نوید کریم چودھری اوسط عمر کو پہنچ گئے ہیںمگر سابق آئی جی پولیس چودھری سردار محمدکی صحبت نے انہیں قومی سلامتی کے امور کی مہارت سے مالا مال کر رکھا ہے۔یہ چودھری سردار فائونڈیشن کے سربراہ بھی ہیں جس کے سہ ماہی اجلاس باقاعدگی سے جاری رہتے ہیں، ان میں بلوچستان سے سردار یعقوب ناصر بھی شریک ہوتے رہے ہیں ، ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے مگر فائونڈیشن کے اجلاسوںمیں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے بلوچ راہنما بھی شریک ہو چکے ہیں۔نوید کریم کے والد چودھری عبدالکریم کو کنگ آف کول کہا جاتاتھا ، ان کاکوئلے کا بزنس میانوالی سے بلوچستان تک پھیلا ہو اتھا اور اسے کنٹرول کرنے کے لئے انہوںنے ملتان کو ہیڈ کوراٹر بنا رکھا تھا۔ان کی ناگہانی وفات کے بعدنوید کریم نے کاروبار کو مکڑ وال ، میانوالی کی کانوں تک محدود کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ بلوچ سرداروں کے بیٹوںنے اپنے اپنے طور پر کاروبار شروع کر دیا ہے ۔اس لئے وہاں سے ہم واپس آ گئے ہیں۔ یہ واپسی کاروبار تک محدود ہے، تعلقات کی واپسی نہیں، یہ کئی عشروں اور کئی نسلوں پر محیط ہیں۔
چودھری سردار فائونڈیشن کے پاس بہت بڑا تحقیقی سرمایہ جمع ہو چکا ہے۔اس میں وہ ذاتی ڈائریاں بھی شامل ہیں جو ایڈیشنل آئی جی کی حیثیت سے سردار محمد چودھری مرتب کرتے رہے، ان کا بہت کم حصہ ان کی خود نوشت جہان حیرت میں شامل ہو سکا ہے، باقی مواد کی حساسیت کے پیش نظر فی الحا ل اسے مقفل کر دیا گیا ہے۔
بلوچستان میں حالیہ د ہشت گردی کے موضوع پر فائو نڈیشن کے اجلاس میں خصوصی طور پر غور کیا گیا، سبھی شرکا کی متفقہ رائے تھی کہ یہ بھارت کی شیطانی حرکت ہے، اس اجلاس کے انعقاد تک بھارتی وزیر اعظم مودی کے بیانات سامنے نہیں آئے تھے۔
چودھری نوید کریم نے کہا کہ ان کا رابطہ کوئٹہ ا ور دوسرے علاقوں کی لیڈر شپ سے ہوا ہے۔ اس کی روشنی میں وہ کہہ سکتے ہیں کہ بھارتی را کے ایجنٹ کل بھوشن کی گرفتاری پر پاکستان میں جو خاموشی دیکھنے میں آئی، اس کا فائدہ بھارت نے اٹھایا ہے، بھارت کو محسوس ہو گیا تھا کہ پاکستان میں کل بھوشن پر شور وغوغا نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عام پاکستانی بھارت کو بلوچستان کے حالات کی خرابی کا ذمے دار نہیں سمجھتا۔ مگر نوید کریم نے کہا کہ اصل میں بھارت ہمارے ذہنوں کو مائوف کر چکا ہے، اس نے پیسے سے ہمارے ان حلقوں کو خرید لیا ہے جو رائے عامہ بنانے کا فریضہ ادا کرتے ہیںاور یہ حلقے بھارت کی چیرہ دستی پر جان بوجھ کر خاموش رہتے ہیں، نوید کریم نے کہا کہ ہمارے سیاستدانوں نے جس قدر ہنگامہ پانامہ لیکس پرمچایاہے،ا سے آدھا شور بھی بھارت کے خلاف مچایا جاتا تو بھارتی وزیر اعظم کو مکے لہرا کر پاکستان کو دھمکیاں دینے کی جرات نہ ہوتی، بھارت جب دیکھتا ہے کہ ہم آپس میں بری طرح الجھے ہوئے ہیں تو وہ اپنی دہشت گردی کاسلسلہ تیز کر دیتا ہے ا ور اب تووہ علی الاعلان ایسا کر رہا ہے۔
