مُلا نماز پڑھنے دے مسجد میں بیٹھ کر

سٹیزن کونسل آف پاکستان کے زیراہتمام ایک خصوصی اجلاس میں ان تجاویز اور اقدامات پر مذاکراتی بحث کی گئی جو پاکستان میں مذہبی تفرقہ بازی‘ انتہاپسندی اور خودکش دھماکوں کا سدباب کرسکتے ہوں خاکسار اس کونسل کا سیکرٹری جنرل ہے اس لئے نظامت کے فرائض کی ادائیگی بھی میرے حصے میں آتی ہے۔ تلاوت قرآن پاک اور نعتیہ اشعار کے بعد سٹیزن کونسل آف پاکستان کے صدر رانا امیر احمد سے درخواست کی گئی کہ وہ آج کے اجلاس کے حقیقی مقاصد پر روشنی ڈالیں تاکہ مسجد میں آنے والے مقررین اس زاویئے سے گفتگو کرسکیں۔ رانا امیر احمد خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ہمارے پیارے ملک میں مذہبی تفرقہ بازی اور انتہاپسندی کی اصل جڑ بعض دینی مدرسے ہیں جو اپنے مخصوص عقائد طالب علموں کے دماغوں میں بٹھا دیتے ہیں اور دوسرے مسلمان مسالک سے نفرت کے بیج ان کے دلوں میں کاشت کردیتے ہیں جو کچھ عرصہ بعد نفرت آمیز فصل کی صورت میں لہلہلانے لگتے ہیں۔ آج کا اجلاس اسی صورتحال کا جائزہ لینے اور عوامی سطح پر دماغوں میں ایک دوسرے کیخلاف نفرتوں اور ناپسندیدگی کا سیلاب روکنے کیلئے تجاویز حاصل کرنے کیلئے بلایا گیا ہے۔ اس کے بعد میری باری آئی تو میں نے اپنی تقریر کا آغاز علامہ اقبال کے اس مشہور مصرعے سے کیا: دینِ مُلا فی سبیل اللہ فساد
یوں تقریر مذہبی انتہاپسندی‘ نسلی اور لسانی انتہاپسندی اور صوبائی انتہاپسندی کے سماجی اور معاشرتی منفی پہلوئوں کو اُجاگر کررہی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ ہر مسجد خُدا کا گھر ہوتی ہے اس پر کسی فرقے یا نظریئے کا تسلط نہیں ہوسکتا۔ فرقہ پرستی اور مذہبی منافقت ختم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مساجد کے باہر لکھے ہوئے فرقائی نام مثلاً مسجد بریلوی‘ دیوبندی‘ اہلحدیث اور شیعہ مسجد وغیرہ قانونی طور پر ممنوع قرار دیئے جائیں۔ اس پر مسجد پر ایسا نام لکھا جائے جس پر کسی کو فرقہ وارانہ اعتراض نہ ہو۔ ہر مسجد کے امام پر قانونی پابندی ہو کہ وہ فرقہ واریت کو فروغ دینے والی تقریر نہ کرے۔ ایسی تقریر پر سزا مقرر کی جائے اور ایسے مقرر کی امامت پر ہمیشہ کیلئے پابندی لگا دی جائے۔ مذہبی انتہاپسندی پر مبنی فرقہ وارانہ کُتب اور رسائل پر بھی مستقل پابندی لگا دی جائے۔ مولانا حضرات پر لازم قرار دیا جائے کہ وہ ہمارے آخری نبیؐ اور ان کے چاروں خلفائے راشدین کے فرامین تک کو اپنی تقاریر کو محدود رکھیں۔ پاکستان کے تین صوبوں بلوچستان‘ سندھ اور خیبر پختونخواہ میں بھارت کے تربیت یافتہ افراد صوبائی تعصبات پھیلا رہے ہیں۔ ان تینوں صوبوں کے کچھ لوگ پیسے کے لالچ میں بھارتی سازش کو تعاون مہیا کررہے ہیں۔ اس ساری صورتحال کو بے نقاب کیا جانا ضروری ہے تاکہ زرخرید پاکستانی صوبائی نفرت پھیلانے سے باز آجائیں۔
