انگریزی زبان کے لفظ "Supreme" کا مطلب ہے ” رُتبے یا اختیار میں سب سے بڑھ کر ، بالا ترین ، عظیم ترین اور اہم ترین“ اور مُلک کی سب سے بڑی قانونی عدالت کو "Supreme Court"کہتے ہیں ۔ تو معزز قارئین و قاریات! مرحوم صدر جنرل ضیاءاُلحق کی برسی کے دوسرے دِن (18 اگست کو ) جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ نے فیصلہ صادر کردِیا ہے کہ ” وزیراعظم صاحب کو مالیاتی بِل اور آرڈیننس کی منظوری کے لیے وفاقی وزراءپر مشتمل کابینہ (Cabinet) کو "By Pass" کرنے کا اختیار نہیں ہے چونکہ وہ کابینہ سے "Above" (مرتبے میں بڑھ کر / بالا) نہیں ہیں “۔
عربی کے نامور شاعر اور دانشور جناب خلیل جبران نے کہا تھا کہ ” مَیں کسی سے حسد نہیں کرتا اِس لئے کہ مَیں کسی سے کم تر نہیں ہُوں اور کوئی مجھ سے حسد نہیں کرتا کہ مَیں کسی سے بڑھ کر نہیں ہُوں “۔ سیاست میں اور مختلف وزیروں میں بھی ایک دوسرے سے حسد کا مادہ بہت ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی تو صدر / وزیراعظم بھی اپنے کسی وزیر کی مقبولیت سے حسد سے مُبتلا ہو جاتے ہیں اور وزیر صاحبان بھی اپنے صدر / وزیراعظم کی ٹانگ یا کُرسی کھینچنے میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ ” بائی پاس“ کا مطلب ہے ۔ بچ کر نِکلنا یا سیدھی سڑک کے بجائے متبادل راستہ اختیار کرنا ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں لِکھا گیا ہے کہ ” مالیاتی بِل اور آرڈیننس پر وفاقی کابینہ کی منظوری لازم ہے اور اِس قِسم کے فیصلے وزیراعظم صاحب کابینہ سے بالا بالا ( یعنی خفیہ یا پوشیدہ رکھ کر ) تنہا نہیں کرسکتے ۔ وزیراعظم صاحب کو صوابدیدی اختیارات بھی کابینہ کی منظوری سے استعمال کرنا ہوں گے ۔ ٹیکس میں کمی یا اضافہ کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کو ہے اور وفاقی حکومت قائدِ ایوان ( وزیراعظم ) اور وزراءپر مشتمل ہوتی ہے “۔
اب عام لوگوں کو یہ بات کیسے سمجھ میں آئے گی ؟اور کون سمجھائے گا کہ تیسری بار منتخب ہونے والے وزیراعظم میاں نواز شریف تین سال اور ڈیڑھ ماہ تک وفاقی کابینہ کو ” بائی پاس “ کرتے ہُوئے تنِ تنہا یہ فیصلے کیوں کرتے رہے ہیں ؟۔ عربی زبان میں ” وزیر “ کا مطلب ہے بوجھ اٹھانے والا ۔ اِس لحاظ سے ” وزیراعظم “ کا مطلب ہُوا سب سے زیادہ بوجھ اُٹھانے والا۔ باشاہوں کا زمانہ تھا تو وہ اپنا امورِ مملکت کا بوجھ کم کرنے یا اپنی مدد کے لئے ( وزیر) بھرتی کر لیتے تھے ۔ فوجی آمریت یا جمہوریت میں صدر مملکت یا وزیراعظم اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے وزیر بھرتی کر لیتے ہیں۔
مرحوم شاعر عبدالحمید عدم نے وزیروں کے بارے میں نہیں بلکہ حاجیوں کے بارے میں کہا تھا کہ
” اِس قدر بوجھ تھا ، گُناہوں کا
حاجیوںکا جہاز ڈوب گیا “
مَیں حیران ہُوں کہ عدم صاحب نے اپنے دَور کے یا بعد کے دَور کے وزیروں کے بوجھ کے بارے میں طبع آزمائی کیوں نہیں کی تھی؟۔ بھگت کبِیر کے ایک دوہے میں اگر ” فقیری“ کے بجائے ” وزیری“ جڑ دِیا جائے تو وہ یوں ہوگا ....
