گروہی و فکری تعصبات اور ہمارا معاشرہ

کسی بھی بڑے انسان کی دیگر نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ وہ تجزیہ کرتے وقت غیرجانبداری کے عنصر کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ غیرجانبداری وہ وصف ہے جو سچائی کی صحیح پرکھ کرتی ہے اور یوں دوسرے لوگوں تک حقیقت پہنچتی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم تعصبات کی زنجیر میں بُری طرح جکڑے ہوئے ہیں اور یہ زنجیر ہم نے اپنے آپ سے باندھی ہوئی ہے حالانکہ اس سے نکلنا کوئی مشکل کام نہیں۔ سیاسی وابستگیاں ہوں یا فقہی اختلافات، نسلی تعصبات یا پیشہ وارانہ معاملات ہمارے خیالات غیرجانبداری سے عاری ہوتے ہیں اور زیادہ تر اپنے اپنے دھڑوں کو Promote کرنا ہی ہمارا مقصد بن گیا ہے۔
ان تعصبات نے معاشرے میں گہری لکیریں کھینچ دی ہیں اور یہ لکیریں نہ صرف فقہی و سیاسی معاملات میں بلکہ جیسا کہ عرض کیا گیا نسلی اور پیشہ وارانہ معاملات میں بھی کھنچ گئی ہیں۔ برداشت اور تحمل کا دامن مکمل طور پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ تعصب دوسرے بہت سے شعبوں کی طرح تجزیوں میں بھی در آئی ہیں چنانچہ آج کا دور جو میڈیا کا دور ہے اس میں اس صورتحال کی موجودگی فی الحقیقت Confusion کو زیادہ جنم دے رہی ہے جبکہ صحیح معلومات عام آدمی تک کم پہنچ رہی ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر ہونیوالے مذاکرے اور اخبارات و جرائد میں لکھے جانےوالے تبصرے پڑھ کر قاری ایک ایسی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے کہ جس میں اس کیلئے کسی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مختلف نکتہ ہائے نظر سننے یا پڑھنے کے بعد سامع یا قاری صحیح نتیجے پر پہنچ سکتا ہے لیکن عملاً ایسی صورتحال نہیں ہے اور اس کی بنیادی وجہ تجزیہ نگاروں میں غیرجانبداری کا فقدان ہے۔ جانبداری کے معاملات زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیاست کے شعبے کی طرف دیکھیں تو مختلف سیاسی نظریوں والے لوگ ایک دوسرے کو سننے اور برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ فقہی معاملات لیں تو یہاں بھی صورتحال زیادہ حوصلہ افزاءنہیں۔ حقیقت میں یہ معاملات اتنے مختلف نہیں ہوتے اور صرف فروعی معاملات پر اختلاف رائے ہوتا ہے۔ ایک پیشہ سے تعلق رکھنے والے لوگ دوسرے کی فنی خوبیوں کے بھی منکر ہوتے ہیں اور پیشہ ورانہ رقابت کو ذاتی مخالفت میں تبدیل کرلیتے ہیں۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح علم و ادب میں بھی کم و بیش اسی قسم کی صورتحال ہے۔ ہمارا ملک اچھے لکھنے والوںسے مالامال ہے اور زرخیز اذہان کی یہاں کوئی کمی نہیں، لکھنے والے بہترین شاعری اور نثر لکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے بعض اوقات یہاں بھی قابل لوگ پذیرائی سے محروم رہ جاتے ہیں یا اس قدر پذیرائی حاصل نہیں کر پاتے جوان کا حق ہے۔ ایک اچھے معاشرے میں اچھے ادیب کی قدر بالکل کھلے دل کے ساتھ ہونی چاہیے۔ سیاسی نظریات میں گروہ بندی اور فکری اختلاف کا اثر ادب میں بھی در آیا ہے اور ہمارے کچھ شاعر اور ادیب بھی دائیں اور بائیں کی کشمکش کے نتیجے میں گروہ بندی کا شکار ہو گئے۔ چنانچہ ناموری کیلئے کسی نہ کسی دھڑے سے وابستگی معیار ٹھہرا اور جو لوگ اس گروپ بندی میں شامل نہ ہوئے وہ تن تنہا سچائی کا علم ہاتھوں میں تھامے آگے بڑھتے رہے تاآنکہ ان میں سے بعض زندگی کی قید سے رہا ہو گئے۔ سچائی کے راستے کے غیرجانبدار لوگ آج بھی اسی طرح اپنی مشعلیں جلائے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے گروہوں میں بھی وہ لوگ سرکردہ نظر آئے جن پر اپنے سردار کی کرم کی نظر پڑی جبکہ دوسرے لوگ پیچھے رہ گئے۔ سچائی کے سفر کے مسافر علامہؒ کے اس شعر
