۔ دوسری جانب گو کہ جلال آباد آپریشن کی ناکامی کے سبب جنرل حمید گل متوقع نتائج تو حاصل نہیں کرسکے لیکن اِس آپریشن کے دور رس نتائج ضرور مرتب ہوئے کیونکہ جلال آباد آپریشن کی ناکامی پر افغان عوام کی افغانستان میں امن لانے کیلئے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور اِسی خانہ جنگی کے ملبے سے اُبھر کر ملا عمرکی قیادت میں طالبان کی حکومت افغانستان میں پُر امن انقلاب لانے میں کامیاب ہوئی ۔ گو کہ افغانستان سے ملا عمر اور القاعدہ کا چیپٹر اب ختم ہو چکا ہے لیکن افغانستان سے جنم لینے والی دہشت پسندانہ سرگرمیاں ابھی تک خطے کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