” کبیرا وزیری دُور ہے ، جیسے پیڑ کھجور
چڑھے تو پیوے سوم رس، گرے تو چکنا چُور“
میاں نواز شریف دو بار ” بڑی وزیری“ ( وزارتِ عظمیٰ) کے پیڑ پرچڑھے اور اُنہوں نے سوم رس ( نشہ¿ اقتدار کا رس ) بھی پِیا اور اب تیسری بار بھی ( فی الحال ) پی رہے ہیں ۔ یہ الگ بات کہ کچھ اپوزیشن جماعتیں اُنہیں اقتدار کے کھجور کے درخت سے گرانے کی کوششیں بھی کر رہی ہیں ۔ ایسے حالات میں مناسب تو یہ تھا کہ وزیراعظم صاحب اپنی کابینہ کے ارکان کو بائی پاس نہ کرتے اور اُنہیں اعتماد میں لے کر ہی فیصلے کرتے لیکن کیا کِیا جائے کہ میاں صاحب کے"Ideal" تو ذوالفقار علی بھٹو ہیں اور اُنہوں نے تیسری بار بھی ”اندازِ بھٹوانہ “اختیار کر رکھا ہے ۔ آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے اُستاد محمد ابراہیم ذوق نے کہا تھا
”نہ ہُوا ، پَر نہ ہُوا، مِیر کا اندازنصیب
ذوق ، یاروں نے بہت زور غزل میں مارا“
جنابِ بھٹو بھی فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان سے متاثر تھے اور اُن کی"Kitchen Cabnet" کے ممبر بھی لیکن فیلڈ مارشل صاحب بھی اکثر فیصلے اپنی کچن کیبنٹ سے بالا بالا ہی کرتے تھے ۔ اُس دَور کا ( میری جوانی کا ) ایک شعر ہے
” شُعلہ¿ عِشق کو ، اِس طرح اچھالا جائے
آگ یوں بھڑکے ، کہ افلاک سے بالا جائے“
جب فیلڈ مارشل کے خلاف نفرت اور بغاوت کی آگ پھیلی تو اُسے بجھانا اُن کے بس کی بات نہیں تھی۔ قدیم بھارت کے مہاراجا بِکرم آدِتّیہ المعروف مہاراجا بِکرما جیت ( جِس کے نام سے بکرمی سال رائج ہے ) اور اُس کے بعد مُغل بادشاہ اکبر کی ”کچن کیبنٹ“ کو ” نو رتن “ کہا جاتا تھا ۔ وزیراعظم نواز شریف کی ” کچن کیبنٹ “ کے ارکان ( یا رتن ) کتنے ہیں؟ اور کون کون ہے ؟ اُن کا کبھی کوئی باقاعدہ "Notification" تو جاری نہیں کِیا گیا لیکن کبھی کبھی غیر سرکاری ذرائع سے اُن کے نام لِکھے جاتے رہے ہیں ۔ کچن کیبنٹ کے ارکان کی تعداد بڑھنے اور گھٹنے کی خبریں بھی چھپتی رہتی ہیں۔ کچھ دِنوں سے اِس طرح کی خبریں بھی چھپ رہی ہیں کہ ” جو مصاحبِین سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو راگ درباری سُنا کر بالائے بام پہنچ گئے تھے وہ اب میاں نواز شریف کو اپنی ” راگ وِدّیا “سے مسحور کر رہے ہیں “۔
برطانیہ کے ایک کلب میں ایک "Businessman"( تاجر) نے دوسرے بزنس مَین سے پوچھا کہ ” کل تمہارے ساتھ اِسی کلب میں بہت ہی خوبصورت خاتون کون تھی ؟ ۔ اُس نے جواب دِیا کہ ۔ ” وہ میری "Cousin" تھی “۔ پہلا بزنس مَین مسکرایا اور اُس نے کہا کہ ”دو ہفتے پہلے وہ میری کزن تھی“۔ دور بزنس مَین حکمران کا ہو جاگیر دار کا یا فوجی آمر کا ، ہر دَور میں"Cousin Ship" اور "Kitchen Cabinet Ship" کا دور دورہ ہی ہوتا ہے ۔برطانوی جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں وزیراعظم کو چاند اور کابینہ کے ارکان کو ستاروں کی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں تو ستاروں کو بھی کئی مہینوں تک چاند کا دیدار ہی نہیں ہوتا ۔ ایک فلمی گِیت میں ہیروئن نے اپنے محبوب کو چاند قرار دیتے ہُوئے اُسے (غائبانہ ) مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ
” تو کون سی بدلی میں ، میرے چاند ہے آ جا
تارے ہیں میرے زخمِ جگر ، اِن میں سما جا“
اب کیا کِیا جائے کہ ہمارا چاند تو ستاروں کو بھی دُور سے دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے کے بعد صِرف کچن کیبنٹ کے ارکان کی نہیں بلکہ کابینہ کے سارے ارکان کی اہمیت بڑھ جائے گی ۔ نہ جانے آئندہ کِس کو دَورِ حاضر کے ملک ایاز کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ پرانے زمانے میں اپنے شوہروں کی اہمیت کم کرنے اور اپنے بچوں پر اپنے بھائیوں کی دھاک بٹھانے کے لئے مائیں بچوں کو ” چندا ماموں “ کی لوری سُنا کر سُلانے کی کوشش کِیا کرتی تھیں لیکن آج کے دَور میں کسی بھی حکمران / سابق حکمران کے کارکن (وزیر صاحبان بھی ) اپنے لیڈر کو چندا ماموں بنا کر پیش کرتے ہیں تو مفلوک اُلحال عوام اُنہیں کہتے ہیں کہ ” میاں کیوں ہمیں ماموں بنانے کی کوشش کرتے ہو؟“۔ سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے کے بعد کیا ہوگا کون جانے؟۔
"P.M. Cabinet And Kitchen Cabinet !"
Aug 20, 2016