پاکستان قومی ایئرلائن جس کا بڑا ہی شاندار نام ہے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن ہے۔ آج ایک بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ویسے تواس قومی ادارے کی یہ صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے۔کیونکہ گزشتہ دس سالوں یہ اسی طرح رینگ رہی ہے۔اگراس کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو بہت ہی مختصر الفاظ میں یہ بتایا جاسکتا ہے کہ اس پر تقریبا 350 ارب روپے سے زیادہ کا قرضہ ہے۔اس طرح یہ ہر ماہ کروڑوں روپوں کا نقصان قومی خزانے کو پہنچا رہی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی آئی ائے کے ہزاروں ملازمین کو پاکستان کے غریب عوام صرف اس لیئے اپنے ٹیکس سے پیسے ادا کرتے ہیں کہ وہ انہیں ہر مہینے کروڑوں روپوں کا نقصان پہنچائیں۔یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ ایک کمرشل ادارہ جسے اس لیئے کھڑا کیا جاتا ہے کہ وہ منافع کما کردے۔وہ الٹا اپنے غریب عوام کی جیبوں سے نہ صرف خوب پیسہ نکلوارہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ان کے اعتماد کو بدترین نقصان پہنچا رہا ہے ۔ اس بات کا کئی دفعہ ذکر آچکا ہے کہ جس جہاز کو اڑانے کیلیئے کسی دوسری ائیرلائن کو 50 یا 55 افراد کی ضرورت ہوتی ہے اسی جہاز کو فضا میں بھیجنے کے لیئے ہماری قومی ایئرلائن کو تقریبا 600 باکمال افراد کی ضرورت پڑتی ہے۔چلیں ان 600 افراد کا بوجھ بھی برداشت کرلیا جاتا اگر یہ قومی ادارہ اپنے مسافروں کو وہ سہولتیں فراہم کر رہا ہوتا جو اسے دوسری ایر لائنز سے بہتر،اور ممتاز کرتیں۔اندرون ملک جہازوں کی آمدورفت اور روزانہ لیٹ ہوجانے کے قصے تو آپ نے تقریبا روز ہی اخباروں اور ٹی پر دیکھیں ہونگے۔لیکن جس قسم کی شکایات بیرون ملک سفر کرنے والے لوگ اس قومی ادارے کے بارے میں کرتے ہیں وہ تو سن کر دکھ ہوتا ہے۔شاید یہی وہ وجہ ہے جس کی بنا پر روز بہ روز فلائٹس کی تعداد میں کمی آتی جارہی ہے۔جبکہ بیرون ملک مختلف شہروں میں کسٹمر سروسز کے دفاتر بھی بند ہوتے جارہے ہیں۔12لاکھ پاکستانی نثراد برطانوی اور ان کے ہزاروں رشتے دار جو اس قومی ایئرلائن سے سفر کرنے کے آرزو مند ہیں۔وہ اس کی زبوںحالی اور سہولتوں کا فقدان اور افسران اور اہلکاروں کا رویہ دیکھ کراب پی آئی اے کا نام سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔اوردوسری ایرلائنز سے سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے علاوہ یہاں اور وہاں اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی تلقین کرتے ہیں کہ پی آئی اے میں سفر گھاٹے کا سودا اور ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔یہی وجہ کہ اب بیشتر اوقات پی آئی اے کے جہازوں پر محض ایک ٹکٹ خرید کر ،ایک مسافر چار چار سیٹوں پر لیٹ کر سفر کرتا ہے۔یہ ساری تفصیلات سن کر اور دوسرے لوگوں سے معلومات اکھٹی کرنے کے بعد محسوس تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ یہ قومی ادارہ جو مالی تباہی کا شکار تھا انحطاط کی آخری منزلوں تک پہنچ رہا ہے۔اندرون ملک ، پی آئی اے کے ملازمین ،منیجمنٹ ،جو گل کھلا رہے تھے۔عوام یہ سوچ کر معاف کردیتے ہیں کہ یہ اندرونی معاملہ ہے۔لیکن جب پاکستان کا فلیگ کیریئر جو بڑے فخر سے یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ پچاس سے زائد ملکی اور غیرملکی مقامات پر پرواز کرتا ہے۔وہ اس پست معیار کی کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا تو اس سے قومی امیج پر کیا اثر پڑے گا۔ ا س کالم میں لکھی گئی گزارشات اگر غلطی سے قومی ادارے کے کسی ذمدار کی نظر سے گزر جائے تو اسے ضرور اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہیئے۔ تاکہ بیرون ملک جانے ،اور رہنے والے پاکستانیوں ، جو کہ اپنی قومی ایئرلائن پر سفر کرنے کے خواہش مند ہیں یا اس کے ہاتھوں ستائے ہوئے ہیں۔کم از کم انہیں کسی حد تک سہی صورتحال کا کچھ علم ہوجائے۔ باقی حکومت اور منسٹری کی عہدیداورں سے بھی گزارش ہے کہ کوئی ایسا قدم اٹھائیں ،جس سے یہ ادارہ جو ایک زمانے میں ہماری شان کی علامت تھا کم از کم اس معیار پر تو آجائے۔جس سے اس پر سفر کرنے والے مسافروں کا اعتماد بحال ہو اور مستقبل کے لیئے کوئی بہتر راہ کا دکھائی دے۔