پچھلے دنوں میںکئی اہم شخصیات سے بات چیت کانہ صرف موقع ملابلکہ ملک کے دیگر شہروں کا وزٹ کرنے کا بھی اتفاق ہوا۔ نازک اور غیر معمولی حالات میں بھی ہر ایک پاکستانی پرامید اور ایک جستجو میںدکھائی دیا۔جس کا مقصد بہتری کی طرف قدم بڑھانا تھا۔ایسی ہی شخصیت گلگت بلتستان کے وزیراعلٰی کی تھی۔وزیر اعلٰی گلگت بلتستان لاہور تشریف لائے۔ان کے دورے کا مقصد تو کشمیر کے ایشو پر چائینہ کی طرف سے منعقدہ سیمینار میں شرکت کرنا تھا۔ الطاف حسن قریشی جس کے منتظمین تھے میری مثبت سوچ کی وجہ الطاف حسین قریشی بھی ہے جو ہمیشہ پاکستان کے بارے میں پر ا±مید باتیں کرتے ہیں۔ موقع کا فائدہ ا±ٹھاتے ہوئے میں نے ان سے انٹرویو کا وقت لیا اور جب بات چیت ہوئی تو مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھاکہ یہ خیالات مسلم لیگ ن کے کسی لیڈر کے ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ن لیگ رہنما تو پرٹوکول کے داعی اور بادشاہی انداز کے مالک ہیں۔ وزیراعلٰی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن نہا یت سادہ اور عام شخصیت کے مالک اور سوچ اور فکر عوامی توقعات کے عین مطابق تھی۔ حافظ حفیظ الرحمٰن حال ہی میں گلگت بلتستان میںپی پی اور پی ٹی آئی کو شکست دے کر مسلم لیگ ن کو گلگت بلتستان کی بڑی جماعت کے طور پر سامنے لے کر آئے حافظ حفیظ الرحمٰن نے بتایا کہ21ٹکٹیں انہوں نے تقسیم کی جس پر مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے کہا کہ یہ 21ٹکٹیں تقسیم کر رہے ہو کیا یہ صرف خانہ پوری کے لیے ہیں۔ لیکن میں نے کہا کہ اِن کو approveکریں نتائج الیکشن میں آپ کے سامنے ہونگے اور ہم نے 15سیٹیں جیت لی۔ گلگت بلتستان میں الیکشن میں مسلم لیگ ن کے گورنرکی تعیناتی کی وجہ سے دھاندلی ہونے کے حوالے سے سوال کیا تو حافظ حفیظ الرحمٰن نے بتایا کہ میں نے مسلم لیگ ن کی تنظیمی ڈھانچے کو پہلے مکمل کیا پھر ٹکٹ دینے کے مرحلے میں بھی پارٹی ورکرز اور پرانے ساتھیوں کا ہی انتخاب کیا ۔ ایک وجہ گلگت بلتستان میں ن لیگ کے جیتنے کا یہ بھی ہے ۔ جب اس کے برعکس پی ٹی آئی نے لوٹوں کو ٹکٹ دیئے جس سے ا±ن کے اپنے ورکرز ناراض ہو گئے۔ اور پی ٹی آئی کو نقصان ہوا۔ حافظ حفیظ الرحمٰن نے کہا ا±نھوں نے حلف لیتے ہی 100دنوں کا پہلا ٹارگٹ سیٹ کیا ہے۔ جس پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ حافظ حفیظ الرحمٰن نے پچھلی حکومت یعنی پیپلز پارٹی کے وزیراعلٰی مہدی شاہ کے حوالے سے انکشاف کیا کہ وہ سرکاری خزانے میں سے اسلام آباد میں کرائے کا گھر استعمال کر رہے تھے۔ جس کا کرایہ 500ڈالر تھا جو کہ پاکستانی 500,000/-روپے بنتے ہیں جس کو ہم نے فوری طور پر خالی کر والیا ہے۔ پی پی کی گلگت بلتستان کی حکومت نے عوامی نہیں بلکہ ذاتی شاہ خرچیاں شروع کر رکھی تھی۔ جس کو ہم نے فوری طور پر بند کروادیا ہے اور قومی خزانے کو نقصان سے بچایا ۔ اور وزیراعلٰی نے بتایا کہ میں نے صرف سرکاری سکیورٹی دو گاڑیوں کو اپنے لیے مختص کیا ہے۔ اور سرکاری پرٹوکول کو ختم کردیا ہے۔ ا±نہوں نے کہا کہ بادشاہی سٹائل میں جب وزیراعلٰی نکلے تو آگے پیچھے لال بتی والی گاڑی روٹر کر رہی ہوتی ہے۔ اس کو بھی ہٹوادیا ہے ۔ کیو نکہ ہم عوام کے نمائندے ہیں۔ اور عوام کا تحفظ ذمہ داری ہے نہ کہ ہم حکومت میں آکر شاہانہ زندگی اپنائے۔ حافظ حفیظ الرحمٰن کا جذبہ اور باتیں اسلیے بھی سچ معلوم ہو رہی تھی۔ کیونکہ ا±نہوں نے عمل سے ایسا ثابت بھی کر دیا تھا۔اور ایک صوبے کے بادشاہ نہیں بلکہ عوامی نمائندہ جیسا طرز زندگی اپنا یا تھا۔تو بس میں نے حافظ حفیظ الرحمٰن سے کہا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ خیالات مسلم لیگ ن کی سنٹرل اور پنجاب کی لیڈر شپ کے ہوتے اور آپ کے ان اقدام کو مسلم لیگ ن کو سنٹر اور پنجاب میں بھی فولو کرنا چاہیے تھا حالانکہ یہ ہو تا ہے کہ لیڈر کو سیاسی ورکرز فولو کر تے ہے لیکن یہاں پر سیاسی ورکر Exampleسیٹ کر رہا ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ سیاسی ورکرز عوام سے ہوں تو ا±ن کو عوام کے دکھ کا ادراک بھی ہوتا ہے۔ اگر سیاسی لیڈر طاقت ور ہو جائے اور دوسروں کو بھیڑ بکری سمجھے تو پھر بڑے بڑے برج گرتے بھی دیر نہیں لگتی۔مسلم لیگ ن کوچاہیے کہ اسطرح کے سیاسی ورکرز کو آگے لائے تاکہ وہ عوامی ا±منگوں کی ترجمانی کریں۔ حافظ حفیظ الرحمٰن نے کہا کہ گلگت بلتستان کو ایک ماڈل صوبہ بنا کر مثال قائم کریں گے۔