برہمن کا بھارت

گزشتہ کالم میںجنوبی ایشیاکے چھوٹے ممالک کا ذکر ہوا تھا کہ ان ممالک کی آزادی پاکستان کی آزادی کی مرہون ِ منت ہے۔ ایک ملک برما بھی اسی فہرست میں شامل ہے ۔ برما 1948ءمیں آزاد اور علیحدہ ہوا تھا۔ 1948ءہی وہ سال ہے جس میں سری لنکا آزاد ہوا جبکہ بھوٹان اور نیپال پہلے سے آزاد ریاست تصور ہوتے تھے مگر پاکستان کے آزاد ہونے سے ان دو ریاستوں کو تقویت ملی بصورت ِ دیگر ہندو مت کے مطابق برصغیر کا پورا خطہ دھرتی ماتا یعنی اکھنڈ بھارت تھا۔ بھارت نے آزاد رہنے کا اعلان کرنے والی مناوادر،حیدر آباد اور جونا گڑھ جیسی کئی رےاستوں پر قبضہ کر لےا تھا۔آج بھی اکھنڈ بھارت کے حامی ہندو یہ تجویز کرتے ہیں کہ بھلے اتنے ممالک آزاد اور علیحدہ ہو چکے ہیں پھر بھی جنوبی ایشیا کو ایک Confederationکی شکل میں ایک ہو جانا چاہیے تاکہ لوگ بلا روک ٹوک ایک سے دوسرے ملک میںیورپی یونین کی طرزپرآ جا سکیں ۔ بھار ت ایک سیکولر ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے مگر بھار ت میں راج ہندﺅوں کا ہے وہ بھی برہمن ہندﺅوں کا :ہندومت کے مطابق پیدائشی طور پر ہی کسی بھی ہندو کی ذات کا تعین ہو جاتا ہے۔ آپ اسے ہندو مت کے فرقے بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ان میں سب سے اعلیٰ درجہ برہمن کو حاصل ہے ۔ یہ فرقہ سوچ و بچار ، علم و فکر کر سکتا ہے ۔ برہمن کے بعد کھشتری ، ویش اور سب سے آخر میں شودر آتے ہیں ۔ آج کے اس جدید دور میں بھی دنیا کا سب سے بڑا اور محروم طبقہ شودر تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا کا سب سے محروم طبقہ کبھی Negroنسل کے لوگ یعنی کالے رنگ والے تصور کیے جاتے تھے۔ ہندو مذہب کے مطابق ان کا کھانا پینا ، رہنا سہنا ہر چیز علیحدہ ہونی چاہییے حتیٰ کہ مقدس کتابوں کے شبد بھی شودر کے کان تک نہیں پہنچنے چاہئیں اور روزمرہ زندگی میں ہاتھ ملانا تو دور کی بات ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی اعلیٰ ذات کے ہندو کو ٹچ نہیں کرنا چاہیے ۔ اسی لیے مغربی مصنف ان کوUn touchablesکہتے ہیں ۔ شودر لوگوں کو خاص توجہ انگریزوں کے دور میں ملی کیونکہ انگریز کو تعجب ہوا کہ دنیا کا ہر بڑا مذہب برِصغیر میں موجود ہے سوائے عیسائیت کے تو اس کی نظر سب سے محروم طبقے یعنی شودر پر پڑی اور شودر عزت ، عہدہ ، تعلیم ملنے کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر عیسائیت مذہب میں شامل ہوگئے۔
آپ ایک امر پر غور کریں کہ جنوبی ایشیا میں آج بھی صفائی ستھرائی ، کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام کرنے والے زیادہ تر لوگ عیسائی مذہب کے ہوتے ہیں اور آج بھی لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے کھانے کے برتن علیحدہ ہی ہوں ۔ بھارت میں علیحدگی کے خواہشمندوں میں شودر مسلک کے لوگ بھی شامل ہیں اور کئی بار ہا شودروں نے ریلیاں اور جلسے بھی کئے۔
