پنجاب اسمبلی میں قائدایوان کے انتخاب کیساتھ حکومت سازی کے مراحل مکمل، 20رکنی مرکزی کابینہ کا اعلان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 22ویں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھا نے کے بعد وزیراعظم سیکرٹریٹ پہنچے جہاںانہوں نے وزیراعظم ہاﺅس کا چارج سنبھالا۔دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں نے نو منتخب وزیراعظم کی تقریب حلف برداری کا بائیکاٹ کر دیا۔ اپوزیشن کی تینوں بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ن) ،پیپلز پارٹی،متحدہ مجلس عمل کی اعلیٰ قیادت نے تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔یہ پہلا موقع ہے کہ ایوان صدر میں وزیراعظم کے حلف کے تقریب میں ملکی قابل ذکر سیاسی قیادت نے شرکت نہیں کی۔ مزیدبرآں نگران وزیراعظم تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد 16وزرا اور 5 مشیروں پر مشتمل 21 رکنی وفاقی کابینہ کا اعلان کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے شاہ محمود قریشی کو وزیرخارجہ، فواد چوہدری کو وزیر اطلاعات و نشریات، اسد عمر کو وزیر خزانہ بنانے کی منظوری دی ہے۔ دیگر وفاقی وزرا میں شیریں مزاری کو انسانی حقوق، شفقت محمود کو وفاقی وزارت تعلیم کا قلمدان سنبھالنے کی منظوری دی گئی ہے۔ پرویز خٹک کو وزیر دفاع کا قلمدان دیا گیا ۔وفاقی کابینہ میں شامل دیگر پی ٹی آئی رہنماﺅں میں عامرمحمود کیانی کو صحت، غلام سرورخان کو پٹرولیم اور نورالحق قادری کو مذہبی امور اور چودھری طارق بشیر چیمہ کو ریاستی و سرحدی امور کی وزارت تفویض کرنے کی منظوری دی گئی ۔وزیراعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ میں اتحادی جماعتوں کو بھی شامل کیا اور اہم 6 وزارتیں سونپنے کی منظوری دی ۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو ریلوے، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینیٹر فروغ نسیم کو قانون اور خالد مقبول صدیقی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت دی جائے گی۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ کا قلمدان سنبھالیں گی۔ زبیدہ جلال کو دفاعی پیداوار کی وزارت دینے کی منظوری دی گئی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے 5 مشیروں کی بھی منظوری دی ہے اور پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان مشیر پارلیمانی امور ہوں گے۔سٹیٹ بینک کے سابق گورنر عشرت حسین مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات، امین اسلم ماحولیاتی تبدیلی اور محمد شہزاد ارباب مشیربرائے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور عبدالرزاق داﺅد کو مشیر برائے صنعتی پیداوار مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔واضح رہے وزیراعظم ابتدائی طور پر 21 وزارتوں کے قلمدان اپنے پاس رکھیں گے جن میں وزارت توانائی، تجارت، صنعت و پیداوار، نیشنل فوڈ سکیورٹی، وزارت منصوبہ بندی، شماریات، نجکاری، ہاوسنگ اینڈ ورکس اور میری ٹائم کی وزارت شامل ہے۔ عمران خان وزارت داخلہ کا قلمدان بھی اپنے پاس رکھیں گے۔ اس کے علاوہ نارکوٹکس کنٹرول، سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت، پوسٹل سروسز، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، آبی وسائل، مواصلات، کیڈ اور وزارت موسمیات بھی ان کے پاس ہوں گی۔وزارت امورکشمیر و گلگت بلتستان اور وزارت پارلیمانی امور بھی وزیراعظم کے پاس ہو گی۔حکومت نے نامور قانون دان انور منصور خان کو نیا اٹارنی جنرل آف پاکستان تعینات کیا ہے۔ دریں اثنائپنجاب اسمبلی میں گزشتہ روز ارکان نے سردار عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ منتخب کر لیا ۔ عثمان بزدار کو 186جبکہ ان کے مدمقابل حمزہ شہباز کو 159ووٹ ملے۔ اس کے ساتھ ہی مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر کوئی بدمزگی نہیں ہوئی۔ انتخابی عملی خوش اسلوبی سے مکمل ہوا۔ منتخب وزیراعلیٰ کی تقریر کے دوران مسلم لیگ ن کی طرف سے ہنگامہ آرائی سے گریز کیا گیا جس کا مثبت جواب تحریک انصاف کی طرف سے حمزہ شہباز کے خطاب کے دوران خاموشی اختیار کرکے دیا گیا۔ ایسا ماحول قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر بھی نظر آتا تو بہتر تھا۔