نامور صحافی اور دانشور جناب قیوم نظامی نے جو فرمایا اس کا مختصر بیانیہ یہ ہے کہ فرقہ واریت ختم کرنے کیلئے پڑھے لکھے لوگ آگے نہیں آتے‘ قرآن اور آنحضورؐ کا گہری نظر سے مطالعہ ہم نہیں کرتے۔ حضورؐ کے فرموادات اور قرآن میں اللہ نے جو فرمایا اس کو چھپانے کے بجائے واضح کرنا چاہئے لیکن ہمارے لوگ حضرات قرآن کی حقیقی تشریح نہیں کرتے کیونکہ وہ خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ قرآن میں صاف لکھا ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میں بٹ گئے۔ حضورؐ کی تعلیمات کو عام کیا جائے تو فرقہ واریت ختم ہوسکتی ہے۔ نظامی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ جو آئین اور قانون پر عمل نہیں کرتا وہ بھی انتہاپسند ہے جو مولوی تفرقہ بازی کو فروغ دے رہے ہیں وہ اسلام دشمن ہیں۔
ریٹائرڈ آئی جی پولیس جناب الطاف قمر کے پاس تو اعدادوشمار کا ایک ذخیرہ تھا اور حقائق بھری داستانیں تھیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں پُرتشدد فرقہ واریت کا آغاز 1986ء میں ہوا‘ 1989ء میں شیعہ سنی لڑائی شروع ہوئی‘ 2016ء تک مذہبی فرقہ واریت کے پرچم تلے ساڑھے تین ہزار سے زائد حملے کئے گئے۔ گزشتہ بارہ سالوں میں چھ ہزار سے زیادہ خودکش کارروائیاں کی گئیں جن کے نتیجے میں بائیس ہزار شہری اور چھ ہزار فوجی مارے گئے۔ گزشتہ پچیس برسوں میں پچاس ہزار کے لگ بھگ پاکستانی مارے جاچکے ہیں۔ میں جہاں بھی پولیس افسر کے طور پر تعینات ہوا سفید کپڑوں میں پیدل چل کر ہر جمعہ نئی مسجد میں پڑھتا تھا اور مولوی حضرات کی تضاد آمیز تقاریر سنتا تھا۔ گجرات کی ایک مسجد میں دس ہزار نمازی آئے تھے وہاں مولوی نے اتنی قابل اعتراض تقریر کی کہ میں نے سوچا کہ یہ خطیب ابھی قتل ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اختلافی اور اسلام سے متصادم تقاریر سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ حکومت کی جانب سے لکھا ہوا خُطبہ مہیا کیا جائے جسے خُطبہ جمعہ کے طور پر مولوی پڑھ کر سنائیں۔سابق اکائونٹینٹ جنرل پنجاب نے ایک حیرت انگیز واقعہ سنایا جو کچھ یوں ہے۔ ایک مسجد میں مولوی صاحب نے نماز پڑھائی تو ایک نمازی نے بتایا کہ میرے ساتھ جو شخص نماز پڑھ رہا تھا اس کا فرقہ فلاں تھا۔ مولوی جی نے فوراً مزدور بلوائے اور جہاں وہ شخص نماز پڑھ رہا تھا وہ سارا فرش اکھڑوا دیا اور پھر نئی ٹائلیں منگوا کر وہاں لگوائیں۔ یہ سن کر ہمارے دماغ میں ایک شعر گھومنے لگا اگر متنازعہ نمازی کے سامنے مولوی جی یہ کارروائی کرتے تو وہ یقینا انہیں سناتا۔
مُلا نماز پڑھنے دے مسجد میں بیٹھ کر
مسجد خدا کا گھر ہے تیری ماں کا گھر نہیں

ای پیپر دی نیشن