نوید کریم کو حیرت ا س بات پر ہے کہ یہ اقوا م متحدہ کو کیا ہو گیا ہے کہ اس کے سیکرٹری جنرل نے یہ کہہ د یا کہاکہ عالمی ادارہ کشمیر کے دونوں حصوں میں حقائق معلوم کرنے کے لئے وفد بھیجنے کو تیار ہے، اس وقت شورش مقبوضہ کشمیر میں برپا ہے، ساٹھ روز سے وہاں کرفیو نافذ ہے، روز بھارتی فوج کی ظالمانہ فائرنگ سے شہادتیں ہو رہی ہیں اور بان کی مون صاحب آزاد کشمیرکوبھی مقبوضہ کشمیر سے ملا رہے ہیں، یہاں تو مکمل امن و امان ہے، ابھی ابھی الیکشن ہوئے ہیں اور عوام نے اپنے نمائندے ا ٓزادانہ مرضی سے منتخب کئے ہیں، اس الیکشن پر تو عمران خان نے بھی دھاندلی کا الزام نہیں دھرا تو پھر بان کی مون کس مقصد کے لئے اپنا وفد آزاد کشمیر بھجنا چاہتے ہیںا ور مودی سے بھی کوئی پوچھے کہ وہ آزاد کشمیر کے عوام کے حقوق کے لئے ا ٓواز اٹھانے کا دعوی کر رہا ہے، وہاں ایساکیا ہو گیا کہ جس کے لئے مودی کو آواز اٹھانا پڑی، کچھ ہمیں بھی تو معلوم ہو۔ ہاں، بلوچستان میں آج سے نہیں، مودی کی پیدائش سے بھی پہلے سرداروںنے اودھم مچا رکھا ہے،ا ور یہ محض گنتی کے چند لوگ ہیں، کچھ نوجوان ہیں جو قندھار کے بھارتی سفارتخانے سے مال کھاتے ہیں اور ٹھوں ٹھاں کر کے روپوش ہو جاتے ہیں۔نوید کریم نے کہا کہ اگر بھارت کی انگیخت نہ ہوتی تو ایوب خان، بھٹو، ضیا ، مشرف، زرداری اور اب نواز شریف کی حکومت کو بلوچستان میں مشکلات کیوں در پیش ہیں۔نوید کریم نے کہا کہ وہ خود کاروباری ہیں ،اس لئے جانتے ہیں کہ سوویت روس کی شہہ پر بھارت نے بلوچستان میں درا ندازی کی ، سوویت روس تومر کھپ گیا مگر بھارت اپنے ایجنڈے پر قائم رہا اور اب اسے گوادرا ور سی پیک کے منصوبے ایک آنکھ نہیں بھاتے، گوادر تو مستقبل کی دوبئی ہے یا سنگا پوریاہانگ کانگ کی طرح کا ایک بارونق اور اقتصادی خوش حالی سے مالا مال خطہ۔بھارت کو غربت ، بھوک اور بیماریوں کے شکارا س صوبے کی خوش حالی سے چڑ ہے، یہ بات بلوچ نوجوانوں کی سمجھ میں آگئی تو وہ بھارت کی انگلی پر ناچنے سے باز آ جائیں گے۔
مگر یہ بلوچستان کے منتخب نمائندے کیوں وفاق پاکستان کے خلاف بیانات دے رہے ہیں اور وہ بھی قومی اسمبلی کے فلور پر۔ میرا سوال تھا۔ نوید کریم نے کہا کہ یہ گالیاں دینے والے ہی تو صوبے کے مسائل کی جڑ ہیں ، آپ گن لیجئے کہ اچکزئی کے خاندان کے کتنے لوگ حکومت میں ہیں، ان کا سگابھائی بلو چستان کا گورنر ہے ا ور اپنے منصب کے لحاظ سے وہ وفاق کی طرف سے صوبے کے امن وا مان کا نگہبان ہے، اب ایک طرف تو وہ دہشت گردی کو روکنے میں ناکام رہاا ور دوسری طرف بھائی کے منہ سے گالیوں کی بوچھاڑکروا دی۔ایک بات یہ ہے کہ کوئی زیادہ مہینے نہیں گزرے جب وہاں ڈاکٹر مالک وزیر اعلی تھے تو سبھی کہتے تھے کہ قوم پرستوں کی حکومت نے امن قائم کر دکھایا، اب ان کے جانے کے بعد اس قدر سنگین واردات کیسے ہو گئی، یہ سوال موجودہ وزیر اعلی سے بھی پوچھاجانا چاہئے۔ مگر وہ کیا کریں گے جب ان کو ناکام بنانے کے لئے بھارت کی را سر توڑ کوشش کر رہی ہو، سی پیک کے منصوبے کو روکنے کے لئے بھارتی حکومت نے خود چین سے براہ راست بات کی، آخر کیوں ، ان کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھتاہے۔
نوید کریم کہتے ہیں کہ وہ میڈیا اور قانون دانوں کا ایک وفد بلوچستان بھجوانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ وہ موقع پر تمام طبقات سے گفتگو کر کے ان چہروں سے نقاب اتاریں جو پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے بھارت کے زر خرید ایجنٹ بنے ہوئے ہیں۔
آخری نکتہ یہ ہے ، نوید کریم نے مجھے رخصت کرتے ہوئے کہا ، کہ مقبوضہ کشمیر میں امن قائم ہو جائے تو بلوچستان میں ستے خیراں !