وزیراعظم نے کابینہ کی تشکیل میں جہاں خواتین کو مناسب نمائندگی دی وہیں ہر صوبے سے لئے گئے وزراءجبکہ اتحادی جماعتوں کو بھی اکاموڈیٹ کرنا تھا۔ مختلف خیال جماعتوں پر مشتمل حکومت عموماً مشکلات کا شکار ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف نے منتخب ہونے کی صلاحیت رکھنے والے امیدواروں کے لئے دروازے کھولے تو اعتراضات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس موقع پر پارٹی چیئرمین عمران خاں نے کہا تھا کہ جو ہمارے ایجنڈے کو سپورٹ کریں انہیں ساتھ ملانے میں حرج نہیں، جن پارٹیوں نے تحریک انصاف کا ساتھ دیا وہ اس کے ایجنڈے ، پروگرام اور منشور سے بخوبی واقف ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت میں کوئی بڑا گروپ شامل نہیں جو حکومت کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ اس صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان کو اپنے پروگرام اور ایجنڈے کی تکمیل میں اتحادیوں کی رخنہ اندازی کا خدشہ نہیں ہے تاہم نئی حکومت کے سامنے چیلنجز مشکلات اور مسائل کا کوئی شمار بھی نہیں۔ نیک نیتی، میرٹ کو اولیت دے کر اور مطلوبہ مہارت کو بروئے کار لا کر ان سے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے۔ کابینہ میں کئی لوگ پہلی بار شامل ہوئے ہیں، کچھ پہلے بھی وزیر رہ چکے ہیں۔ نئے وزراءاپنی بہترین کارکردگی کے باعث ہی عہدوں پر برقرار رہ سکیں گے۔ آزمودہ کار وزراءکو عمران خان کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اپنی تمام تر مہارت اور توانائیاں بروئے کار لانا ہونگی۔
عمران خان نے جو پروگرام دیا اس کی تکمیل کیلئے ان کو خود ہمہ وقت سرگرم رہنا اور وزراءکی کارکردگی مانیٹر کرنا ہوگی۔ مرکز کے ساتھ پنجاب اور کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت بن گئی بلوچستان میں وہ حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت مرکزی حکومت کے ساتھ تعاون پر تیار نظر آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی پارٹی کیلئے اپنے پروگرام اور ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پنجاب میں اقتدار کا حصول ضروری ہے۔ اب تحریک انصاف کی حکومت کیلئے اپنے منشورپر عمل کرانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ ہے اور نہ ہی کوئی ایکسکیوز ہے۔ زبوں حال معیشت نئی حکومت کو ورثے میں ملی۔ اس کی مضبوطی کیلئے اسد عمر کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا ہوگا۔ آئی ایم ایف امریکہ کے دباﺅ میں آکر تعاون نہیں کر رہا تو سعودی عرب اور چین نے مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اسلامک ڈیویلپمنٹ بینک بیل آڈٹ پیکیج دینے پر تیار ہے۔ یوں معیشت کی بہتری کا امکان ہے۔ شاہ محمود قریشی خارجہ امور میں تجربہ رکھتے ہیں۔ عمران خان کا ذاتی اثرو رسوخ بھی خارجہ پالیسی کی مضبوطی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جس سے دہشتگردی میں واضح کمی ہوئی۔ کراچی کا امن بحال ہو ا۔ انرجی کرائسز خاتمہ کی راہ پر ہے۔ سابق حکومت ان معاملات کو یہاں چھوڑ کر گئی ان کو وہیں سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جو خود نئی حکومت کیلئے پذیرائی کا باعث بنے گا۔ اپنے وعدوں اور دعوﺅں کے مطابق حکومت کو تعلیم اور صحت کے حوالے سے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ پولیس اصلاحات بھی ناگزیر ہیں۔ کے پی میں تحریک انصاف تعلیم و صحت کے حوالے سے اقدامات اور پولیس اصلاحات کو رول ماڈل قرار دیتی ہے۔ ایک صوبے میں ایسے اقدامات پورے ملک کے مقابلے میں آسان ہو سکتے ہیں۔ پورے ملک میں خیبر پختونخواکے رول ماڈل کا اطلاق مشکل تو ہوگا ناممکن نہیں ہے۔
عمران خان عوام کو انصاف کی فراہمی اور کرپشن کے خاتمے کے عزم و ارادے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ بنیادی طور پر ان کا یہی ایجنڈا اور نعرہ کامیابی کا باعث بنا۔ ملک کی اعلیٰ سیاسی لیڈر شپ کرپشن کے شدید الزامات کی زد میں ہے، بہت سے لیڈروں پر مقدمات قائم ہیں کئی نیب کو مطلوب ہیں۔ خود پی ٹی آئی کے اندر بھی کئی کے خلاف کرپشن کے الزامات اور مقدمات ہیں۔ عمران خان سے کرپٹ لوگوں کے ساتھ سمجھوتے کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ کڑا احتساب وقت کی ضرورت ہے اور عمران خان کی عوام اور قادر مطلق سے کمٹمنٹ بھی ہے، اس کااظہار انہوں نے اپنے بطور وزیراعظم انتخاب کے بعد قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران بھی کیا۔ کڑے احتساب کی ناگزیریت سے گریز ممکن نہیں مگر اس میں سیاسی انتقام کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہئے۔
وزیراعظم کی حلف برداری تقریب میں ملک کی اعلیٰ سیاسی لیڈر شپ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے باعث شریک نہیں ہوئی۔ وزیراعظم آزاد کشمیر اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی عدم شرکت مرکز کے آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے ساتھ مستقبل میں تعلقات پر سوالیہ نشان ہے۔ دونوں جگہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔
کابینہ جانفشانی اور مہارت کیساتھ چینلجز سے نبرد آزما ہو سکتی ہے
Aug 20, 2018