بھارت کے پہلے وزریر اعظم کے انتقال کے بعد 1964ءمیں لال بہادر شاستری وزیر اعظم بنے جو کہ برہمن خاندان سے نہیں تھے اور چھوٹی ذات کے ہندو تصور ہوتے تھے تو ان کو زیادہ خوشدلی سے قبول نہ کیا گیا ۔ آپ کو یہ بات جان کر انتہائی حیرت ہوگی کہ شاستری تاشقند معاہدے پر دستخط کرنے موجودہ ازبکستان گئے تو 10جنوری 1966ءکو اس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد اسی رات اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے۔ وجہ دل کا دورہ بتائی گئی ۔ جس کو شاستری کا ذاتی ڈاکٹر ماننے سے انکاری تھا۔ ازبکستان اس وقت سویت یونین کا حصہ تھا اور بھارت کی طرف داری کرتا تھا ۔ سویت یونین کا عمل دخل بھارت میں بہت ززیادہ تھا۔ روس کے جاسوس یا انٹیلی جنس آفیسر نہ صرف سرعام بھارت میں آتے جاتے تھے بلکہ طویل قیام بھی کیا کرتے تھے۔ روسی جاسوس نے اپنی کتاب میں واضح طور پر تحریربھی کیا ہے کہ وہ نہرو خاندان کے ایماءپر ممکنہ سیاسی حریفوں کا قتل بھی کیا کرتے تھے۔ لال بہادر شاستری بھی ان میں سے ہی تصور کئے جاتے تھے۔ شاستری کی بیوی لالیتا شاستری کی کتاب’ لالیتا کے آنسو‘ بھی شائع ہوئی جس میں ظالمانہ طور پر قتل ہونےو الے غیر برہمن شاستری کی عکاسی اور اپنے غم بھرے جذبات کا اظہار کیاگیا ۔ شاستری کا ایک بیٹا پاکستان آکر ٹی وی شوز میں اس قتل کا برملا اظہار کر چکا ہے ۔ یوں 1966ءمیں شاستری کے قتل کے بعد اندرا گاندھی اقتدار میں آگئیں جو روایتی طور پر اکھنڈ برہمن ذہینت کی حامی تھیں ۔ اندرا گاندھی مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کی بھی مخالف تھیں جس میں سکھ نمایاں تھے۔ سکھ تحریک کے علیحدگی پسند رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ نے بھارتی آئین کی اس شق پر اعتراض کیا جس کے مطابق سکھ ہندﺅوں میں سے ہیں ۔یہ سکھ حریت پسند بھارت سے علیحدہ ہو کر خالصتان کے قیام کا حامی تھامگر اندراگاندھی نے سکھوں کے سب سے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کا حکم دیا جس کے نتیجے میں جرنیل سنگھ کی زندگی ساتھیوں سمیت ختم کر دی ۔ اسی ظلم کے انتقام میں اندرا گاندھی اپنے دو سکھ محافظوں کے ہاتھوں 1984ءمیں قتل ہوگئیں۔
واضح رہے ، کانگرس کے سب سے نمایا ں لیڈر بابائے بھارت گاندھی کو بھی اونچی ذات کے ہندو نتھو رام نے صرف اسلئے 1948ءمیں قتل کر دیا تھا کہ گاندھی بظاہر ہندﺅوں کی پر تشدد کارروائیوں کے خلاف تھے اور خود مذہبی طور پر اعلیٰ ذات کے ہندو نہ تھے۔ مزید یہ کہ گاندھی کے مذہبی افکار میں جین مت مذہب کی جھلک بھی شامل تھی اور مسلمانوں کے خلفائے راشدین کی تعریف کرنا بھی گاندھی کے قصور تصور کئے جاتے تھے۔ مجموعی طور پر بھارت میں اب تک 51برس صرف برہمن ذات کے وزراءاعظم نے قیادت بلکہ حکمرانی کی ہے جب کہ صرف ایک غیر ہندو منموہن سنگھ، وزیر اعظم آئے اس لئے بجا طور پر بھارت سیکولر نہیں ، ہندو بھی نہیں بلکہ برہمن کا بھارت ہے ۔

ای پیپر دی نیشن