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
کے مصداق اپنے راستے کی طرف گامزن رہے اور آج بھی ہیں۔ گروہ بندی اور تعصب میں ہم اپنے کچھ ایسے بزرگوں کی قدر نہ کر سکے جن کی قدر ہم پر لازم تھی۔ فردوسی اسلام ابوالاثر حفیظ جالندھری اس کی ایک بڑی واضح مثال ہیں۔ ”شاہنامہ اسلام“، ترانہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے ترانے کے خالق کو جو مقام ملنا چاہیے وہ انہیں نہیں دیا گیا۔ ہزاروں شاعر اور ادیب آئے جنہوں نے نہایت اعلیٰ پائے کے ادبی شہ پارے تخلیق کئے۔ ان خالقوں کے فن کی داد نہ دینا انتہائی درجہ کم ظرفی ہو گی لیکن ذرا سوچئے تاریخ اسلام کو نظم کرنے کا خیال کسے آیا اور کس نے شب و روز محنت کرکے اس کو تخلیق کیا، تحریک پاکستان کے دوران جلسوں میں کون اپنی شاعری سے لوگوں کے دل گرماتا رہا، جنگوں کے دوران غازیوں، شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے، برستی گولیوں میں کون محاذ جنگ پر جاتا رہا اور خود بھی دشمن کی گولیاں کھائیں، یہ اعزاز ابوالاثر حفیظ کو حاصل ہوا۔ یہ ہے فنِ شاعری کا بہترین استعمال لیکن اسکے بدلے میں ہم نے ان کی کیا قدر کی یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ یہ نام قوم کے بچے بچے کی زبان پر ہونا چاہیے تھا۔ ان کا مزار انکی وصیت کے مطابق انکے مرشد علامہ اقبالؒ کے قدموں میں ہونا چاہیے تھا۔ ہمارے ادبی نصاب ان کے کلام سے بھرے ہونا چاہیے تھا۔ ریڈیو اور ٹیلیویژن پر انکے کلام کو مناسب وقت ملنا چاہیے تھا۔ ان کی ذات اور شاعری پر تحقیق کا کام زیادہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ وہ گفتار کے ہی نہیں، کردار کے بھی غازی تھے اور ان دونوں میں بہرحال بہت فرق ہوتا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ تلاش کی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ بعض ادبی گروہ پروروں نے اپنے پروپیگنڈے کی توپوں کا رخ اس شخصیت کی طرف رکھا اور عوام سے لیکر خواص تک کو ان سے بدگمان کرنے کی کوششیں کیں۔ انکی فنی حیثیت کو نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اتنے بڑے ملک کی کسی سڑک تک کا نام ان سے منسوب نہیں۔
موجودہ حالات میں اس جانبداری اور گروہ بندی نے ایک اور خطرناک صورتحال پیدا کر دی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر حکومتی اہلکاروں کی شہہ پر قائداعظمؒ اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے اختلافی بحث شروع کر دی گئی ہے۔ مخالف نظریات والے لوگ ٹی وی پر آکر منفی پروپیگنڈہ کر رہے ہیں جو عوام کے ذہنوں میں اوہام کو جنم دے رہا ہے۔ بڑی عمر کے لوگ اس جھوٹے پروپیگنڈے سے پریشان ہیں کیونکہ وہ حقائق سے واقف ہیں لیکن نوعمر اور نوجوان طبقہ اس کا اثر قبول کرے گا کیونکہ اس پروپیگنڈہ کا جواب اس طرح سے نہیں دیا جا رہا جس کی ضرورت ہے۔ ان معاملات کو نہایت سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور انکی حوصلہ شکنی اور پروپیگنڈے کا مو¿ثر توڑ کیا جانا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن